• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالآخر عمران خان مسند اقتدار پر براجمان ہوگئے ہر سو مبارک سلامت کے نعرے گونج رہے ہیں۔ وزیر اعظم منتخب ہونے پر عمران خان نے اسمبلی فلور پر جو پہلی تقریر کی اس میں انہوں نے وہی کچھ دہرایا جو ان کے منشور اور انتخابی مہم کا حصہ رہا ہے گو کہ نواز لیگ نے احتجاجی شور شرابے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی حالانکہ انہیں فلور آف دی ہائوس اپنی شکست کو فراخ دلی سے قبول کرکے آنے والے وقت کو بہتر پاکستان کے لئے خود کو آمادہ کرنا چاہئے تھا لیکن شاید میں ہی بھول رہا ہوں کہ میاں صاحب تو انتقام لینا کبھی نہیں بھولتے چاہے ان کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو رہا ہو۔ اپنی اسی ضد اور انا پرستی کی وجہ سے وہ نا صرف معتوب ہوئے اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا، ان کا خیال تھا کہ اس طرح انہیں ہمدردی کا ووٹ ملے گا اور ایک بار پھر وہ بھاری اکثریت سے چھا جائیں گے اور ہر قسم کی ہر طرح کی سزا دھری کی دھری رہ جائے گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ جو ہر چیز پر ہر ہر طرح سے قادر ہے اسے اور بڑا بول سخت ناپسند ہے۔ میاں صاحب اور ان کا خاندان دنیاوی جاہ و جلال میں ہمیشہ بھول جاتا ہے کہ کوئی ہے جو ان کو نیچے سے اوپر لایا ہے، اس کی سزا بار بار بھگتتے ہیں پھر بھی ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا نہ ہی وہ کسی طرح عبرت پکڑتے ہیں وہ کسی لکیر کے فقیر کی مانند اپنی آئی پر اڑے رہتے ہیں حالانکہ ملک و قوم کا مفاد ذاتی ضرورت اور مفاد سے کہیں مقدم ہوتا ہے میاں صاحب چونکہ ایک تاجر ہیں اس لئے وہ ہر معاملے کو اپنی ہی عینک سے دیکھتے ہیں جس طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بنیادی طور پر ایک پہلوان ہیں وہ ہر معاملے کو طاقت و قوت کے ذریعے چلانا اور حل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ انسانی فطرت بھی ہے جس کی جیسی تربیت ہوئی ہوتی ہے وہ اس طریقے سے اپنی منزل کی طرف چلتا ہے۔ دنیا کیا کہہ رہی ہے، کیا کر رہی ہے، اس سے اسے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ میاں نواز شریف نے خود اپنے آپ کو مشکلات میں پھنسایا ہے۔

عمران خان صاحب نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا ہے۔ وہ مملکت اسلامیہ پاکستان کے منتخب وزیر اعظم کی حیثیت سے مسند اقتدار سنبھال چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے قول پر کس طرح اور کس قدر ثابت قدم

