• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:خالد پرویز …برمنگھم
(دوسرا حصہ )
مکہ کبھی بھی ایک بڑا تجارتی مرکز نہ رہا تھا قبل از اسلام کے عہد میں بھی یہاں پہنچنا آسان نہ تھا پھر بھی شروع سے ہی لوگ یہاں ہجوم درہجوم جمع ہوتے تھے کہ یہ ایک مقدس مقام تھا۔ ایک لق و دق صحرا میں جہاں قبیلوں کے درمیان جنگ و جدل کا دور دورہ رہتا تھا۔یہ ایک ایسی پناہ گاہ تھی جہاں تحفظ کی ضمانت تھی اور پانی مفت تھا۔ دور نبوت کے بعد 750کے بعد دمشق، بغداد اور قاہرہ میں موجود اسلامی حکومتوں کے حکمرانوں نے دور دراز سے آنے والے حجاج کے قافلوں کے لئے راستے میں پانی کے کنویں اور مسافروں کے ٹھہرنے کے انتظامات کروا دیئے تھے۔ زمانہ بدلتا گیا، اور مکہ میں ہر آنے والے نئے دور میں قدیم مٹتا چلا گیا، صدیاں گزرنے کے ساتھ ساتھ اب یہاں فلک بوس عمارات کھڑی ہوگئیں اور شہر کا نقشہ ہی تبدیل ہوگیا ہے۔ جدید دور کی تمام تر سہولتوں کے ساتھ مکہ اب جدید دنیا کے جدید شہر کا منظر پیش کرتا ہے۔ لیکن صدیوں سے جاری تبدیلیوں کے اس تسلسل میں دو چیزیں تبدیل نہیں ہوئیں وہ آج بھی ایک عہد سے دوسرے عہد تک موجود ہیں اور وہ مناسک حج اور مقامات حج ہیں۔ سات سو سال تک اس شہر میں ایک خاندان واحد کی حکومت رہی جو اپنا سلسلہ نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑتےتھے اور اپنے آپ کو شرفاء کہلاتے، شرفاء فتادہ نے 1201ء میں اس خاندان کی حکومت کی بنیاد رکھتے ہوئے مکہ کو اپنا دارالخلافہ بناتے ہوئے پھر 1925ء تک حجاز پر حکومت کی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں حجاز میں طاقت کے توازن میں نمایاں تبدیلیاں آئیں۔ جنگ عظیم اول کے بعد عبدالعزیز ابن مسعود کی سربراہی میں ایک نئی حکومت وجود میں آئی جس نے شہر مکہ پر قبضہ کرلیا۔ اس دور میں حج کی انتظامیہ کی تشکیل نو ہوئی اور شاہرائوں کو ڈاکوئوں سے صاف کیا گیا اس عرصہ میں مکہ دور جدید کا ایک جدید شہر تو بن گیا مگر اس شہر کا اہم کردار آج بھی کسی تبدیلی کے بغیر جاری ہے مکہ کی مقامی آبادی حجاج کی میزبانی اور زم زم کنویں اور خانہ کعبہ کی دیکھ بھال میں مصروف ہے۔ مناسک حج ادا کرتے ہوئے آج کے دور کے حاجی ایک ایسے تسلسل کا حصہ بن جاتے ہیں جو پیچھے چلتے چلتے پہلے پیغمبروں اور نبی نوع انسان کے خدا پر یقین کی آزمائش تک پہنچ جاتا ہے۔ اس لحاظ سے حج زمان و مکاں سے گزر کر جانے والے سفرکا نام ہے جسکا مقصد لوگوں کو اولین مذہب سے جوڑنا ہے جو ابراہیمؑ کا توحید کا مذہب ہے یہ حج کی وہ پوشیدہ جہت ہے جو ساری مذہبی رسوم کے عمل میں سے ہوکر گزری ہے اور جو لمحہ حاضر کو ماضی سے ملادیتی ہے۔ مکہ وہ شہر ہے جو مسلمانوں کے لئے مقناطیسی کشش رکھتا ہے اور جس کی طرف منہ کرکے مسلمان عمر بھر نمازیں پڑھتے رہتے ہیں۔ اس شہر کی سرزمین پر قدم رکھنے کی آرزو برسوں دلوں میں پروان چڑھتی رہتی ہے تب عمر کے کسی خاص حصہ میں جاکر یہ آرزو پوری ہوتی ہے۔ صدیوں پر پھیلے زمانے میں خواہ امن ہو یا جنگ مکہ نے اپنے پاس آنے والوں کو ہمیشہ فیض و برکات اور انعام و اکرام سے نوازا ہے۔ اور ایک نئی اور بہتر زندگی کی جستجو کے لئے نیا حوصلہ اور ہمت عطا کی ہے۔ شاید اسی لئے یہ زندگی کا حقیقی سفر سمجھا جاتا ہے۔ حج محض مکے کے لئے ایک سفر کا نام نہیں ہے بلکہ مکہ پہنچنے کے بعد تو ابتدا ہوتی ہے۔ حج اپنے طور پر ایک ایسی سیماب صفت کیفیت کا نام ہے جس کے بہت سے مراحل ہیں۔ مگر پھر بھی حج کے معنی ایک سفر کے بھی ہیں۔ مکہ کا سفر ہمیشہ سے کسی منزل تک پہنچنے کے ایک ذریعے سے زیادہ اہم رہا۔ دور جدید کے ذرائع نقل و عمل سے پہلے اس سفر کے لئے مہینے بلکہ کئی کئی برس درکار ہوتے تھے۔ حاجی پہاڑوں، سمندروں، صحرائی بیابانوں کو عبور کرتے، راستے میں آنے والے شہروں، انجانے راستوں سے گزرتے، اجنبی لوگوں سے ملتے، زمینی مشکلات، جسمانی بیماریاں، ناگزیر نقصاں اور غیرمتوقع رنج و غم، حاجیوں کا سفر کبھی بھی خطرات سے خالی نہیں رہا۔ چوروں، ڈاکوئوں کا خطرہ، سرحدوں پر موجود حریص ار لالچی کارندے، جنگ، غلامی، مالی تباہی، سیاسی ابتری، تعصب، دھوکہ فریب اور تحفظ مہیا کرنے والے جھوٹے افراد سبھی سے انہیں واسطہ پڑتا ہے۔ تقریباً 1930ء تک جوں جوں حجاج اپنی منزل کے قریب پہنچتے زندگی ان کے لئے اتنی ہی زیادہ خطرناک ہوتی جاتی۔ بنو حرب، بنو عتیبہ اور دوسرے قبائل نے حجاز سے گزرنے والے راستوں پر خوف و دہشت پھیلا رکھی تھی۔ ان کے علاقوں سے گزرنے والے حاجیوں کے قافلے اگر انہیں مال و زر نہ دے سکتے تو یہ ان پر بے رحمی سے حملہ کردیتے تھے اور ان میں اس وقت تک کمی نہ آئی جب تک بیسویں صدی میں گاڑیوں، بحری جہازوں، ہوائی جہازوں اور ریل گاڑیوں نے اونٹ کو پیچھے نہیں چھوڑ دیا۔ بیسویں صدی میں دور جدید کے نئے انتظامی طریقوں نے حج کے نہ صرف خطرات کو کم کیا بلکہ حج کے سفر کا ڈھانچہ بھی تیزی سے تبدیل ہوا۔ لیکن بنو حرب اور بنو عتیبہ کی باقیات نہ صرف ارض مقدس میں بلکہ دنیا بھر میں ایک نئے روپ اور نئے رنگ میں پھیل گئے۔ چند ماہ قبل مدینہ منورہ کے ایک ہوٹل کے استقبالیہ میں بیٹھے ہوئے ایک مقامی نوجواں کا یہ فقرہ آج بھی میرے ذہن میں گونج رہا ہے کہ ’’حاجی پہلے اونٹوں پر سوار ہوکر آنے والے لٹیروں کے ہاتھوں لٹتے تھے، اب لمبی گاڑیوں اور سجے سجائے دفاتر میں بیٹھنے والوں کے ہاتھ لٹ رہا ہے۔‘‘ یہ داستان حرم جتنی سادہ ہے اتنی ہی رنگین بھی، ابراہیمؑ کی پکار پر لبیک کہنے والی روحوں کا صدیوں پرانا سفر ابد تک جاری رہنا ہے اور جاری رہے گا۔ کوئی مشکل اور پریشانی انہیں مکہ پہنچنے میں رکاوٹ نہ بن پائے گی۔ زمان و مکاں چاہے کتنے رنگ بدلے، لیکن مکہ کا کردار نہیں بدلے گا۔ اس کی مقناطیسی کشش قائم ہے اور قائم رہے گی اور مکہ ہمیشہ اپنے پاس آنے والوں کو انعام و کرام سے نوازتا رہے گا۔
تازہ ترین