• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاق کے بعد پنجاب میں بھی جو ملک کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ وسائل رکھنے والا صوبہ ہے، مسلم لیگ (ن) کی جگہ تحریک انصاف کا اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجانا ہماری سیاسی تاریخ کا بلاشبہ نہایت اہم واقعہ ہے اور ہمارے سیاسی کلچر پر اس کے بڑے دور رس اثرات متوقع ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی سربراہی کے لیے سردار عثمان بزدار کی شکل میں تحریک انصاف کے قائد نے عمومی اندازوں کے برعکس اپنے ایک ایسے ساتھی کا انتخاب کیا ہے جو نہ صرف یہ کہ صوبے کے انتہائی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتا ہے بلکہ خود بھی ایک ایسے گھرانے کا فرد ہے جو بجلی کی روشنی سے بھی محروم ہے۔لہٰذا وہ محروم طبقوں اور علاقوں کے مسائل کا ادراک یقیناً بہتر طور پر کرسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے لیڈر حمزہ شہباز کو 27 ووٹوں سے شکست دے کر وزیر اعلیٰ منتخب ہونے والے عثمان بزدار نے اپنے خطاب میں غربت و پسماندگی کے خاتمے کو خصوصی اہمیت دی ۔ اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ کرپشن کا خاتمہ، گڈ گورننس، مضبوط اور فعال بلدیاتی نظام ، پولیس کو غیرسیاسی بنانا اورپسماندہ علاقوں کو ترقی دینا ہماری حکومت کی اولین ترجیحات ہوں گی۔انہوں نے صوبے میں ’’اسٹیٹس کو‘‘ توڑنے کے عزم کا اظہار بھی کیا جس کے بغیر حقیقی تبدیلی ممکن نہیں۔ عثمان بزدارکے راستے میں یقیناً بڑے چیلنج حائل ہیں۔ حکومت کا کوئی سابقہ تجربہ انہیں حاصل نہیں جبکہ روایتی اور موروثی سیاست کرنے والے عناصر بھی ان کی راہ میں مشکلات پیدا کرنے کی کوششیں کرسکتے ہیں۔ تاہم یہ بات اطمینان بخش ہے کہ قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے اپنے خطاب میں حکومت کے اچھے کاموں میں تعاون کی بھرپور یقینی دہانی کرائی ہے ۔ قومی تعمیر و ترقی کیلئے اختلاف برائے اختلاف کی سیاست سے اجتناب حب الوطنی کا لازمی تقاضا ہے ۔ اس تناظر میں حمزہ شہباز کا اچھے کاموں میں حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان نہایت خوش آئند ہے البتہ ان کی جانب سے مبینہ انتخابی دھاندلیوں کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ بالکل جائز ہے اور اسے جلد ازجلد پورا کیا جانا چاہیے۔

تازہ ترین