• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عالم اسلام کی سپر قوت، سلطنتِ عثمانیہ جو کہ تین براعظموں پر اپنی حاکمیت قائم کئے ہوئے تھی کے دھڑام سے زمیں بوس ہونے کے بعد مصطفی کمال اتاترک نے اناطولیہ کے علاقے تک محدود رہ جانے والی مملکت کے کھنڈرات پر جدید جمہوریہ ترکی کے نام سے ایک نئی مملکت قائم کی۔ جب تک اتاترک زندہ رہے مملکت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے اور عالم اسلام میں پہلی بار ایک ساتھ کئی ایک انقلابات برپا کرتے ہوئے مسلمانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی لیکن جیسے ہی اتاترک اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے ملک ایک بار پھر خواب خرگوش کے مزے لوٹنے لگا اور اس بار فوج نے عوام کے لئے گہری نیند کا بندوبست کرنے کے لوازمات خود ہی تیار کئے اور سیاسی رہنماؤں کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کیا۔ جب ترک عوام نیند کی آغوش میں گم تھے تو اس دوران سیاسی قائدین نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھا کیونکہ وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہ تھے اور ان کو فوج کی بھی آشیرباد حاصل تھی۔ بینکوں کے بینک اندر سے خالی ہوتے رہے اور بوریاں بھر کر رقوم غیر ممالک منتقل ہوتی رہیں اور کسی کے کان پرجوں تک نہ رینگی۔ ملک مفلسی کا شکار ہوتا رہا اور اتاترک کا ترکی دنیا میں اپنی عزت ومقام کھوتا رہا۔ اتاترک کے بعد سے اسّی کی دہائی تک یہ ملک کنویں کے مینڈک کی طرح اسے ہی اپنی دنیا سمجھتا رہا اور دنیا سے کوئی زیادہ تعلق داری قائم نہ کی۔ اگرچہ یہ ملک کوئی کمیونسٹ ملک نہ تھا لیکن اپنے نظام اور فوج کی گرفت کے باعث کمیونسٹ ممالک سے بھی کم نہ تھا۔ ملک میں غیر ملکی اشیاء پر مکمل طور پر پابندی تھی یہاں تک کہ اسّی کی دہائی کے وزیراعظم اور صدر ترگت اوزال ایک جگہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک یورپی ملک سے اپنی اہلیہ کیلئے لیگنز خریدی تھیں لیکن وہ اسے ترکی نہیں لے جاسکتے تھے اس لئے انہوں نے خود ہی ان لیگنز کو پہن لیا اور پھر ان لیگنز کے ساتھ ہی وہ ائیر پورٹ داخل ہوئے اور یوں یہ لیگنز انہوں نے اپنی اہلیہ کو تحفہ میں دیں۔ یہ حال تھا ستّر کی دہائی کے ترکی کا جس پر زیادہ تر ری پبلکن پیپلز پارٹی فوج کے اشتراک سے اپنے اقتدار کو جاری رکھنے میں کامیاب رہی تھی۔ اگرچہ عدنان میندرس نے پچاس کی دہائی میں عوام کو واحد پارٹی کے نظام سے چھٹکارہ دلوانے میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن فوج کی جانب سے انہیں پھانسی دیئے جانے کے بعد اسّی کی دہائی تک کوئی بھی رہنما عوام کو مشکلات سے آزاد کرانے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش ہی نہ کرسکا۔ اسّی کی دہائی میں ترگت اوزال نے ملک میں لبرل اکانومی کی بنیاد رکھی اور پہلی بار عوام کو ملک میں غیر ملکی اشیاء نظرآنے لگیں اور ترکی کے دروازے غیر ممالک کیلئے کھلنے لگے۔ قائم ہونے والے پرائیویٹ چینلز نے ترک عوام کو جھوٹی دنیا سے نکال کر حقیقی دنیا سے متعارف کرایااور پھر ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ دنیا ترکی سے بڑی مختلف تھی۔ عوام نے حقیقی دنیا کو اپنی آنکھوں سے اپنے ہی گھر میں بیٹھ کر دیکھنا شروع کردیا جس کی وجہ سے ترکی میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی۔ ترگت اوزال کی بے وقت موت کے بعد ترکی میں ایک بار پھر لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا۔ پرانے سیاستدانوں نے نئے ماسک لگا کر یا پھرآنیوالے نئے چہروں نے خالی رہ جانے والی جیبوں کو مزید بھرنے کی کوشش کی کیونکہ آزاد منڈی اقتصادیات نے لوٹ کھسوٹ کے مواقع بھی فراہم کردیئے تھے۔
نوّے کی دہائی ترکی کے لئے کوئی اچھی دہائی ثابت نہ ہوئی کیونکہ اس عرصے کے دوران مخلوط حکومتیں برسراقتدار رہیں جنہوں نے عوام کو مالی مشکلات کے سوا کچھ بھی نہ دیا تھا۔ اس دوران نجم الدین ایربکان سے اختلافات کی بنا پر انہی کی پارٹی کے اندر سے ایک نیا گروپ ابھر کر سامنے آیا جس نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت قائم کی اور اس پارٹی نے اپنے پہلے ہی الیکشن میں پارلیمنٹ میں کلی اکثریت حاصل کرلی۔ جب جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی برسراقتدار آئی تو اس وقت ترکی میں فی کس آمدنی سولہ سو ڈالر کے لگ بھگ تھی اور بینکوں میں شرح سود180 فیصد (مذاق نہیں حقیقت)کی بلندیوں کو چھو رہی تھی۔ ترکی دنیا کا واحد ملک تھا جہاں ہر روز روٹی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔کرنسی روز بروز اپنی قدرو قیمت کھوتی جارہی تھی اور لیرے کو جیب کی بجائے بوریوں میں بھرتے ہوئے استعمال کیا جانے لگا تھا۔
