ارشاد ِباری تعالیٰ ہے: جو اٹھتے ،بیٹھتے اور لیٹتے (ہر حال میں )اللہ کو یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں (وہ بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں کہ ) اے ہمارے رب ! تو نے یہ (سب کچھ) بے کار اور (بے مقصد ) پیدا نہیں کیا۔(سورۂ آل عمران )جب کہ سورۂ دخان میںارشاد رب العزت ہے:’’اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، محض بے مقصد (اور اتفاقیہ )نہیں بنایا، بلکہ ہم نے تو انہیں خاص مصلحت کے تحت بنایا ہے، لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں‘‘۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز ایک مخصوص حکمت کے تحت، ایک متعین مدّت تک کے لیے اپنا کام کررہی ہے۔موت و حیات کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے قرآن واضح کرتا ہے :وہ (ذات) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے بہتر جد و جہد کون کرتا ہے اور وہی عزت والا بخشنے والا ہے ۔(سورۂ ملک)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں موت کو ’’اَجَل‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے،اس کے معنی ہیں،کسی چیز کا مقررہ وقت ، جو کسی قیمت پر نہ ٹلے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جب تم کسی مقررہ مدتِ ادائیگی تک قرض کا لین دین کرو، تو اسے لکھ لو‘‘۔(سورۃالبقرہ) جس طرح فرد کے لیے ایک وقت مقرر ہوتاہے،اسی طرح قوموںکے عروج وزوال کا وقت بھی مقرر ہے، فرمایا: ہر قوم کے لیے ایک میعاد مقرر ہے، جب مقررہ وقت آ جائے گا تو ایک ساعت کی تقدیم و تاخیر نہیں ہو پائے گی‘‘ (سورۃ الاعراف)اسی طرح ہرفرد کی موت کا بھی ایک وقت مقرر ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: بے شک، اللہ کی طرف سے جب (موت کا) مقررہ وقت آ جائے، تو وہ ٹلتا نہیں ہے‘‘ (سورۂ نوح)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا میں اس طرح رہو، جیسے تم ایک (راہ چلتے) مسافر ہو یا کسی منزل کے راہی‘‘ ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہا کرتے تھے: جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو اور بیماری سے پہلے صحت کو غنیمت سمجھو اور موت سے پہلے زندگی کو غنیمت سمجھو‘‘ (صحیح بخاری)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: دنیا آخرت کی کھیتی ہے(یعنی دنیا میں ایمان وعمل کی جو فصل کاشت کروگے ، آخرت میں اسی کا پھل ملے گا)‘‘ (اِحیاء علوم الدین)
قرآن کے مطابق زندگی مقصد کے حصول کی جد و جہد سے عبارت ہے اور موت اس کے اخروی انجام سے۔ اس لیے انسانی زندگی کا با مقصد ہونا خود نظام کائنات کے جواز کی بنیادی دلیل ہے ۔قرآن حکیم کے مطالعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد اور نصب العین اللہ پر ایمان ،اس کی رضا کی طلب اور بندگی کا اظہار ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:‘‘اور نصیحت کرتے رہو کہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے(اور یہ کہ ) میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔(سورۂ ذاریات)اس آیت میں انسانی زندگی کامقصد اور اس کی غرض تخلیق بیان کردی کہ انسانوں کو پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی کسی اپنی حاجت کے لیے نہ تھا ، کیوں کہ وہ ذات تو بے نیاز اور غنی و رزاق ہے ۔ باری تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا :بے شک، اللہ ہی ہر ایک کو روزی دینے والا بڑی قوت و قدرت والا ہے۔( سورۂ ذاریات) جب کہ سورۂ زمر میں ہے: اگر تم ناشکری کرو تو (یاد رکھو کہ) اللہ تعالیٰ تم (سب سے) بے نیاز ہے، اور اپنے بندوں کی ناشکری اسے پسند نہیں اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لئے پسند فرماتا ہے اور کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا،پھر تم سب کا لوٹنا تمہارے رب ہی کی طرف ہے۔ تمہیں وہ بتا دے گا جو تم کرتے تھے۔ بلا شبہ وہ سینوں کے راز تک جانتا ہے‘‘۔اس ارشاد سے پتا چلتا ہے کہ موت و زندگی کا فلسفہ آخرت میں جزا و سزا کے تصور پر مبنی ہے۔
