• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلیم خان ! ’’ستاسو یوازے نئیں، منگم تاسو سرا ولاڑ یو‘‘ آپ اکیلے نہیں ہیں۔جرات مند ،باضمیر،سچے کھرے پاکستانی آپ کے ساتھ ہیں ۔عمران خان نے اگر تو جانتے بوجھتے جنونی نو خیز نوجوان نسل بمعہ پختہ عمر لواحقین، مقلدین کا اخلاق بگاڑا ہے،منصوبہ بندی کے تحت جھوٹ، دشنام طرازی، بہتان کا رسیا بنایا ہے تو گریجویشن مبارک ۔اگر کسی مفاد کے حصول اپنی ناکامیوں کے غصے میں بحالت مجبوری میں ایک بڑے گروہ اور جتھے کو مادر پدر آزادی استعمال کی حوصلہ افزائی دی ہے ،تو بھی سودا سود مند،کامیابی مبارک۔

موضوع کئی اہم، ہر موضوع کئی کالموں کا متقاضی۔ کالم نہ لکھنے کا فیصلہ کہیں زیادہ اہم، کہ آئین و قانون کی پابندیوں میں ’’ حاصل آزادی‘‘ کا استعمال آج کل قابلِ گرفت ،تعزیرات گوشمالی، خطرہ جان و مال۔ قلم چھوڑ رکھا تھاکہ آئین و قانون موجود ،جمہوری حق کے مطابق لکھناکوہِ گراں ٹھہرے تو جائے اماں ڈھونڈنا واجب ۔ مملکت کی چولیںہلا دینے والے واقعات، دانشوری پر رعشہ طاری،سمندر کی لہریںگننے سے ترکِ قلم بہتر ۔کیا کِیا جائے؟ برادرم سلیم صافی پر یلغارنے سوتے کو جھنجھوڑ دیا۔لکھنے کی اُمنگ جاگ اُٹھی ۔بات نئی نہ انوکھی، پچھلے دس سالوں کا انصافی کلچرآج جوبن پر ہے ۔ہر وہ صحافی جو مخصوص ذہن، سوچ، فکر کے مطابق کچھ لکھنے کہنے کی جسارت ،جرات، رکھتا ، کرتا ہے۔اخلاقی باختگی کی زد میں۔ ایس ایم ایس سے شروع طوفان بدتمیزی، بذریعہ واٹس ایپ ،ٹوئٹر ،فیس بک، بد تہذیبی، بدتمیزی، مادر پدر آزادبہتان تراشی سونامی بن چکا ہے۔اچنبھے کی بات اس لیے نہیں کہ سونامی لانا عمران کا وعدہ تھا، دیکھنا کیا،بھگتنا تھا۔

اپنے تئیں ، چند سالوں سے دامے درمے سخنے تندہی سے واٹس ایپ تک محدودہوں۔ٹوئٹر،فیس بک اکاؤنٹ ضرور،استعمال میں نہیں۔طبیعت کبھی بھی نرم خو نہ پائی۔غصہ موجو، عمر کے ساتھ مزید ڈھلکنا تھا۔ محسوس کیا کہ چند سالوں میں غصہ بے قابو۔ اعصاب دل و دماغ میںمکمل غصہ گھس چکا،جاں گُسل،وبالِ جا ںبن چکا،جاں گھول رہا ہے۔اوپر سے بلڈ پریشر، ہر وقت لڑنے ،کٹ مرنے کو آمادہ پاتاتھا۔ہمیشہ کی طرح ،خود احتسابی کی،سخت تجزیہ کیا کہ صحت مند جان ہے تو جہان ہے۔اس نتیجے پر پہنچا کہ موجودہ دباؤ کی بنیادی وجہ واٹس ایپ پر آئے معاندانہ پیغامات ہیں۔اشتعال میں رکھتے ہیں۔ تین ہفتے پہلے طے کیا کہ واٹس ایپ پر سرسری نظر ضرور ڈالوں گا۔شادی غمی، ایمر جنسی ذاتی پیغامات دیکھ کر اور باقی بغیردیکھے DELETE کرناہونگے ۔یک گونہ آسودگی ملی،طبیعت میں خاطر خواہ بہتری پائی۔سلیم صافی پر اٹیک ،سوشل میڈیا کا میرا بائیکاٹ تتر بتر کر گیا۔سلیم خان کو اکیلا نہیں چھوڑنا، کمر کس لی کہ دل کی بھڑاس نکالنی ہے کہ بہت تکلیف ہوئی۔نہ چاہتے قلم اُٹھایاکہ تیکھے دانشورسلیم خان پر رکیک حملوں کو نظر انداز کرنا پیشہ وارانہ بد دیانتی رہتی۔ حملہ آوروں کو حوصلہ افزائی ملتی۔انگریزی کا معقولہ،’’ تلوار کے زور پر زندہ رہنے والے ،تلوار کی زد میں رہتے،مرتے ہیں‘‘۔برسوں پہلے عمران خان کے کان بجائے کہ گالی کے زور پر سیاست کا انجام، جوتے اور گالیاں واپس اپنی دبوچ میں لے کر رہیں گی۔خاطر جمع رکھیں،وہ دن دور نہیں، یار زندہ، عنقریب بھگتنے کو۔ اکابرین کی حوصلہ افزائی پر تیار یہ جتھہ اپنے قائدین کو بھنبھوڑے گا، پھاڑے،کھائے گا۔

ان حملہ آوروں کی گالم گلوچ، جھوٹ،بہتان،الزام تراشی سے کسی کا کچھ نہیں بگڑا۔نواز شریف، مریم نواز کا پچھلے دس سال سے سوشل میڈیا پر بھرکس نکالنے کا ہر بندو بست ہوا۔پچھلے چار سال سے زبردستی ہتھیایا (CAPTIVE) قومی میڈیا، نواز شریف کا میڈیا ٹرائل، اینٹ سے اینٹ بجانے کی ہر حد ٹاپی۔نواز شریف کو قصہ پارینہ بنانا ،وعدہ وفا کا حصہ تھا۔ الیکشن دھاندلی،کرپشن، پانامہ ، انڈین ایجنٹ 24گھنٹے،7دن ،چار سال دن رات منادی کرائی۔پیچھے بیٹھے کئی ڈائریکٹر جھوٹ، ننگ فریب کی فیکٹریاں دن رات چلاتے رہے۔جھوٹ،فریب بہتان کی پوسٹس،ویڈیو کی یلغار کچھ بھی نواز شریف کا نہ بگاڑ سکی،ایک ووٹ نہ ٹوٹا۔بگڑے تگڑوں کا اخلاق ضرور بگاڑ گئی۔ حد یہ ٹھہری کہ نواز شریف کے سچے گناہ، بڑے بلنڈر آج اپنی افادیت کھو بیٹھے۔ بظاہر قانونی حکومت نصب و مامور۔جمہوری کہلوانا پسند فرماتی ہے۔ آئین موجود، آئین کی تضحیک وتوہین روز مرہ کا معمول۔نئی نویلی حکومت چند محکموں تک مؤثر ۔اتنی مؤثر ضرور کہ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے کی جسارت پر پوری ضلعی پولیس تہس نہس کرنی پڑی۔ادراک کرنا ہوگاکہ حکومتی نظام ایک نیا حکومتی ماڈل ہے۔ پنجاب،KP،وفاقی وزارت داخلہ پر سجے چہرے نمائشی۔ عمران خان، بزدار ، وزیر اعلیٰ KP کے پیچھے اصل ڈائریکٹر پردہ سیمیں کے پیچھے اور کچھ چہرے جہانگیر ترین، علیم خان، عاطف خان جیسے سامنے ۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا کہ ’’ اب فیصلے وزارت خارجہ سے ہونگے‘‘،غیر ضروری وضاحت بھی اور اس بات کی تصدیق بھی کہ پہلے فیصلے باہرسے ہوتے تھے۔شاہ محمود صاحب! کیا پِدی اور کیا شوربا۔جناب والا، 70سال سے جاری عملیات کا نظام زیادہ بہتر اور زیادہ مؤثر،بالآخر مستحکم ہوچکا ہے۔ چند دن پہلے امریکی وزیر خارجہ POMPEO اور عمران خان کی ٹیلی فونک گفتگو کا تنازع، بھارت کا بیان کہ ہم نے مذاکرات کی پیشکش نہیں کی، پاکستان نے جھوٹ بولا ہے۔بین الاقوامی میڈیا میں جگ ہنسائی کا سامان دے گیا۔شروعات، آگے آگے دیکھے ہوتا ہے کیا۔حکومت کیا،لگتا ہے بچوں کے ہاتھ نائی کا اُسترا آگیا ہے۔بین الاقوامی، خارجی امور پر بے ربطی، اُلجھنیں، نفسا نفسی عیاں ہے،ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا۔ ویسے توسلیم صافی تختہ مشق ہمیشہ سے تھے۔مجیب الرحمٰن شامی صاحب جیسے کُہنہ مشق، سکہ بند دانشور ہوں یا ذہین و فطین، محنتی، مشقتی ذی فہم سہیل وڑائچ ، جاوید چوہدری جیسامدلل یاعقلیت پسند نصرت جاویدیاسوچنے، سمجھنے، پرکھنے کی صلاحیتوں سے مالامال طلعت حسین، صحافتی کہکشاںمعمولی گستاخی پر دشنام طرازی،بہتان کی زد میں،عرصہ بیت چکا ۔صرف ان لوگوں کا ذکر کیا جن کی زندگی معقول، معتدل ،مدلل علمی بحث و تمحیص و تحقیق سے بھری ہے۔مجیب الرحمٰن شامی صاحب کی دیانتداری اور اصول پرستی کا ہمہ تن معترف ہوں،گواہی دیتا ہوں۔ افسوس یہ کہ سب کچھ عمران خان کی ناک کے نیچے پلان ہوا، پروان چڑھا۔ہفتہ پہلے ایک رشتہ دار، گریڈ 22 کے ریٹائرڈ پولیس افسر نے سلیم صافی بارے ایک کلپ بھیجا، ’’ لفافہ صحافی،چمک‘‘ ، وجہ، یہ جسارت کیوں کر ڈالی کہ’’ نواز شریف نے پرائم منسٹر ہاؤس کے اپنے اخراجات اپنی جیب سے ادا کیے ہیں‘‘۔ افسوس اس لیے ہوا کہ موصوف پانچ وقت کے نمازی ،اللہ سے ڈرنے والے،بھلے مانس انسان ہیں۔کلب کی مسجد میں دو،تین نمازوں میں ٹاکرا رہتا ہے۔ایک اضافہ ضرورحیران کُن ، پختہ عمر کے کئی مذہبی دوست ،تحریک انصاف کی اندھی محبت میں اندھی تقلید کے فلسفہ پر کار بند ، نواز شریف، مریم نواز اور ہمارے درجنوں صحافی ساتھی ( جو نواز شریف کو گالی دینا، الزام بہتان لگانا پسند کرتے ہیں نہ حصہ بنتے ہیں)بارے ہربے پر کی بیہودہ ،اخلاق باختہ پوسٹس، کلپس،BLOGS،گالی گلوچ،بہتان کو عام کرنے میں رات دن وقف کیے ہیں۔دین داروں کو سورۃ الحجرات کی آیات بھیجیں ، بہتان اور سنی سنائی باتیں، بغیر ثبوت آگے بڑھائے بارے قرآنی احکامات بھیجے ، ایسوں کے کان پر جوں کیا رینگتی،کھلم کھلا خلاف ورزی ،تکذیب کے زمرے میں ، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ریٹائرڈ نمازی پرہیز گارپولیس افسر نے سلیم صافی کو ’’ لفافی صحافی، چمک‘‘ کی پوسٹ فارورڈ کی تو میرے پاس اس کے علاوہ چارہ نہ رہا کہ سلیم صافی کے علم میں لائے بغیر مختصراً جواب لکھ بھیجوں۔

