• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بال ٹھاکرے 86سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انہوں نے کارٹونسٹ کی حیثیت سے زندگی کا آغاز کیا اور اس وقت کی انگریز حکومت نے انہیں اعلیٰ درجہ کے کارٹون بنانے پر اعزاز و انعام سے بھی نوازا۔ وہ ایک ہفت روزہ رسالہ کے مالک اور صحافی بھی تھے۔ ان کے اداریے بھارتی پریس میں حوالے کے طور پر شائع ہوتے تھے تاہم انہیں ایک انتہا پسند،متعصب ہندو کہا جاتا ہے۔ شیوسینا تنظیم جو ایک انتہا پسند سیاسی جماعت ہے اس کے بانی۔ صدر تھے۔ ان پر یہ الزام تھا کہ وہ مسلمانوں اور اسلام کے شدید مخالف تھے۔ اور اس میں کسی حد تک سچائی بھی تھی کیونکہ وہ ہندو اور ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے ’سخت گیر‘ موقف رکھتے تھے لیکن ان کی زندگی کا ایک ”روشن پہلو“ یہ تھا کہ انہوں نے ریاست مہاراشٹر میں عوام کے مسائل کے سدباب کے لئے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ ان کی جماعت اس ریاست میں برسر اقتدار اور شریک اقتدار رہی۔ انہوں نے کبھی حکومتی عہدہ قبول نہیں کیا۔ پارٹی میں ان کی حیثیت ”گارڈ فادر“ کی سی تھی۔ا ن کا حکم چلتا تھا کیا مجال کوئی ان سے اختلاف کرے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ ممبئی میں ہزاروں افراد فٹ پاتھ پر سوتے تھے بلکہ فٹ پاتھ ان کا ”گھربار“ سب کچھ تھا۔ بال ٹھاکرے کا یہ کارنامہ ہے کہ ان کی پارٹی نے ”فٹ پاتھ گھر“ کے ہزاروں نہیں لاکھوں افراد کی آبادکاری کی۔ شہر میں ”انڈر ورلڈ“ مافیا کا زور توڑا۔ ممبئی میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو انہیں مرشدو دیوتا کا درجہ دیتا ہے۔ ان کے یہ مرید، عقیدت مند ان کی پرستش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی موت پر ”آہ و زاری“ برپا تھی۔
بال ٹھاکرے متنازع تو تھے ہی لیکن ”خاصے پراسرار“ تھے۔ 1998ء میں ہماری ان سے ملاقات ہوئی اس ملاقات کا وقت صرف پندرہ منٹ کا مقرر ہوا تھا لیکن یہ ملاقات دو ڈھائی گھنٹے جاری رہی اور تمام امور پر بات ہوئی۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ممبئی میں سارک چیمبرز آف کامرس کا سالانہ اجلاس تھا۔ سارک چیمبرز کے سینئر نائب صدر جمیل محبوب مگو نے چند پاکستانی صحافیوں کو بھی دعوت دی۔ حاجی طارق شفیع اور افتخار اے ملک ممبئی کے مشہور تاج محل ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان کے کمرے سے میں نے ہوٹل کی خاتون آپریٹر کو فون کیا کہ بال ٹھاکرے کے آفس میں بات کرا دو۔ جواب ملا کہ ہمارے پاس ان کا نمبر نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ بال ٹھاکرے صاحب سے فون ملاؤ تو جواب دیا گیا کہ ہمیں اس کی اجازت نہیں ہے۔آپ بال ٹھاکرے سے براہ راست بات نہیں کرسکتے۔ بڑی تگ و دو کے بعد شیوسینا کے شعبہ اطلاعات کے ایک شخص سے بات ہوئی میں نے تعارف کرایا اور بال ٹھاکرے سے ملاقات کی استدعا کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ بڑے مصروف ہیں دو تین دن بعد رابطہ کیا جائے۔ میں نے عرض کیا کہ ہم کل سہ پہر دہلی واپس جارہے ہیں کل صبح اگر ملاقات ہو جائے تو مشکور ہونگے ۔ اس شخص نے ایک اور شخص سے رابطہ کرنے کے لئے کہا جب انہیں فون کیا تو اس نے ایک اور شخص کے حوالے کر دیا اور اس طرح میں اگلے دن 11بجے صرف 15منٹ وقت ملاقات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ”وقت پر پہنچ جایئے گا۔ صاحب نے ایک اہم میٹنگ میں جانا ہے“ ۔
پروگرام طے یہ تھا کہ میں اور سینئر صحافی پرویز بشیر ان سے ملنے جائیں گے لیکن میاں محمد شفیق موجودہ تحریک انصاف کے رہنما، رانا ثنا اللہ (وزیر قانون پنجاب) بھی جانے کے لئے تیار ہوگئے۔ فیصل آباد سے مشتاق خان اور عامر یوسف بھی ہمراہ تھے۔ ممبئی کے پوش علاقہ باندرہ میں ہم مقررہ وقت پر ان کی کوٹھی کے قریب پہنچے تو وہاں موجود سکیورٹی، شیو سینا کے اہلکاروں نے روکا اور چیکنگ کی۔ اوپر سے کلیرنس کے بعد ہمیں آگے جانے دیا گیا اور جب ہم ان کی رہائش گاہ پہنچے تو ہم سب کی باقاعدہ جامہ تلاشی لی گئی۔
