• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمد صادق کھوکھر…لیسٹر
ممتاز کالم نویس ایاز میر کا کالم بعنوان’’ رندوں کی بد دعا‘‘ ایک اخبار کی زینت بنا جس میں موصوف دینی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کی شکست پر خوشی کے شادیانے بجاتے ہوئے اخلاقی حدود بھی پار کرگئے انتخابات میں کامیابی پر خوشیاں منانا ان کا حق ہے۔ وہ بے شک جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کو ہدف تنقید بنائیں۔ لیکن عالم مد ہوشی میں ملک کی نظریاتی بنیادوں پر تیشہ نہ چلائیں۔ یہ پاک سر زمین ہے کوئی یورپ کا مے خانہ نہیں جہاں حوا کی بیٹیوں کے ساتھ رقص و سرور اور اخلاق باختگی سے آسودگی حاصل کی جائے۔ یہ وہ سر زمین ہے جس کے حصول کی خاطر ہمارے آباؤ اجداد نے آگ کے دریا عبور کیے تھے۔ اپنے گھر بار اجاڑے۔ اس گلشن کو نکھارنے اور سنوارنے کی خاطر لاکھوں شہداء نے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں تاکہ ایک ایسا خطہ زمین حاصل کیا جائے جہاں مسلمان اپنی تہذیب و تمدن، اپنی روایات اوراسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں لیکن اس کے برعکس ایاز میر صاحب ایک ایسے حکمران کی بد اعمالیوں کو خوش نما بنا کرپیش کر رہے ہیں جو ملک دو لخت کرنے کا باعث بنا۔ وہ جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’وہ اپنی طرز کا تھا اور اس میں کئی خوش نما پہلو نمایاں تھے۔ جنرل صاحب شغل میلے والے شخص تھے۔ صدر ہاؤس میں شام کو محفلیں بھی جمتیں اور اچھی شکلوں والے لوگ بھی ان میں پائے جاتے۔ جنرل صاحب کو ثقافت سے بہت لگاؤ تھا۔ اسی لیے ملکہ ترنم نور جہاں سے خاص قربت تھی۔ ملکہ ترنم کا سر لگا تو جنرل صاحب کو آسودگی ہوئی‘‘۔ گویا جنرل یحییٰ کا دور اس لیے خوش نما اور روشن ترین تھا کہ وہ شراب و عورت کے رسیا تھے اور صدر ہاؤس میں بھی اس طرح کی محفلیں سجاتے تھے۔ جن سے کئی بادہ نوش مستفید ہوتے تھے۔ کون نہیں جانتا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بادہ خور جرنیلوں، سیاست دانوں اور بیوروکریسی کا کتنا بڑا گھناؤنا کردار تھا جن کی بد اعمالیوں کے باعث ہماری قوم کو علیحدگی کا منحوس دن دیکھنا پڑا۔یحییٰ خان کے اس کردار اور عیاشیوں کے متعلق جنرل جہانداد خان لکھتے ہیں کہ’’عیاشی کی اس عادت کو انہوں نے اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا بلکہ عیش و عشرت کے دلدادہ اور اخلاق باختہ افسران کو اپنے گرد جمع کر لیا۔ اور خود غرض اور مطلب پرست افراد نے یحییٰ خان کی کمزوری سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اس زمانے میں یہ بات عام تھی کہ ملازمت میں ترقی اور دیگر فوائد کا راستہ شراب خانے اور رسوائی کے کوچے سے گزرتا ہے۔ ایسا بھی مرحلہ آیا کہ ان کے پیشہ ورانہ فیصلوں سے بھی شراب کی بو آنے لگی‘‘۔ان کی اس کمزوری سے مخالفین نے بھی خوب فائدہ اٹھایا۔ اور وہ انہیں اپنے مقاصد کی خاطر استعمال کرتے رہے۔ انہوں نے الیکشن تو کرا دئیے لیکن الیکشن کے بعد وہ حالات کنٹرول نہ کر سکے سیاسی حل کی بجائے فوجی کاروائی کا حکم دے دیا جس سے عوام مزید بھڑک اٹھے۔ خود جنرل صاحب محمد شاہ رنگیلا کی طرح شراب میں مد ہوش رہتے۔ وہ ہر وقت آوارہ منش عورتوں میں گھرے رہتے۔ حتیٰ کہ جب انہیں پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کی اطلاع دی گئی اس وقت بھی وہ حالتِ خمار میں تھے۔ یہ تھا ان کا روشن ترین طرزِ حکمرانی جس کی اتنی تعریف کی جا رہی ہے۔حیرت ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کا ایک مخصوص طبقہ ثقافت کو شراب، عورت اور موسیقی تک محدود کر کے عالمِ مستی میں اپنے علم و دانش کے ایسے موتی پروتا ہے کہ ان کے معتقدین عش عش کر اٹھتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے وہ منزل پا لی ہے جو مغرب کی معراج ہے۔ حالانکہ مغرب نے عقل، فہم اور مسلسل جدوجہد و جستجو سے ترقی کی ہے، ادارے بنائے ہیں تعلیم کو فروغ دیا ہے۔ اپنی تہذیبی بنیادوں پر تیشہ نہیں چلایا لیکن ہمارے اربابِ اختیار نے صرف نقالی کو وتیرہ بنایا ہوا ہے اور وہ بھی عیش و عشرت، رقص و سرور اور دیگر حیا سوز امور میں، حالانکہ ان چیزوں سے کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ میں اکثر غور کرتا ہوں کہ ہماری سیاسی معاشی اور اخلاقی پستی کا سبب کیا ہے؟ کتنی ہی خرابیاں ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑ چکی ہیں۔ مقتدر طبقہ اور ہمارے حکمران زمینی حالات سے بالکل بے خبر رھتے ہیں۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا صرف بالائی طبقے تک محدود رہتا ہے۔ رہنمائی کیلئے وہ ایاز میر جیسے دانشوروں کی طرف دیکھتے ہیں۔ ایسے بہی خواھوں کی ساری تگ و دو ان کے ذاتی مفادات ہوتے ہیں۔ انہیں اس امر کا ادراک ہی نہیں ہوتا کہ عوام کے شب و روز کیسے بسر ہوتے ہیں اور وہ نانِ جویں کے حصول کی خاطر کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور ان کے حواریوں کی آنکھیں اس وقت کھلتی ہیں جب عوام انہیں ایوانوں سے باہر نکال پھینکتے ہیں یہ عجیب دانشور ہیں جو زوال و پستی کی دعوت دیتے ہیں۔ مو صوف فرماتے ہیں کہ ’’نیا پاکستان تبھی شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے جب کرپشن کے ساتھ ساتھ رجعت پسندی کو بھی ختم کیا جائے‘‘۔ وہ اسلامی قدروں کو رجعت پسندی سے تعبیر کرتے ہیں حالانکہ خود رجعت پسندی کی طرف دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ مثلاً شراب تو نبی اکرمﷺ کی بعثت سے بھی قبل مشرکین مٹکوں کے حساب سے پیتے تھے۔ وہ کعبے کا طواف بھی حالت عریانی میں کرتے تھے۔ اسی طرح پرائی عورتوں سے متمتع ہونے والے بھی صدیوں سے اس جہاں میں موجود رہے ہیں۔ ان تمام خرابیوں کا سلسلہ تو زمانہ قدیم سے جڑتا ہے جنہیں آج جدت اور فیشن کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے عہد کہن میں بھی انبیاء کرام کو رجعت پسندی (اساطیر الاولین) کے طعنے ملتے تھے لیکن مشرکین کو اپنی خام فکر پر اس زمانے میں بھی اسی طرح ناز ہوتا تھا جس طرح دورِ حاضر میں یہ طبقہ نازاں ہے۔ لیکن اربابِ اہلِ نظر اسی کو قوموں کی موت سے تعبیر کرتے ہیں۔
تازہ ترین