’’محترم !اگر سلیم صافی لفافہ یا چمک کی سیاست میں ملوث ہے تو اللہ اُسے بدترین انجام سے دوچار رکھے، اگر آپ کی پوسٹ جھوٹ ، بہتان ہے تواس پوسٹ کو تخلیق دینے والوںسے اللہ نے عذاب عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے کہ قرآنی احکامات کی جانتے بوجھتے تکذیب کے مرتکب ہے،کا ٹھکانہ برا بتایا ہے‘‘۔صوم و صلوٰۃ کا پابند پولیس افسر کا جواب زیادہ دلچسپ،’’ حفیظ اللہ صاحب! آپ سے متفق مگرسلیم صافی کو ایسی تراشیدہ کہانیاں ،جو نواز شریف کی نام نہاد تصوراتی دیانت داری کی باتیںبنانے سے احتراز کرنا ہوگا‘‘۔اس جواب نے مجھے ششدر بھی رکھا اور تکلیف میں بھی ۔جب پارسا نیک بزرگ ذہنی اختلاج و خلفشار کی گرفت میں ہوں تو بگڑے نوجوان جن کو محنت سے سوشل میڈیا حملہ آور بنایا گیا ہے،ان سے گلہ شکوہ کیسا؟البتہ نوجوانوں کا اخلاق باختگی پر آموز ش اور تربیت ریاست اسلامیہ کا المیہ بھی اور لمحہ فکریہ بھی۔بھلے دنوں ،عمران خان کو بتایا تھا کہ یہ راہ ،بے راہ روی کی پختہ سڑک ہے۔فراٹے مارے تو واپسی نا ممکن ہوگی۔سنی ان سنی کر دی گئی۔پہلی دفعہ، 2011ء میں جناب عطاء الحق قاسمی صاحب کی شکایت پر میں نے برملا برہمی کا اظہار کیا عمران خان ہنس دیئے،مسکرا دیئے۔تحریک انصاف کا ناپسندیدہ صحافیوں کو گالیاںآج کلچر اور وطیرہ بن چکا ہے۔2011ء کے وسط میں حامد میر اور نصرت جاویددرجنوں دوسروں کوارزہ تفنن گالیوں سے نوازا جاتا تھا،بار بار پوچھا ، اختلاف رائے والوں کو گالیوں والے درجنوں ایس ایم ایس کیوں؟عمران خان باچھیں کھول،دل کھول ہنسے ۔مجھے اس ہنسی سے خوف آیا۔ ایک دفعہ عمران خان کی موجودگی میں چند چہیتے دفتر میں میری موجودگی میں حامد میر کو گندی گالیاںدیتے پائے گئے ، عملاً میں نے تھپڑ مارنے کا قصد کیا کہ ایک دفعہ جب بھیانک طریقے سے روکوں گا توسیاسی پارٹی کے دفتر سے میڈیا کو گالیاں رُک جائیں گی کہ اس کے اپنے لیے نقصان دہ۔سیاسی پارٹی میڈیا سے لڑائی کی متحمل ہو نہیں سکتی کہ نقصان قومی قیادت کارہتا ہے ۔آج پورا قومی میڈیا ( حق اور مخالف دونوں ) دلجمی سے عمران خان کو سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں ۔دل سے عزت دینے پر آمادہ نہیں ۔بڑی وجہ گالیاں ،جھوٹ،بہتان تحریک انصاف کا وطیرہ۔نقصان وطن عزیزکا کہ اگلی کئی دہائیاں دشنام طرازی، الزامات، بہتان کا میچ مملکت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچانے کو ۔سلیم خان صافی کا کچھ نہیں بگڑا،بگڑا دہن،خبث ِدرون کھل کر سامنے آیا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین