• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر مملکت کا منصب آئینی سربراہ اور پوری قوم کے سرپرست کی حیثیت سے قومی یکجہتی اور اتحاد کی علامت ہوتا ہے۔ لہٰذا تمام جمہوری ملکوں میں اس منصب کیلئے عموماً ایسی شخصیات کو چنا جاتا ہے جن پر زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات اس عہدے پر غیر سیاسی شخصیات کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے جو اپنی قومی خدمات کی بناء پر سب کی نگاہ میں قابل احترام ہوں۔ بھارت کی حالیہ تاریخ میں اس کی ایک مثال ممتاز سائنس داں ڈاکٹر عبدالکلام کی شکل میں ملتی ہے۔ ہم اہل پاکستان بھی آئندہ چند روز میں ملک کے نئے صدر کے انتخاب کے مرحلے سے گزرنے والے ہیں۔لیکن اس معاملے میں قومی اتفاق رائے تو کجا حزب اختلاف کی جماعتیں بھی حکومت کے امیدوار کے مقابلے میں متفقہ صدارتی امیدوار سامنے لانے پر اتفاق کرنے کے باوجود اب تک کسی ایک نام پر یکجا نہیں ہوسکی ہیں۔حکمراں جماعت نے اتحادیوں کی تائید سے اپنی پارٹی کے ممتاز رہنما ڈاکٹر عارف علوی کو صدارت کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے لیکن حزب اختلاف میں تادم تحریراس معاملے پر اختلاف موجود ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی نے مبینہ طور پر متحدہ اپوزیشن سے مشاورت کے بغیر اپنی جماعت کے معروف رہنما اور ملک کے ممتاز ماہر قانون بیرسٹر اعتزاز احسن کو اس عہدے کے لیے نامزد کرکے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں صدارتی الیکشن میں ان کی حمایت کریں ۔ دو دن پہلے متحدہ اپوزیشن کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے نمائندوں نے مسلم لیگ (ن) اور دوسری جماعتوں کے اعتراضات کے باعث اس معاملے پر اپنی قیادت سے ہدایت کے لیے ہفتے کی رات تک کی مہلت مانگی لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے تجویز کردہ امیدوار ہی پر اصرار جاری رکھا اور پیر کوکاغذات نامزدگی جمع کرانے کے وقت تک اپوزیشن جماعتوں میں صدارتی امید وار کے معاملے پر فاصلے ختم نہیں ہو سکے ۔ مسلم لیگ (ن) کا موقف تھا کہ پیپلز پارٹی اعتزاز احسن کے بجائے سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی یا سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا نام منصب صدارت کے لیے تجویز کرے تو اس کی جانب سے حمایت کی جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور پیر کی صبح بیرسٹر اعتزاز احسن کے کاغذات نامزدگی جمع کرادیے گئے جبکہ اپوزیشن کی باقی جماعتوں نے اتفاق رائے سے مولانا فضل الرحمٰن کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے ۔ تاہم امیدواروں کے پاس تیس اگست تک کاغذات نامزدگی واپس لینے کا موقع باقی ہے۔ بہت اچھا ہو اگر اس مدت میں حکومت اور اپوزیشن سب کسی ایک نام پر اتفاق کرلیں اور ملک کو ایسا صدر مل جائے جو پوری قوم کے اتحاد و اتفاق کی علامت ہو۔ تاہم ایسا نہ ہوسکے تو کم از کم اپوزیشن کو اس معاملے پر تقسیم سے بچنا چاہیے اور کسی ایک امیدوار پر اتفاق کرلینا چاہیے تاکہ ملک میں ایک مضبوط اپوزیشن وجود میں آئے جوحکومت کو من مانے فیصلوں سے روک کر آئینی نظام کے استحکام کو یقینی بناسکے۔ گزشتہ روز پنجاب اور خیبر پختون خوا کی کابینہ کا اعلان بھی کیا گیا۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی ٹیم کا انتخاب وزیر اعظم نے خود کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے تیس ارکان اسمبلی کے انٹرویو کیے اور ان میں سے 23 کو منتخب کیا۔خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے بھی وزیر اعظم کے مشورے سے پندرہ رکنی کابینہ منتخب کرلی ہے۔دونوں صوبوں کی کابیناؤں میں کئی معروف اور لائق افراد کے نام شامل ہیں ۔ توقع ہے کہ نہ صرف تحریک انصاف بلکہ اس کی اتحادی جماعتوں کے وزراء بھی مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کریں گے اور ملک میں کارکردگی کے میدان میں مسابقت کے رجحان کو فروغ دیں گے کیونکہ قومی تعمیر و ترقی کا یہی اصل طریقہ ہے۔ بلوچستان میں گورنری کے منصب کے لیے امیر محمد خان جوگیزئی کے نام کے اعلان کے معاملے میں جو الجھاؤ سامنے آیا وہ بہرحال کوئی قابل رشک بات نہیں، آئندہ ایسی ناخوشگوار صورت حال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ فیصلوں میں غیرضروری عجلت سے گریز کیا جائے اور تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد فیصلوں کا اعلان کیا جائے۔

تازہ ترین