رہتے ہیں۔ عمران خان صاحب نے اپنے جس عزم کا اظہار کیا ہے جس نے انہیں کامیابی کی بلند ترین سطح بخشی ہے اس پر وہ کس طرح کار بند ہوتے ہیں عوام میں آگاہی کا جو شعور انہوں نے جگایا ہے وہ بڑا اہم ہے۔ عمران خان صاحب آپ نے قوم کو اس خوابیدگی سے نکال تو لیا ہے اب آپ کو بھی ہر طرح کی جوابدہی کے لیے تیار رہنا ہو گا جس کا اظہار آپ خود بھی اپنی پہلی تقریر میں فلور آف دا ہائوس کر چکے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کی یہ مسند کسی بھی طرح پھولوں کی سیج نہیں۔ یہ تو بھرپور کانٹوں کی سیج ہے۔ اس پر قدم قدم حزم و احتیاط سے چلنا ہوگا۔ ویسے بھی آپ کے چاروں اطراف آپ کے سیاسی مخالفین کی فوج ظفر موج کھڑی ہے۔ آپ کی ہر ہر جنبش پر نظر رکھے آپ کو ٹانگ اڑا کر گرانے کو تیار موجود ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ آپ فیلڈ میں کھڑے ان سیاسی کھلاڑیوں کو کیسے مات دیتے ہیں، کیسے ورلڈ کپ کے اس مقابلے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ قوم کو آپ سے بڑی امیدیں ہیں۔ ان کی توقعات پہلے سے کہیں زیادہ اور مختلف ہیں وہ امید کر رہے ہیں کہ آپ اپنے قول کے مطابق ملک سے کرپشن و بدعنوانی کا خاتمہ کر کے ملک کو اپنے قدموں پر کھڑا کردیں گے امریکہ یا دیگر کسی سپر پاور کے دبائو کو قبول نہیں کریں گے۔ آپ ہر وہ قدم اٹھائیں گے جو پاکستان کو مستحکم و مضبوط کرنے کا باعث ہو۔ آپ وطن عزیز کو بیرونی قرضوں کے بوجھ سے نجات دلانے میں اپنے قول کو سچ ثابت کریں گے۔ نوکر شاہی اور اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کو مشوروں کے طور پر سوچ سمجھ کر برداشت کریں گے کہیں ٹکر اور مخالفت کی فضا نہیں قائم ہونے دیں گے۔ وطن عزیز جوہری قوت کا حامل ہونے کے باوجود اپنی خود مختاری اور استحکام سے عاری ہے ہم بار بار کشکول توڑ دینے اور بیرونی قرضے نہ لینے کی نوید سن چکے ہیں۔ ہمارے کان یہ ڈرامائی مکالمے سن سن کر پک چکے ہیں آپ اگر واقعی تبدیلی کے ایجنڈے پر کام کرنے کے لیے اقتدار میں آئے ہیں تو آپ کو اپنے وعدوں کے مطابق یہ ثابت کرنا ہی ہوگا کہ آپ نے جو وعدے قوم سے کئے ہیں وہ کسی بھی طرح انتخابی وعدے نہیں تھے ان کے پس پشت بڑی سوچ و فکر ہے اب ان پر عمل کا وقت آگیا ہے آپ یقین جانیں کہ اگر آپ نے صرف اپنے وعدے ہی پورے کر دیے تو قوم آپ کی احسان مند ہوگی اور مسند سے کوئی آپ کو اتار نہیں سکے گا۔ کوئی مارشل لا آپ کے راستے میں نہیں آئے گا افواج پاکستان بھی اس ملک و قوم کی افواج ہیں، ان کے تمام چھوٹے بڑے اسی زمین کی پیداوار اور محب وطن اور مخلص پاکستانی ہیں اگر آپ نے اپنے وعدے وفا کردیے تو افواج بھی آپ کی ہر طرح پشتیبان بنے گی اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا عالمی قوتیں منتظر ہیں آپ کے منظر عام پر آنے کی آپ کے اقدامات کی خصوصاً امریکا اور اس کے حواری بھارت بڑی کڑی نظر سے آپ کے ہر ہر قدم پر نگاہ جمائے ہوئے ہیں۔

مملکت خدا داد پاکستان کا یہ خطہ جس کا اقتدار آپ کو نصیب ہوا ہے آپ سے بڑی توقعات رکھتاہے۔ اس خطے سے ملحق ایران اور ترکی ہمارے حلیف و ہم سایہ ہیں ان کے اور ہمارے دکھ سکھ سانجھے ہیں۔ امریکہ نے وطن عزیز پر دبائو بڑھانے اور خطے پر من مانی کرنے کے جو پہلے ایران کو پھر برادر ملک ترکی کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے اب وہ وطن عزیز کی طرف اپنی جارحانہ نظریں اٹھا رہا ہے اور نئے سے نئے بیان جاری کر رہا ہے ’’دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘‘ پاکستان کو قرضوں کے بوجھ سے آزاد کرنے کے جو خود آپ کی سابق اہلیہ اور آپ کے بچوں کی والدہ نے بھی ساٹھ فی صد قرضہ کی ادائیگی کی پیش کش کی ہے اس کے علاوہ جیسا آپ نے کہا ہے کہ بیرون ملک غیر قانونی طور پر منتقل کی گئی، دولت کو آپ ہر قیمت ہر حال میں واپس لائیں گے تو اگر آپ پہلی فرصت میں چند بڑے مگر مچھوں کو اگر نشان زد کردیں اور ان کے گرد قانون کا گھیرا تنگ کردیا جائے تو یقیناً پاکستان کی لوٹی ہوئی بڑی دولت واپس لائی جاسکتی ہے اور پاکستان کو اپنے قدموں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے آپ کی یہ خوبی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں آپ نے وسائل نہ ہوتے ہوئے شوکت خانم اسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے بڑے منصوبوں کی تکمیل کی اسی اسپرٹ اور توجہ و قوت سے اگر آپ چاہیں تو پاکستان کے بننے والے تمام ڈیم اور تمام اہم منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ سکتے ہیں جس مسند اقتدار پر آپ بیٹھے ہیں وہ کسی طرح سے کمزور ہے نہ ہی کسی بیرونی قوت کی محتاج۔ وطن عزیز اللہ تبارک و تعالیٰ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے ہم جتنا اللہ کا شکر ادا کریں کم ہے ،اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو آپ کو وہ کرنے کی قوت عطا کرے جس کا آپ اظہار اور وعدے کرتے رہے ہیں ملک و قوم آپ کے مثبت اقدامات کی منتظر ہے آپ کی پشت پر کھڑی ہے اللہ تعالیٰ وطن عزیز کی حفاظت فرمائے اور ہر طرح کے دشمنوں سے محفوظ رکھے آمین، یا رب العالمین

تازہ ترین