• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے دوست، معروف غزل گو شہزاد احمد کہا کرتے تھے کہ کاش کسی دن پاکستان کا وزیرِ اعظم ایسا شخص ہو جو وزن میں شعر پڑھ سکے۔ ماضی کے مقبول اداکار اور دانشور راحت کاظمی کو چند برس قبل ٹی وی پہ اپنے آئیڈیل وزیرِ اعظم کی تعریف بتاتے سُنا کہ ’’میرا محبوب وزیرِ اعظم وہ ہو گا جسے فنونِ لطیفہ سے محبت ہو گی‘‘ اور موسیقار کامران اخترکا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم ایسا ہونا چاہیے جو کم از کم ’’تین تال‘‘ کے ماترے تو گِن سکے۔ یعنی، ’’اِبنِ مریم ہوا کرے کوئی، میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی‘‘۔

ہم صحافی ہیں، ہم سے کوئی ہمارا آئیڈیل وزیرِ اعظم پوچھے تو ہم کہیں گے ایک ایسا شخص جس کے دور میں آزادیٔ اظہارِ رائے پر پہرے نہ ہوں کیوںکہ ہمارے گلشن کا کاروبار تو اسی آزادی سے چمکتا ہے، ہماری روحانی اور جسمانی خوراک، دونوں اسی آزادی سے مشروط ہیں۔ خیر، کوئی بات نہیں اگر وزیرِ اعظم اپنی اولین تقاریر میں اس موضوع پہ کوئی بات نہیں کر سکے، اگلی تقریر میں سہی۔ یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ وہ آزادیٔ اِظہار و اجتماع کے شدت سے قائل ہیں، اور اسی آزادی کے ثمرات سے ڈی چوک میں خود بھی مستفید ہو چکے ہیں۔

ہمارے نئے وزیرِ اعظم بلاشبہ ایک کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں، اُن کے حامی اُن سے بے پایاں عشق کرتے ہیں، اُن کے ہر لفظ اور ہر جنبش پہ واری صدقے جاتے ہیں، اُنہیں مسیحا جانتے ہیں، جو قوم کے ہر کوڑھ کا علاج بیک جنبشِ دست کرنے کی معجزاتی صلاحیت رکھتا ہے۔ عوام کا یہ اعتماد اُن کی سب سے بڑی قوت ہے، اور شاید سب سے بڑی کمزوری بھی۔ کمزوری اس لئے کہ توقعات کا ایک ہمالہ ہے جسے سر کرنا ہے، اور جلد از جلد کرنا ہے۔ اُن کے عُشاق کی بے تابی سے خوف آتاہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ نئے وزیرِ اعظم کی چھوٹی سے چھوٹی بات کو زوم اِن کر کے کُریدا جا رہا ہے۔ حلف برداری کی تقریب کو ہی دیکھ لیں، اُن کی شیروانی کس نے سی، کتنے کی سی، کس سائز کی سی، سے لے کر الفاظ کی ادائیگی تک ہر بات کے حق و رد میں دلائل کے انبار لگائے جا رہے ہیں۔ حلف کے دوران ایک آدھ موقع پر خان صاحب کی زبان لڑکھڑانے پہ اُن کے پروانوں نے How Naturalاور How Cuteجیسے میٹھے میٹھے تبصرے کئے، کچھ دوستوں نے یہ بھی کہا کہ حلف کی عبارت کو سادہ بنانے کی ضرورت ہے (گو کہ انہوں نے ’’قیامت‘‘ کا کوئی آسان متبادل تجویز نہیں کیا) اِس ضمن میں اُن کے مخالفین کے اِرشاداتِ عالیہ کو چھوڑیئے، کہ تنقید کے لئے بہت وقت پڑا ہے، فی الحال ہنی مون کا مزا لیجئے۔

انتخابات کے بعد عمران خان اب تک تین تقاریر کر چکے ہیں۔ الیکشن کی رات اُن کی پہلی تقریر تو ایک وِکٹری اسپیچ تھی، جس میں اُن کا انداز حکیمانہ اور لہجہ مفاہمانہ تھا، اور اُنہوں نے اپوزیشن کو ہر حلقہ کھولنے کی پیش کش بھی کی تھی۔ دوسری تقریر جو انہوں نے قومی اسمبلی میں منتخب ہونے کے بعد کرنا تھی وہ خان صاحب نہیں کر سکے۔ تقریر تو انہوں نے کی لیکن وہ تقریر نہیں جس کا وہ ارادہ کر کے آئے تھے۔ ایسا کیوں ہوا، کرکٹ کی اصطلاح میں سُنئے: جب فاسٹ بائولر کو چوکا پڑتا ہے تو اُسے غُصہ آ جاتا ہے اور اِس کا اِظہار عموماً اگلی گیند پر بائونسر کی صورت میں نظر آتا ہے۔ قومی اسمبلی میں ہوبہو یہی ہوا۔ توقع ہے کہ مزاجاً خان صاحب فاسٹ بائولر سے وزیرِ اعظم تک کا سفر بہت تیزی سے طے کر لیں گے۔

