• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز سولہ وزیروں اور پانچ مشیروں پر مشتمل نئی وفاقی کابینہ کا اعلان کردیا جو پیر کو حلف اٹھاکر باضابطہ طور پر کاروبار مملکت کا آغاز کرے گی۔ وفاق میں چونکہ ایک مخلوط حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے لہٰذا اکیس رکنی کابینہ کے چھ ارکان کا تعلق دوسری پارلیمانی جماعتوں سے ہے۔ کابینہ کے بیشترارکان پیشہ ورانہ اہلیت کے حامل اور تجربہ کار ہیں کیونکہ ان کی بڑی تعداد جنرل مشرف اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں شامل رہ چکی ہے ۔ نئی کابینہ کے اکیس میں سے بارہ ارکان جنرل مشرف کے دور میں وفاقی کابینہ کا حصہ رہے ہیں۔ ان میں فروغ نسیم، طارق بشیر چیمہ، غلام سرور خان،زبیدہ جلال، فواد چودھری، شیخ رشید احمد، خالد مقبول صدیقی، شفقت محمود، مخدوم خسرو بختیار، عبدالرزاق دائود،ڈاکٹر عشرت حسین اور امین اسلم شامل ہیں۔کابینہ کے ارکان میں سے مزیدپانچ اراکین نے وزیر کے طور پر پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومتوں میں کام کیا ہے جن میں پرویز خٹک،بابر اعوان،شاہ محمود قریشی،فہمیدہ مرزا اور فواد چودھری شامل ہیں۔ یوںکابینہ کے صرف تین ارکان یعنی اسد عمر، ڈاکٹر شیریں مزاری اور عامر کیانی ایسے ہیں جو تحریک انصاف کے سوا کسی سیاسی پارٹی کے رکن اور کسی سابقہ حکومت کا حصہ نہیں رہے۔مخلوط حکومت میں شریک دوسری سیاسی جماعتوں کے وزراء کو بھی اب عمران خان کی قیادت میں ان کی پارٹی کے منشور اور ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کام کرنا ہوگا یا عمران خان ان اتحادی جماعتوں کے منشور اور ایجنڈے کو بھی اپنے پروگرام کا حصہ بنائیں گے، اس سوال کوابتداء ہی میں طے کرلیا جانا چاہیے تاکہ نئی حکومت پوری یکسوئی کے ساتھ ملک و قوم کو درپیش چیلنجوں سے نبردآزما ہو سکے۔ وفاقی کابینہ میں قانون اور انصاف کا محکمہ ملک کے ممتاز ماہر قانون سینیٹر فروغ نسیم کو ملا ہے جن کی جماعتی وابستگی اگرچہ ایم کیو ایم سے ہے لیکن جو ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں میں پرویز مشرف کے خلاف چلنے والے مقدموں میں ان کی وکالت کی ذمہ داری انجام دیتے رہے ہیں اور ان کے قریبی مشیروں میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ لہٰذا مبصرین بجاطور پر سوال اٹھارہے ہیں کہ اس صورت حال میں پرویز مشرف کے خلاف سنگین الزامات میں قائم مقدمات اپنے منطقی انجام تک پہنچ پائیں گے یا نہیںجبکہ وزیر اعظم عمران خان نے سب کے بے لاگ احتساب کا جو وعدہ قوم سے کیا ہے اس کی تکمیل کے لیے ان مقدمات کا کسی مداخلت کے بغیر معمول کے عدالتی طریق کار کے تحت اپنے اختتام تک پہنچنا لازمی ہے۔ کابینہ کے دیگر ارکان اور ان کے محکموں کی تفصیل یہ ہے: چوہدری طارق بشیر چیمہ وزارت ریاستی و سرحدی امور، نور الحق قادری وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی، ڈ اکٹر شیریں مزاری وزارت انسانی حقوق، غلام سرور خان وزارت پیٹرولیم ڈویژن، زبیدہ جلال وزارت دفاعی پیداوار، فواد احمد چوہدری وزارت اطلاعات و نشریات، عامر محمود کیانی نیشنل ہیلتھ سروسز ڈویژن، مخدوم شاہ محمود قریشی وزارت خارجہ، پرویز خٹک وزارت دفاع، اسد عمر وزارت خزانہ، شیخ رشید احمد وزارت ریلوے، فہمیدہ مرزا بین الصوبائی رابطہ ڈویژن، خالد مقبول صدیقی انفارمیشن ٹیکنالوجی اور شفقت محمود وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تر بیت اور قومی تاریخ و ادبی ورثہ۔ وزیراعظم کے پانچ مشیر وں میں ارباب شہزاد اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، عبد الرزاق دائود تجارت، ٹیکسٹائل، صنعت و پیداوار اور سر مایہ کاری، ڈ اکٹر عشرت حسین صنعتی اصلاحات و کفا یت شعاری، امین اسلم موسمیاتی تبدیلی اور ظہیر الدین بابر اعوان پا رلیمانی امور کے مشیر شامل ہیں۔یہ تمام شخصیات اپنے شعبوں کے لیے پوری طرح اہل ہیں اس لیے امید ہے کہ نئی حکومت تیز رفتار اور اچھی کارکردگی کا ثبوت دے گی۔وزارت داخلہ اور متعدد دوسرے محکمے کسی کو نہیں دیے گئے ہیں جس سے واضح ہے کہ کابینہ کے ارکان میں ابھی کئی اضافے ہوں گے تاہم توقع ہے کہ تحریک انصاف ماضی کی حکومتوں کی طرح وزیروں کے لشکر پالنے سے گریز کرے گی اور ضرورت سے زیادہ قومی وسائل کے خرچ کو بہرصورت روکے گی۔

تازہ ترین