ملاقاتی کمرے میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتارنے کے لئے کہا گیا، ہم سب نے ایسا کرنے سے انکارکر دیا۔ہمارا موقف تھا کہ ایک سیاستدان کی حیثیت سے احترام درست ہے لیکن وہ ہمارے قائد اور روحانی رہنما نہیں کہ ”جوتے اتار کر حاضر ہوں“۔ ہمیں کہا گیا کہ روایت کے مطابق ایسا تو کرنا پڑے گا، ابھی بات درمیان میں تھی کہ اندر سے آواز آئی ”انہیں آنے دو“… ہم ایک عام سے کمرے میں داخل ہوئے جس میں ایک میز، اس کے گرد پانچ کرسیاں رکھی تھیں اور ایک بڑی کرسی بھی تھی۔ بال ٹھاکرے نے انتہائی قیمتی ریشم کا گیروے رنگ کا کرتا شلوار زیب تن کر رکھا تھا، ہندو سادھوؤں کی طرح ایک بڑی مالا گلے میں ڈالی ہوئی تھی۔انہوں نے کھڑے ہو کر بڑے تپاک سے ہمارا استقبال کیا۔ وہاں ان کی پارٹی کے چند ارکان اسمبلی بھی موجود تھے ان میں ایک مسلمان رکن بھی تھا۔ کمرے میں صرف دو تصاویر آویزاں تھیں ایک خاتون کی دو بڑی تصویریں اور انجہانی مائیکل جیکسن کے ساتھ ان کی ایک تصویر تھی۔ خاتون کے بارے میں انہوں نے یہ تعارف کرایا کہ یہ میری بیوی ہے جس کا دو سال قبل انتقال ہوگیا تھا۔ میری محبت ہی نہیں، مشیر اور ساتھی تھی۔ مائیکل جیکسن کا میں فین ہوں وہ مجھے ملنے آیا تھا۔
میز پر جدید ریکارڈنگ سیٹ رکھا ہوا تھا۔ جسے آن کر دیا گیا۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ آپ اخبار نویس لوگ بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ اس لئے میں نے گفتگو ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ چند سال پہلے ایک امریکی خاتون صحافی ا نٹرویو لینے آئی اور اس نے توڑ موڑ کر خبر دے دی جس سے یہ تاثر ابھرا کہ میں مسلمانوں اور ان کے مذہب کے خلاف ہوں جبکہ یہ صرف الزام ہے۔ ”یہ دیکھیں یہ مسلمان ہیں اور میری اسمبلی کے رکن اور میرے انتہائی قریبی ساتھی ہیں“۔ اس پر ان صاحب نے کھڑے ہو کر سینے پر ہاتھ رکھ کر تائید کی۔ بال ٹھاکرے کی ذات سے منسوب جتنی متنازع باتیں ہیں سب کی انتہائی خوبصورتی سے تردید کی۔ انہی دنوں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورہ کے حوالے سے ان کا بیان آیا تھا کہ ممبئی میں میچ نہیں ہونے دیں گے۔ شیو سینا کے کارکن پچ ادھیڑ دیں گے۔ پرویز بشیر نے جب سوال کیا تو ان کا جواب تھا ”میں کرکٹ کا بڑا فین ہوں۔ پچاس کی دہائی میں لکھنو ٹیسٹ میں جب محمد حنیف نے ڈبل سنچری بنائی تو میں خاص طور پر ان سے ملنے اور شاباش دینے لکھنو گیا تھا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ کھیل کھیلو…دھرم دین کی بات نہ کرو“# انہوں نے ہمیں کافی پلائی، بسکٹ اور ممبئی کی مخصوص مٹھائی سے تواضع کی اور مشروب کی بھی یہ کہہ کر پیشکش کی کہ ”میں شراب نہیں پیتا“ بیوی کے موت کے بعد کبھی کبھی بیئر پی لیتا ہوں۔ ملاقات کے بعد جب بال ٹھاکرے گاڑی میں بیٹھ رہے تھے تو ہم نے دیکھا کہ وہاں موجود تمام لوگ ہاتھ باندھے احتراماً کھڑے تھے اور آنے والے لوگ ان کے ہاتھوں کو بوسہ دے رہے ہیں، جیسے وہ ان کے مرشد، پیر ہوں۔ ہماری یہ رائے تھی کہ وہ ایک انتہائی زیرک، ہوشیار اور ایسی ذہین شخصیت ہیں جس نے ”پراسراریت“ کا ریشمی لبادہ اوڑھ ر کھا ہے۔
ہمارے تند و تیز سوالات خصوصاً رانا ثنا اللہ نے انتہائی تلخ باتیں کیں لیکن ایک شاطر سیاستدان کے طور پر سب کا مسکرا کر ہی نہیں بلکہ ایک آدھ بارقہقہہ لگا کر جواب دیا کہ ”یہ سب میرے خلاف پروپیگنڈہ ہے“۔عامر یوسف نے ان کے ساتھ بہت سی تصاویر بنائیں جس پر بال ٹھاکرے نے فرمائش کی کہ ان تصاویر کا ایک سیٹ انہیں بھیجا جائے ”میں آپ کی یادگار رکھوں گا“۔ لاہور آنے کے بعد میں نے انہیں تصاویر بھجوائیں تو مجھے ان کے سیکرٹری کا شکریہ کا خط بھی آیا لیکن ایک انتہائی چالاک اور شاطر سیاستدان کی حیثیت سے انہوں نے محبت کا یہ جال پھینکا تھا۔ ورنہ کہاں ہم بے نام سے لوگ اور کہاں وہ لیڈر جس سے بہت بڑی تعداد میں لوگ ”پوجا“ کی حد تک عقیدت رکھتے ہیں اور اس کا مظاہرہ ان کی آخری رسومات پر ہوا۔
تازہ ترین