حلف اُٹھانے کے بعد خان صاحب نے بطور وزیرِ اعظم ایک تاریخی تقریر کی، جس میں اُنہوں نے اتنی اچھی باتیں کیں کہ دوست دُشمن سب کہہ اُٹھے کہ انہوں نے کبھی کسی سابقہ وزیرِ اعظم کے منہ سے اتنی پیاری پیاری باتیں نہیں سنیں۔ آپ یوں سمجھیں کہ اُنہوں نے ہمارے ملک کی ہر خرابی دُور کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اور یہ جو اُن کے مخالفین کہہ رہے ہیں کہ آئین کی سر بلندی، پارلیمنٹ کی بالادستی، میڈیا کی آزادی، ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں جانے کی وجوہات، وغیرہ کے بارے اُن کی تقریر میں کوئی بات نہیں تھی، تو درخواست ہے کہ اتنی بھی کیا بے صبری، ذرا انتظار فرمائیے، آہستہ آہستہ، باری باری، اپنی اہمیت کے اعتبار سے ہر مسئلہ کو خان صاحب اُٹھائیں گے۔

اسی طرح چند سیاسی ناقدین خان صاحب کی کابینہ پر بھی نکتہ چیں ہیں کہ اس میں مشرف کی باقیات کو ’’فروغ‘‘ دیا گیا ہے، اور بیس میں سے بارہ وزیر و مشیر ’’مشرفی‘‘ ہیں اور باقی اتحادی جماعتوں کے ہیں، پی ٹی آئی کے حصے میں تو لے دے کر ڈھائی وزارتیں آئی ہیں۔ یہ حقائق اپنی جگہ درست ہیں، مگر خان صاحب کا وژن بڑا ہے، ایک تو وہ مختلف عناصر کو کابینہ میں شامل کر کے قومی وحدت پیدا کرنا چاہتے ہیں، اور پھر کابینہ ابھی کون سی مکمل ہو گئی ہے، ابھی جواں سال قیادت بھی آئے گی، ابھی نظریاتی ساتھی بھی آئیں گے اور اگر کابینہ میں کچھ چہرے’’نندی پور‘‘ ’’توانا پاکستان‘‘ اور بینک قرضہ معافی کی یاد دلاتے ہیں تو بہت سی شفاف صورتیں بھی تو ہیں، اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اصل بات تو ٹیم کے کپتان کی ہوتی ہے، یہ بات کبھی، کسی حال میں قطعاً فراموش نہ کیجئے گا۔ خوشی کا موقع ہے، پی ٹی آئی حکومت کی پہلی عید ہے، لہٰذا عثمان بزدار صاحب کے حوالے سے اس کالم میں ایک فقرہ بھی شامل نہیں کیا جائے گا۔

جہاں تک سادگی اپنانے کی بات ہے، توقع ہے کہ خان صاحب اس میدان میں بھی ایک ایسی مثال قائم کر جائیں گے جو آنے والوں کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہو گی۔ اس سلسلہ میں انہوں نے آتے ہی کئی اچھے فیصلے کئے ہیں اور آنے والے دنوں میں اِن شاء اللہ ان پر عمل ہوتا نظر بھی آئے گا۔ سادگی کی اس بحث میں پچھلے حکمرانوں کے حوالہ سے کچھ اچھی باتیں بھی سامنے آئیں ہیں۔ مثلاً شاہد خاقان عباسی نے ایک رات بھی وزیرِ اعظم ہائوس میں نہیں گزاری، نہ کبھی تنخواہ وصول کی، نہ کبھی حکومتی خرچ پہ سفر کیا، نواز شریف پی ایم ہائوس میں اپنا ذاتی خرچہ اپنی جیب سے ادا کرتے تھے اور اُن کی ماہانہ تنخواہ کا چیک حیدرآباد کے ایک اسکول کو جاتا تھا، اسی طرح شہباز شریف کی تنخواہ ایک ٹی بی اسپتال کو جاتی تھی اور اُنہوں نے دس سال بطورِ وزیر اعلیٰ کبھی سرکاری خرچہ پر بیرونی سفر نہیں کیا۔ توقع ہے کہ خان صاحب سادگی کے چند زینے اور چڑھ جائیں گے اور اپنے ہر پیش رو سے بلند تر نظر آئیں گے مگر اس کے لئے اُنہیں کسی دوست نُما دُشمن کے سطحی پروپیگنڈے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نومنتخب ایم این اے عندلیب عباس صاحبہ فرماتی ہیں کہ وزیرِ اعظم کی حلف برداری کی تقریب پر 2013 میں بانوے لاکھ اور 2018 میں پچاس ہزار خرچہ آیا ہے۔ جب اُن سے ان اعداد و شمار کی سورس پوچھی گئی تو انہوں نے قصرِ صدارت کے ڈی ڈی مسٹر عدنان کا نام لیا اور تصدیق کے لئے جب پریزیڈنسی فون کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس نام کا کوئی افسر وہاں نہیں پایا جاتا۔

مجموعی طور پہ خان صاحب نے آغاز تو بہت اچھا کیا ہے بس ایک چھوٹی سی بات دل میں کھٹک رہی ہے۔ دو دن قبل احتساب عدالت کے باہر دو سیاسی کارکن میاں صاحب کی گاڑی پر پھولوں کی پتیاں پھینکنے کے جُرم میں گرفتار کر لئے گئے تھے۔ جی، اُن کے ہاتھوں میں گرنیڈ نہیں پھول تھے۔ سیاسی کارکن تو کسی بھی جماعت کے ہوں قابِل عزت ہوتے ہیں، بے غرض، محبتوں کے مارے لوگ۔ کیا ضروری تھا کہ اس’’جُرمِ عظیم‘‘ کی پاداش میں آج کے دن وہ اپنے پیاروں سے دُور رکھے جاتے۔

تمام اہلِ وطن بالخصوص ضمیر کے قیدیوں کو عیدمبارک!

تازہ ترین