• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی وجود تن من کا مجموعہ ہے۔ تن اور من جب الگ الگ رستوں پر چلنا شروع کر دیں یا ایک دوسرے کی بات نہ سنیں تو دونوں گم اور بے سُرے ہو جاتے ہیں کیوں کہ توازن کھو جاتا ہے۔ زندگی ایک رہگزر ہے جس پر مقررہ میعاد تک سفر لازم ہے۔ اس سفر میں اگر تن من دوست بن جائیں تو انسان اشرف المخلوقات والی سند پر سرفراز ہو جاتا ہے۔ سارا فساد ان دو کے درمیان دُوری اور ان کی ایک دوسرے سے لاتعلقی کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی غیر اہم نہیں ہے۔ باطن کو اہمیت دینے والے من اور دل کو فضیلت کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اصل صرف من ہے تن تو صرف مٹی کا ایک پتلا ہے جس کی طلب مادّی اشیاء سے جڑی ہوئی ہے۔ وہ صرف جبلّی ضروریات کے حصول کے لئے تمام بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ اس صورت میں انسان اور دیگر حیوانوں میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ دونوں جبلت کے تابع زندگیاں گزارتے ہیں لیکن انسان کی صورت میں دیگر حیوانوں کے مقابلے میں یہ نظریہ درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انسان کی شخصیت میں تن اور من برابر اہمیت کے حامل ہیں۔ دونوں کی اپنی اپنی حیثیت ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر کچھ نہیں۔ دونوں اپنے وجود کے لئے ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ ظاہری وجود یا تن مادیت کا ایک ڈھانچہ ہے، ایک عمارت ہے جس کے اندر روح قیام کرتی ہے، دل بسیرا کرتا ہے، دماغ رہتا ہے۔ ان تمام سے جڑی روحانی، جذباتی اور فکری کیفیات خاک کے پتلے کو ایک زندہ جاوید وجود میں ڈھالتی ہیں۔ دل، دماغ اور روح فضا میں نہیں رہ سکتے اور نہ تن سے دور رہ کر اس پر اثرانداز ہو سکتے ہیں، اسے کنٹرول کر سکتے ہیں، اسے تبدیل کر سکتے ہیں اور اسے فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ اس کے لئے انہیں خاک کے پتلے میں ڈیرہ لگانا پڑتا ہے۔ ان کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں۔ یہ اپنی لَو سے خاک کے ڈھانچے میں اُجالا کرتے ہیں۔ احساسات و جذبات سے اس کی سختی کو نرمی میں بدلتے ہیں۔ روحانی قوت سے اسے لامحدود کرتے ہیں۔ وہ زمین پر رہتے ہوئے آسمان کے سپنے بنتا ہے۔ خواب میں ان دیکھے جہانوں کی سیر کرتا ہے۔ اس کی فکر ساری دنیا کا احاطہ کرتی ہے تو دل میں کئی جہان سمائے رہتے ہیں۔ روح وہ قوت ہے جو تن اور خالق کے درمیان رابطے کا وسیلہ ہے۔ اسی کی بدولت انسان کو گیان حاصل ہوتا ہے اور اسے ان دیکھی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں۔ صوفیاء اگرچہ دل اور من کو بہت اہمیت دیتے ہیں مگر تن کو ردّ نہیں کرتے صرف اسے من سے جڑنے کی صلاح دیتے ہیں۔ دونوں کو اِک مِک ہو کر چلنے کی طرف راغب کرتے ہیں۔ بلھے شاہ ایک ایسا صوفی ہے جس کے کلام کی کئی جہتیں ہیں، معنی کی کئی سطحیں ہیں۔ وہ تمام سوال جو ایک باشعور انسان کے ذہن اور دل پر دستک دیتے ہیں ان کو بلھے شاہ نے اپنے فلسفے کی اساس بنایا۔ اسی فکر کو لے کر اپنی شعری کائنات کا نقشہ بنایا اور روحانیت میں بھیگے لفظوں کی اینٹیں لگا کر اسے اتنا اُجلا بنا دیا کہ اس کی شعاعیں پوری دنیا میں پھیلے انسانوں کے دلوں پر دستک دینے لگیں۔ پھر بلھے شاہ کی فکر حدوں اور سرحدوں میں مقید نہ رہی۔ ہر طرف پھیلتی چلی گئی اور آفاقیت کا روپ دھار کر عالمگیر حیثیت اختیار کر گئی۔ اس وقت ہم تن اور من کے حوالے سے بات کر رہے ہیں تو بلھے شاہ تن کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے۔ تن مٹی کا پتلا ہے جسے پہلے عشق کی آگ میں پکایا جاتا ہے پھر روحِ مطلق اس میں اپنی روح پھونک کر اسے لامحدود کر دیتی ہے۔ عشق اس کی اساس ہے، منزل ہے، رہنما ہے اور مقصدِ حیات ہے۔ اس کا وجود ہی عشق کا مرہونِ منت ہے۔ عشق کی حامل روح کے اظہار کے لئے تن کی عمارت تعمیر کی جاتی ہے۔ تن اور من مل کر جب ایک وجود کا روپ دھار لیتے ہیں تب بھی انہیں روشنی اور حرارت کی ضرورت رہتی ہے۔ تن کو اگر عشق کی آگ چھو لے تو وہ نہ صرف روشن ہو جاتا ہے بلکہ خود دیپ بن جاتا ہے اور روشنی بانٹنے لگتا ہے۔ عشق کی لَے پر ناچنے والا دوسرے لوگوں کو بے سر اور بے تال نظر آتا ہے کیوں کہ وہ ظاہری طور پر موسیقی کے سروں کی پابندی کرنے کی بجائے اپنے باطن میں چھڑے عشق کے راگ پر جھوم رہا ہوتا ہے۔ عشق اسے تمام جھگڑوں سے پاک کر کے اپنی پناہ میں لے لیتا ہے اور اسے بے خود کر دیتا ہے۔ یوں بدن کا ڈھانچہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ ابتدا اسی سے ہوتی ہے۔ انسان کھلی فضا میں بھی زندگی کر لیتا ہے مگر روح کے لئے تن لازم و ملزوم ہے کیوں کہ تن ہو گا تو من ہو گا، تن ہو گا تو روح ہو گی، تن ہو گا تو جان ہو گی۔ وہ روح جو موجود ہے مگر نظر نہیں آتی، وہ جان جس کی وجہ سے زندگی ہے مگر اسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ یہ سب تن میں اپنا اظہار کرتے ہیں۔ روح کی روح سے ملاقات کے لئے بھی تن ہی وسیلہ بنتا ہے۔ پہلا رابطہ اور پہلا وسیلہ تن ہوتا ہے۔ اگرچہ تن ظاہری حلیے کو کہتے ہیں جس کے اندر اصل پوشیدہ ہے اور مختلف حوالوں سے اس تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ جب انسان کسی دوسرے انسان کو پسند کرتا ہے، عورت اور مرد کے درمیان محبت کا رشتہ استوار ہوتا ہے یا مرید اور مرشد کی سانجھ بنتی ہے تو تن اور من دونوں اپنا اپنا کردار نبھاتے ہیں۔ دونوں اپنے مطلوب کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ من کی خصوصیات تن کے ذریعے محبوب تک پہنچتی ہیں۔ من کی پسندیدگی اور عشق ظاہری حلیے اور ڈھانچے سے مسلسل باہر جھانکتے رہتے ہیں مگر صرف خاص نظر والے لوگ ہی دیکھنے اور پہچاننے پر قادر ہیں۔ آنکھیں من کی عکاس بھی ہیں اور قاصد بھی۔ ان میں دل کا احوال درج ہوتا ہے۔ یہ باتیں کرتی ہیں۔ جس طرح دنیا میں مختلف زبانیں ہیں اسی طرح آنکھوں کی بھی اپنی خاص زبان ہوتی ہے۔ ابلاغ کا خاص طریقہ ہوتا ہے۔ یہ لفظ ادا نہیں کرتیں۔ ان کے اندر ٹھہرا ہوا پانی اور روشنی کی کرن پر پیغام لکھا ہوتا ہے۔ دیکھنے والے میں بھی اگر وہی استعداد ہو تو وہ اسے پڑھ لیتا ہے اور یوں دوستی، محبت اور سلوک کا رشتہ آگے بڑھتا ہے۔ تن کو پاک رکھنے کے لئے من کی طرف توجہ کرنی ضروری ہوتی ہے وہیں من کی ریاضت بھی تن کی طہارت سے جڑی ہوئی ہے۔ ظاہر اور باطن دونوں کا اُجلا ہونا لازم ہے۔ کہیں بھی کوئی کچھ غلاظت رہ جائے تو کثافت کا باعث بنتی ہے۔ دونوں اُجلے ہوں گے تو احساس اور فکر بھی دھلے ہوئے ہوں گے اور لطافت کو پیدا کر کے انسان کی روحانی ترقی کا باعث بنیں گے۔ تن کو اپنے اندر پوشیدہ خزانے سے آگاہی کے لئے اندر کی طرف موجود کھڑکی کھولنی پڑتی ہے پھر وہ اپنے مقصد سے آگاہ ہوتا ہے، اسے خبر ہوتی ہے کہ اس نے عشق کے رستے پر چل کر منزل تک پہنچنا ہے، کمال حاصل کرنا ہے تا کہ جمال سے ملاپ ہو سکے۔ بلھے شاہ کے 261 ویں عرس کے موقع پر بہت سی تقریبات ہوئیں، ان کا کلام پڑھا گیا اور دل و نگاہ کو روشن کیا گیا۔ ان کی ایک کافی پڑھئے اور سوچئے کہ ہم نے اپنے تن من کو کس طرح ایک ڈگر پر رواں رکھنا ہے: 

جس تن لگیا عشق کمال

ناچے بے سُر تے بے تال

جس نے ویس عشق دا کیتا

دھر درباروں فتویٰ لیتا

جدوں حضوروں پیالہ پیتا

کجھ نہ رہیا جواب سوال

جس دے اندر وسیا یار

اٹھیا یارو یار پکار

نہ اوہ چاہے راگ نہ تار

ایویں بیٹھا کھیڈے حال

تازہ ترین