موت نام ہے روح کا بدن سے تعلق ختم ہونے کا اور انسان کا دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے کا۔ ترقی یافتہ سائنس بھی روح کو سمجھنے سے قاصر ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح طور پر اعلان فردیا ہے: روح صرف اللہ کا حکم ہے۔ موت پر انسان کے اعمال کا رجسٹر بند کردیا جاتا ہے، اور موت پر توبہ کا دروازہ بند اور جزا وسزا کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ بندےکی توبہ قبول کرتا ہے یہاں تک کہ اُس کا آخری وقت آجائے۔ ہم ہر روز، ہر گھنٹہ، بلکہ ہر لمحہ اپنی موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ سال، مہینے اور دن گزرنے پر ہم کہتے ہیں کہ ہماری عمر اتنی ہوگئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایام ہماری زندگی سے کم ہوگئے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پاک کلام کی متعدد آیات میں موت اور اس کی حقیقت کو بیان کیا ہے۔فرما یا گیا ،ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے، اور تم سب کو (تمہارے اعمال کے) پورے پورے بدلے قیامت ہی کے دن ملیں گے۔ پھر جسے دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا، وہ صحیح معنی میں کامیاب ہوگیا، اور یہ دنیاوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ (سورۂ آل عمران ) اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی کامیابی کا معیار ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس حال میں ہماری موت آئے کہ ہمارے لئے جہنم سے چھٹکارے اور دخولِ جنت کا فیصلہ ہوچکا ہو۔سورۂ رحمان میں فرمایا: اس زمین میں جو کوئی ہے، فنا ہونے والا ہے۔ اور (صرف) تمہارے پروردگار کی جلال والی اور فضل وکرم والی ذات باقی رہے گی‘‘۔جب کہ سورۃ القصص میں فرمایاگیا:’’ ہر چیز فنا ہونے والی ہے، سوائے اللہ کی ذات کے۔ حکومت اسی کی ہے، اور اُسی کی طرف تمہیں لوٹ کرجاناہے‘‘۔سورۃ الانبیاء میں یوں فرمایا:( اے پیغمبر!) تم سے پہلے بھی ہمیشہ زندہ رہنا ہم نے کسی فرد بشر کے لئے طے نہیں کیا۔ چناںچہ اگر تمہارا انتقال ہوگیا تو کیا یہ لوگ ایسے ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں؟ ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے اور ہم تمہیں آزمانے کے لئے بری اور اچھی حالتوں میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہمارے ہی پاس لوٹ کر آؤگے۔
(ترجمہ) تم جہاں بھی ہوگے(ایک نہ ایک دن) موت تمہیں جا پکڑے گی۔ چاہے تم مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ رہ رہے ہو۔(سورۃ النساء )(ترجمہ) (اے نبی!) آپ کہہ دیجئے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو، وہ تم سے آملنے والی ہے۔ یعنی وقت آنے پر موت تمہیں ضرور اچک لے گی۔ (سورۃ الجمعہ )سورۃ الاعراف میں فرمایا گیا’’ جب اُن کی مقررہ میعاد آجاتی ہے تو وہ گھڑی بھر بھی اُس سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتے‘‘۔سورۂ لقمان میں فرمایا گیا:’’ اور نہ کسی متنفس کو یہ پتا ہے کہ زمین کے کس حصے میں اُسے موت آئے گی‘‘۔ان مذکورہ آیات سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کا مرنا یقینی ہے، لیکن موت کا وقت اور جگہ سوائے اللہ کی ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں۔ چناںچہ بعض بچپن میں، توبعض عن شباب میں اور بعض ادھیڑ عمر میں، جبکہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں۔ بعض صحت مند تندرست نوجوان سواری پر سوار ہوتے ہیں، لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ موت کی سواری پر سوار ہوچکے ہیں۔
یہ دنیا فانی ہے اور زندگی وقتی ‘ اخروی ابدی زندگی کی تیاری کے لئے پہلا اور آخری موقع ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی پر موت آکھڑی ہوگی تو وہ کہے گا کہ اے میرے پروردگار! مجھے واپس بھیج دیجئے ،تاکہ جس دنیا کو میں چھوڑ آیا ہوں، اس میں جاکر نیک اعمال کروں۔ ہرگز نہیں، یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے، اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ ہے، جب تک کہ وہ دوبارہ اٹھائے جائیں۔(سورۃ المؤمنون)
ضروری ہے کہ ہم افسوس کرنے یا آنسو بہانے سے قبل‘ اس دنیاوی فانی زندگی میں ہی ا پنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کریں،تاکہ ہماری روح ہمارے بدن سے اس حال میں جُدا ہو کہ ہمارا خالق و مالک و رازق ہم سے راضی ہو۔ یہ دنیاوی زندگی کھیل کود کے سوا کچھ بھی نہیں، حقیقت یہ ہے کہ دار آخرت ہی اصل زندگی ہے، اگر یہ لوگ جانتے ہوتے۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: پانچ امور سے قبل پانچ امور سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بڑھاپا آنے سے قبل جوانی سے ۔ مرنے سے قبل زندگی سے۔ کام آنے سے قبل خالی وقت سے۔ غربت آنے سے قبل مال سے۔ بیماری سے قبل صحت سے۔ لہٰذا ہمیں توبہ کرکے نیک اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہئے۔