اگرچہ ترکی نے پچاس ہی کی دہائی میں یونان کے ساتھ یورپی یونین کی رکنیت کیلئے رجوع کررکھا تھا لیکن یورپی یونین نے کبھی بھی ترکی کو اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ اس کیلئے کوئی سنجیدہ کارروائی کرتی یا کوئی قدم اٹھاتی۔ ایردوان کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت نے پہلے روز ہی سے ملک کو اقتصادی ترقی پر گامزن کرنے لئے بڑے اہم اقدامات اٹھائے۔ ملک میں نج کاری کو فروغ دیا، سرکاری اداروں کی تعداد کم کی، بینکنگ سسٹم کو نئے سرے سے استوار کیا اور اس کے اوپر ایک چیکنگ اور آڈیٹنگ بینک اتھارٹی کے نام سے ادارے کو تشکیل دیا جس نے ملک میں بینکنگ نظام کو اس حد تک کامیابی سے ہمکنار کیا کہ متحدہ امریکہ سمیت کئی ایک غیر ممالک نے بھی ترکی سے رجوع کیا اور ان ممالک کے بینکاروں نے ترکی میں ٹریننگ حاصل کی۔ حکومت ترکی نے کم ہوتی ہوئی ترک لیرے کی قدرو قیمت پر قابو پایا اور ملک میں لیرے کے سامنے سے چھ صفر ختم کرتے ہوئے اسے علاقے کی مضبوط کرنسی بنادیا۔ ترکی نے اس دوران یورپی یونین کی مستقل رکنیت کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے اور ملک میں تمام ہی شعبوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کو عملی جامہ پہنایا اور خاص طور پر فوجی شعبے اورفوج کے اختیارات کو یورپی یونین کے رکن ممالک کے معیار پر لانے کی کوشش کی۔ ان اصلاحات کا ترکی اور حکومت کو بڑا فائدہ حاصل ہوا۔یورپی یونین کے رکن ممالک جو کہ اس وقت اقتصادی بحران سے دوچار ہیں ترکی کی اقتصادی ترقی کو رشک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں کیونکہ اس وقت ترکی یورپی یونین میں چھ فیصد کی شرح سے ترقی کرنے والا ملک ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ترکی جوکہ اقوام متحدہ کا بانی رکن ہے اپنے قیام کے بعد سے اس ادارے میں کوئی خاص رول ادا نہ کرسکا اور صرف ایک بار ہی سلامتی کونسل کی عبوری رکنیت حاصل کرسکا جبکہ موجودہ دور میں اقوام متحدہ مختلف مسائل حل کرنے اور خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ کے مسائل کو حل کرنے کیلئے علاقے میں ترکی ہی پر اپنی نگاہیں مرکوزکئے ہوئے ہے۔ ترکی جس کی نناوے فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اسلامی تعاون تنظیم کے قیام سے لے کر ایردوان دور سے قبل تک اس ادارے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لیتا رہا ہے بلکہ اس ادارے کا رکن ہونے کے باوجود اس سے دور رہنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتا رہا ہے لیکن ایردوان دور کے بعد سے ترکی اس ادارے کا سیکرٹری جنرل ہے اور اس ادارے کو مزید فعال بنانے کیلئے ہمہ تن گوش ہے۔ اسلامی ممالک خاص طور پر مشرق و سطیٰ کے ممالک اب ترکی سے صلاح مشورہ لئے بغیر کوئی قدم بھی نہیں اٹھاتے ہیں۔ ترکی چین کے بعد تیزی سے ترقی کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا اور یورپ کا پہلا بڑا ملک ہے۔ ترکی کی ان خصوصیات کی بنا پر ہی ترکی کو جی 20 ممالک کی صف میں شامل کیا گیا ہے۔ ایردوان سے قبل ترکی کے جی 20 ممالک کی صف میں شامل ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ نیٹو جس نے ہمیشہ ہی ترکی پر تکیہ لگائے رکھا ہے اپنے فیصلوں میں اسے دور رکھنا ہی مناسب سمجھا لیکن اب کوئی فیصلہ ترکی کی مرضی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل انڈرزس فوگ راسموسن کے انتخاب کے وقت ترکی نے جو رویہ اختیار کیاتھا اسے سب نے دیکھ لیا تھا ۔ ترکی کی منظوری کے بغیر راسموسن کا انتخاب ہی ممکن نہ ہوسکا تھا۔ جرمنی جو ترکی کی یورپی یونین کی مستقل رکنیت کے معاملے میں ہمیشہ ہی رکاوٹیں کھڑی کرتا چلا آیا ہے کو اب اس بات کا واضح احساس ہوچکا ہے کہ ترکی کے بغیر یورپی یونین کو مستقبل میں قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ جرمنی اب ترکی کی اقتصادی قوت سے اچھی طرح واقف ہو چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم ایردوان کے دورہ جرمنی کے دروان جرمنی کی چانسلر انگیلا مرکیل نے جرمنی کی ایئر لائن لفتھانسا کو بچانے کیلئے ٹرکش ایئرلائن کے ساتھ شراکت کرنے کی درخواست کی ہے۔ ترکی کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا ہے۔ ایردوان نے 2023ء تک جمہوریہ ترکی کے قیام کی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر اسے دنیا کی پہلی دس سپر پاورز میں شامل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے اور لگتا یہی ہے کہ ترکی اپنے اس ہدف کو بآسانی اور وقت سے بہت پہلے حاصل کرلے گا۔
تازہ ترین