• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بلدیاتی نظام کی فوری تبدیلی اور خیبر پختون خوا میں رائج بلدیاتی نظام کو اختیار کرنے کی ہدایت کرکے بلاشبہ دور رس نتائج کا حامل ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ دنیا کے سارے ترقی یافتہ ملکوں میں لوگوں کو تمام شہری سہولتوں کی فراہمی کی ذمہ دار کلی اختیارات اور مکمل مطلوبہ وسائل رکھنے والی مقامی حکومتیں ہوتی ہیں لیکن ہم پچھلے ستر سال سے اس ضمن میں محض تجربات ہی کررہے ہیں۔منتخب جمہوری ادوار میں عموماً مقامی حکومتوں کے قیام سے فرار کی کوششیں کی جاتی رہیں کیونکہ اس نظام کے باعث قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو اپنے اپنے علاقوں کے لیے ترقیاتی فنڈز دیے جانے کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔قیام پاکستان کے تقریباً ساڑھے نو سال بعد کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے لیکن باقی ملک میں اس کا اہتمام نہیں ہوسکا۔ ایوبی دور میں پورے ملک میں بنیادی جمہوریتوں کا نظام متعارف کرایا گیا جس کے 80 ہزار ارکان گلی محلوں کے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ صدر مملکت کے انتخاب کے ذمہ دار بھی تھے۔اس کا مقصد واضح طور پر یہ تھا کہ صدر مملکت کے انتخاب کے لیے ووٹ دینے کا حق کروڑوں پاکستانیوں کے بجائے چند ہزار افراد تک محدود کرکے اپنی کامیابی یقینی بنائی جائے ۔یہ نظام ایوب خان کے ساتھ ہی رخصت ہوگیا اور اس کے بعدآنے والی منتخب جمہوری حکومت میں کوئی بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے کے تقریباً ڈھائی سال بعد پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات کرائے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں عام لوگوں میں سے قومی سطح کے قائدین ابھر کر سامنے آئے لیکن منتخب ادوار حکومت میں پھر مقامی حکومتوں کی حوصلہ شکنی کی روش اختیار کی گئی۔جنرل مشرف کے دور میں ملک میں ضلعی حکومتوں کا نظام متعارف کرایا گیا جس میں مقامی سطح پر لوگوں کو شہری نظام خود چلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانے اور ضروری وسائل مہیا کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔اس نظام کے نتائج بھی مجموعی طور پر نہایت مثبت رہے لیکن منتخب جمہوری ادوار میں پھرملک بھر میں مقامی حکومتوں کے انتخابات سے فرار کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور اس آئینی تقاضے کی تکمیل کے لیے عدلیہ کو منتخب حکومتوں پر بے پناہ دباؤ ڈالنا پڑا۔ اس کے باعث مقامی حکومتیں قائم تو ہوگئیں لیکن ملک کے بڑے صوبوں میں ان کے اختیارات برائے نام ہی رہ گئے۔ خیبرپختون خوا میں البتہ زیادہ بااختیار اور بہتر بلدیاتی نظام رائج کیا گیا اور گزشتہ روز وزیر اعظم نے لاہور میں صوبہ پنجاب کی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسی نظام کو پنجاب میں نافذ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعظم نے صوبائی حکومت کو پنجاب میں نیا پولیس آرڈر لانے ، کرپشن اور پروٹوکول ختم کرنے،سادگی کو فروغ اور تعلیم و صحت پر توجہ دینے،سرکاری زمینوں پر قبضے ختم کرانے نیز اورنج لائن کا آڈٹ کرانے کی ہدایت بھی کی ۔ مقامی حکومتوں کا جدید نظام بلاشبہ ناگزیر قومی ضرورت ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں مقامی حکومتوں کے سربراہوں کا انتخاب شہری براہ راست اپنے ووٹوں سے کرتے ہیں جس کے فوائد واضح ہیں لہٰذا ہمیں بھی اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ مقامی حکومتوں کے سارے کل پرزے مقامی افراد ہی پر مشتمل ہوتے ہیں، اس لیے وہ نہ صرف متعلقہ آبادیوں کی ضروریات اور مسائل سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں بلکہ ان علاقوں کو ہر اعتبار سے بہتر بنانا خود ان کے مفاد میں ہوتا ہے ۔ علاوہ ازیں یہ لوگ ہمہ وقت علاقے کے باشندوں کی پہنچ میں ہوتے ہیں اور کوئی بھی کسی بھی وقت ان سے رابطہ کرکے انہیں اپنے مسئلے سے آگاہ کرسکتا ہے جبکہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان اپنی اصل ذمہ داری یعنی قانون سازی کے لیے فارغ رہتے ہیں۔ لہٰذا پنجاب ہی نہیں سندھ اور بلوچستان میں بھی مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے پر فوری توجہ دینی چاہیے۔وزیر اعظم کی جانب سے ممتاز ماہرین معاشیات پر مشتمل 18 رکنی اقتصادی مشاورتی کونسل کا قیام بھی مستحسن فیصلہ ہے ، امید ہے کہ یہ کونسل ملک کو درپیش سنگین معاشی مسائل کے حل میں فی الواقع معاون ثابت ہوگی۔

تازہ ترین