• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر کوئی جانتا ہے کہ اس ملک کا اصل مسئلہ انتہاپسندی ہے ، دہشت گردی ہے ،ناقص خارجہ پالیسی ہے، اداروں کا انحطاط ہے ، سول اداروں پر قدغنیں ہیں، ویلفیئر کی بجائے سیکورٹی اسٹیٹ کی حیثیت ہے ، صوبوں اور صوبوں کے اندر مختلف علاقوں کی محرومیاں ہیں، ان سب کے نتیجے میں خراب معیشت ہے ، تعلیم ، صحت اور روزگار کے مسائل ہیں لیکن بدقسمتی سے گزشتہ کئی سال سے یہ اہم ترین ایشوز سیاست کے موضوعات بنے اور نہ صحافت کے ۔ پی ٹی آئی سے بنیادی اختلاف یہی ہے کہ وہ ان اصل مسائل سے قوم کی توجہ ہٹا کر نان ایشوز میں قوم کو الجھاتی رہی یا پھر مسلم لیگ (ق) کی طرح مہرہ بن کر مخصوص قوتوں کے مخصوص مقاصد کی تکمیل کرتی رہی ۔ گزشتہ پانچ سال پی ٹی آئی کے ذریعے سیاست اور صحافت کو ہیلی کاپٹر جیسے غیراہم ایشوز کا یرغمال بنایا گیا ۔ ہمیں توقع تھی کہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد حاصل کرنے کے بعد عمران خان نیازی صاحب سنجیدگی اختیار کرکے ملک کے اصل ایشوز کی طرف متوجہ ہوں گے اور اصل وزیراعظم بننے کی کوشش کریں گے لیکن افسوس کہ وزیراعظم کی شیروانی پہن کر بھی وہ اس روش سے باز نہیں آئے ۔

نئے پاکستان کے وزیراعظم نے جب نئے پاکستان کے وزیراعظم ہائوس میں پہلا دن گزارا تو رات کو مجھے ان سے متعلق یہ تین خبریں مل گئیں ۔ ایک یہ کہ وزیراعظم ہائوس کے عملے کی طرف سے پہلی اور تعارفی بریفنگ میں انہو ں نے میاں نوازشریف اور ان کے خاندان کے اخراجات کا ایشو اٹھایا، اور اسی د ن اگلی شام کو ڈھائی سو افراد کے عشائیے کے اہتمام کا حکم دیا ۔ تیسرا یہ کہ وہ وزیراعظم ہائوس اور بنی گالہ کے درمیان آنے جانے کے لئے ہیلی کاپٹر استعمال کررہے ہیں ۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ میں نے ان تینوں میں سے ایک بھی خبر نہ جنگ اخبار کے لئے فائل کی اور نہ جیو نیوز پر بیفر وغیرہ دیا ۔ میرے نزدیک ان میں سے کوئی اہمیت کی حامل خبر ہی نہیں تھی اور میں ان کو خبر ہی نہیں سمجھ رہا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر وزیراعظم ، وزیراعظم ہائوس میں نہ رہے تو کہاں رہے ۔ وزیراعظم کا وقت قیمتی ہوتا ہے اور ان کے وقت کے مقابلے میں جہاز اور ہیلی کاپٹر کی کوئی قیمت نہیں۔ اس لئے وزیراعظم ہیلی کاپٹر اور جہاز استعما ل نہ کرے تو کیا کرے ۔ عشائیے کو خبر سمجھنے کا توخیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ دو مزید دن گزر گئے اور ان دو دنوں میں ان تینوں چیزوں کا میں نے کسی بھی فورم پر کوئی تذکرہ نہیں کیا لیکن کیا کریں جب وزیراعظم بن کر بھی عمران خان صاحب ان نان ایشوز کو ایشو بنانے سے باز نہیں آتے ۔ حکمرانوں کی سادگی بہت ضروری ہے لیکن ہمیں پتہ ہے کہ حقیقی زندگی میں سادگی عمران خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کے قریب سے بھی نہیں گزری ہے ۔ یہ ڈرامے ہم اس سے قبل خیبر پختونخوا میں پہلے ایم ایم اے کی حکومت کی صورت میں اور پھر پی ٹی آئی کی حکومت کی صورت میں خوب دیکھ چکے تھے ۔ پرویز خٹک صاحب نے بھی یہ اعلان کیا تھا کہ وہ وزیراعلیٰ ہائوس میں نہیں رہیں گے ۔ پہلے ایک ہفتہ ذاتی گھر میں رہے ۔ پھر اینکسی منتقل ہوئے ۔ ہفتہ بعد اینکسی سے وزیراعلیٰ ہائوس میں آئے اور پھر چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں وزیراعلیٰ ہائوس پشاور ، کے پی ہائوس اسلام آباد اور کے پی ہائوس نتھیاگلی میں جو اخراجات ہوئے، اس نے ماضی کی حکومتوں کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔

بہر حال قوم سے وزیراعظم عمران کے پہلے خطاب میں انہوں نے پھر زیادہ وقت نمائشی اقدامات کے تذکرے پر صرف کیا۔ کہتے رہے کہ وہ وزیراعظم ہائو س میں نہیں رہیں گے بلکہ ایم ایس کے گھر میں رہیں گے ، حالانکہ وزیراعظم ہائوس گیٹ کے اندر اس پورے احاطے کا نام ہے جس میں وزیراعظم اور ایم ایس دونوں کے گھر واقع ہیں اور دونوں کی سہولت اور کمرے کم و بیش ایک جیسے ہیں ۔ پھر انہوں نے گاڑیوں کا ذکر کیا اور کم گاڑیاں استعمال کرنے کی بات کی ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ قوم کو کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ وہ انتہاپسندی کے مسئلے کا کیا حل نکالیں گے ، دہشت گردی سے کیسے نمٹیں گے، یا پھر چین اور امریکہ کے درمیان سینڈوچ بنے پاکستان کو اس صورت حال سے کیسے نکالیں گے وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ ان کے قوم سے خطاب پر تبصرے کے لئے جب جیو نیوز کی طرف سے مجھ سے رابطہ کیا گیا تو میں نے عرض کیا کہ وزیراعظم صاحب کو سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے بنیادی ایشوز پر توجہ دینی چاہئے اور ضمنی طور پر یہ عرض کیا کہ بطور وزیراعظم اپنی پہلی بریفنگ میں انہوں نے نوازشریف کے اخراجات کے بارے میں پوچھا جس کے جواب میں ان کو عملے کی طرف سے یہ بتایا گیا کہ ذاتی اخراجات کےبل نوازشریف نے ادا کئے ہیں ۔ اسی طرح مجھے پہلی مرتبہ ہیلی کاپٹر کے استعمال اور عشائیے میں ڈھائی سو افراد کو مدعو کرنے کی خبر بھی دینی پڑی ۔ مجھے علم تین دن سے تھا لیکن اگر وزیراعظم عمران خان قوم سے خطاب میں گاڑیوں اور نام نہاد کفایت شعاری پر اپنا اور قوم کا گھنٹہ صرف نہ کرتے تو پھر میں بھی ہیلی کاپٹر کے استعمال ، نوازشریف کے اخراجات اور عشائیے وغیرہ کی خبر بریک نہ کرتا ۔ اب اس کے اگلے دن پی ٹی آئی ہی کے رہنما علی محمد خان صاحب نے ہیلی کاپٹر کے استعمال کی عجیب و غریب توجیہ پیش کردی اور پھر حکومت کے ترجمان اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے پچاس پچپن روپے کلومیٹر خرچے کی تاریخی بات کہہ دی ۔ چنانچہ ہیلی کاپٹر کے استعمال کا نان ایشو ، ایشو بن گیا۔یوں ہیلی کاپٹر جیسے نان ایشو کو ایشو بنانے کے ذمہ دار خود عمران خان نیازی صاحب اور ان کے ترجمان ہیں کوئی اور نہیں۔

دوسرا ایشو جو صحافت اورسیاست پر چھا گیا ہے ، وہ ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کا ایشو ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا ذمہ دار بھی اپوزیشن یا خان صاحب کا کوئی مخالف صحافی نہیں بلکہ خود خاتون اول ہیں ۔ پتہ چلا کہ کہ خاتون اول بشریٰ بی بی کی دوست کی سفارش پر ہی بزدار صاحب کو وزیراعلیٰ بنایا گیا ۔ خاتون اول کے سابق خاوند کی شکایت پر ڈی پی او اور آر پی او کی دفتر میں طلبی ہوئی اور پھر خاتون اول کی سہیلی کے شوہر ( جن کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے) نے وزیراعلیٰ کی موجودگی میں دونوں پولیس افسران سے ڈانٹ ڈپٹ کی اور ان سے مانیکا خاندان سے معافی مانگنے کا کہا اور جب ڈی پی او صاحب نہ مانے تو خاتون اول کی دوست کے خاوند ہی کے حکم پر ڈی پی او پاکپتن کو بطور سزا ان کے عہدے سے ہٹایا گیا ۔یوں اگر یہ ایشو ، سیاست اور صحافت کا ایشو بن گیا ہے تو اس میں بھی قصور کسی اور کا نہیں بلکہ خود حکمران خاندان کا ہے ۔ گویا پرانے پاکستان میں صرف خاتون اول کا حکم چلتا تھا لیکن نئے پاکستان میں خاتون اول کے (سابق)خاوند اول کا بھی حکم چلے گا۔ پرانے پاکستان میں صرف خاتون اول یا پھر صاحبزادی اول تقرریاں اور تبادلے کرتی تھیں لیکن نئے پاکستان میں خاتون اول، ان کی سہیلیوں اور پھر سہیلیوں کے خاوندوں کو بھی یہ اختیار حاصل ہوگا۔ یہ مسئلہ اب شرعی بھی ہے اور انتظامی بھی ، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالت اپنے فیصلے میں یہ واضح کردے کہ نئے پاکستان میں پروٹوکول کی حقدار صرف خاتون اول ہوںگی یا کہ پھر ان کے خاوند اول یعنی سابقہ شوہر بھی حقدار ہوں گے ۔ اسی طرح کیا پروٹوکول صرف عمران خان صاحب کے گولڈ اسمتھ کے گھر میں پلنے والے بیٹوں کو ملے گا یا کہ پھر ان کی سوتیلی اولاد یعنی بشریٰ بی بی کی اولاد کو بھی ملے گا۔ میری گزارش ہوگی کہ سوموٹو کیس کی سماعت کے دوران عدالت اس ابہا م کو بھی دور کرے تاکہ مستقبل میں پولیس اور دیگر سرکاری محکموں کے لئے مانیکا خاندان کے ساتھ ڈیلنگ میں آسانی ہو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین