• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ پاکستان اور چین کی دوستی ہمالیہ سے بھی بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے۔ چین نے ہر آزمائش پر پاکستان کا ساتھ دے کر اور مدد کرکے اپنا حق ادا کیا ہے۔ پاکستان اور چین کی دوستی سفارتی سطح سے شروع ہوئی جس میں پاکستان نے چین کو امریکہ سے متعارف کرایا اور امریکی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے 9 جولائی 1971ء کو پاکستان کے راستے بیجنگ کا خفیہ دورہ کیا جس کے بعد فروری 1972ء میں پہلے امریکی صدر رچرڈ نکسن چین گئے اور اس طرح پاکستان کے توسط سے چین امریکہ تعلقات کی ابتداہوئی۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت چین ہمارا ہمسایہ ہے جس کی وجہ سے سفارتی تعلقات کے ساتھ پاکستان چین معاشی و تجارتی تعلقات بھی بڑھنا شروع ہوئے۔ اسی سلسلے میں دونوں ممالک نے نومبر 2006ء میں آزاد تجارتی معاہدہ کیا جو جولائی 2007ء سے 2012ء کیلئے تھا جس میں پاکستان نے چین کو 6711 اور چین نے پاکستان کو 6418 مصنوعات پر ڈیوٹی فری مارکیٹ رسائی دی۔ 2013ء میں10 سال کیلئے اس کا پہلا دور شروع ہوا اور اس کے بعد دوسرے دور کیلئے اب تک 10 اعلیٰ سطحی میٹنگز ہوچکی ہیں، ان مزاکرات کا آخری رائونڈ اپریل 2018ء میں ہوا تھا لیکن فیز 2 میں ڈیوٹی فری مصنوعات کا تعین نہیں ہوسکا ہے۔ معاہدے کے تحت FTA کے خاتمے یا دونوں ممالک کی باہمی تجارت 20 ارب ڈالر ہوجانے پر معاہدے کا جائزہ لیا جاسکتا ہے لہٰذاحکومت پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ معاہدے کے جائزے کیلئے چین سے درخواست کرے۔

مسلم لیگ (ن) حکومت کے آخری دنوں میں چین سے دبائو کے باعث حکومت FTA کا دوسرا فیز سائن کرنے جارہی تھی لیکن آخری وقت میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس نے حکومت پر دبائو ڈالا کہ موجودہ FTA سے چین کو یکطرفہ فائدہ ہورہا ہے لہٰذا معاہدے کے دوسرے دور کیلئے اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ کرکے FTA میں پاکستان کی ٹیکسٹائل سمیت دیگر مصنوعات پر چین سے ڈیوٹی فری مراعات لی جائیں تاکہ پاکستان کی ایکسپورٹس میں اضافہ ہوسکے۔ اس کے علاوہ چین کی حکومت پر دبائو ڈالا جائے کہ وہ پاکستان کو آسیان ممالک کی طرح تجارتی مراعات دے۔ اس سلسلے میں ستمبر 2018ء میں نئی حکومت کے ساتھ میٹنگ متوقع ہے۔ چین نے FTA مراعات کا 60 فیصد جبکہ پاکستان نے صرف 4 فیصد فائدہ اٹھایا جس کی وجہ سے چین کی پاکستان کو ایکسپورٹ 4.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 15 ارب ڈالر تک پہنچ گئی جبکہ پاکستان کی چین کو ایکسپورٹ صرف 0.6 ارب ڈالر سے بڑھ کر 1.6 ارب ڈالر تک پہنچ سکی اور اس طرح اس تجارتی معاہدے سے چین کو یکطرفہ فائدہ ہوا جبکہ پاکستان نے ڈیوٹی فری رسائی دے کر نہ صرف کسٹم ڈیوٹی کی مد میں خطیر ریونیو کا نقصان کیا بلکہ سستی چینی مصنوعات سے بے شمار مقامی صنعتیں غیر مقابلاتی ہونے کی وجہ سے بند ہوگئیں۔ گزشتہ دنوں آل پاکستان کسٹم ایجنٹس ایسوسی ایشن نے مجھے ایف بی آر کے ممبر کسٹم زاہد کھوکھر اور کسٹم کلکٹرز کے ہمراہ مہمان اعزازی کی حیثیت سے عشایئے میں مدعو کیا جہاں زاہد کھوکھر سے میری پاک چین آزاد تجارتی معاہدے پر تفصیلی گفتگو ہوئی جبکہ گزشتہ ہفتے فیڈریشن ہائوس میں پاک چین آزاد تجارتی معاہدے پر ایک رائونڈ ٹیبل میٹنگ ہوئی جس کی صدارت میں نے فیڈریشن کے سینئر نائب صدر مظہر اے ناصر کے ساتھ کی۔ رائونڈ ٹیبل میں یو بی جی کے چیئرمین افتخار علی ملک، فیڈریشن کے نائب صدور، وزارت تجارت کے شفیق شہزاد، آئی بی اے کی ڈاکٹر خدیجہ باری، پنجاب یونیورسٹی سی پیک سینٹر کے ڈاکٹر ظفر اقبال، ممتاز معیشت دان، ماہرین تعلیم اور اعلیٰ حکومتی عہدیداران نے شرکت کی۔ میں آج کے کالم میں بزنس کمیونٹی کی پاک چین FTA پر تحفظات اور سفارشات پیش کرنا چاہوں گا۔

پاکستان کی چین کو ایکسپورٹ نہ بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ آسیان ٹریڈ ایگریمنٹ ہے جس کے 10 ممبر ممالک کی باہمی تجارت پر کوئی کسٹم ڈیوٹی نہیں۔ ان ممالک میں انڈونیشیا، تھائی لینڈ، سنگاپور، ویت نام، ملائیشیا، فلپائن، میانمار، کمبوڈیا، لیوس اور برونائی شامل ہیں۔ پاکستان کو آسیان کا ممبر نہ ہونے کی وجہ سے آسیان ممالک کے مقابلے میں اپنی مصنوعات چین ایکسپورٹ کرنے پر زیرو سے 10 فیصد کسٹم ڈیوٹی ادا کرنا پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر حلال گوشت یا چاول اگر آسیان ممبر ویت نام سے چین ایکسپورٹ ہوں تو ان پر کوئی کسٹم ڈیوٹی نہیں لیکن پاکستان سے ایکسپورٹ پر ڈیوٹی ہے۔ پاکستان نے آسیان کی ممبر شپ کیلئے کوشش کی تھی لیکن سنگاپور کے بھارتی نژاد وزیر کی مخالفت پر نئی ممبر شپ دینے سے انکار کردیا گیا لہٰذاآسیان کی مراعات حاصل کرنے کیلئے پاکستان کو اس کے 10 ممالک کے ساتھ PTA یا FTA سائن کرنا ہوگا جس طرح آسیان نے چین، جنوبی کوریا، جاپان، بھارت اور نیوزی لینڈ کے ساتھ FTA سائن کئے ہیں جس کی بنیاد پر ان ممالک کو آسیان ممبر ممالک کی طرح مراعات حاصل ہیں جس سے بھارت فائدہ اٹھارہا ہے۔ اسی طرح چین جو پاکستانی کاٹن یارن کا سب سے بڑی مارکیٹ تھی، 4 فیصد کسٹم ڈیوٹی ہونے کے باعث ہمارے ہاتھ سے نکل گئی اور اب چین بھارتی یارن کی سب سے بڑی مارکیٹ بن گیا ہے۔

پاک چین آزاد تجارتی معاہدے کے تحت پاکستان کی چین کو ایکسپورٹ نہ بڑھنے کی وجہ سی پیک کے تحت انفرااسٹرکچر اور گوادر پورٹ کیلئے 12 ارب ڈالر کے چینی قرضے شامل ہیں جس کے تحت چین کو افرادی قوت کے علاوہ صنعتی خام مال، سیمنٹ اور اسٹیل پاکستان ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کرنے کی اجازت ہے اور SRO-247 کے تحت یہ اشیاء ڈیوٹی فری امپورٹ کی جارہی ہیں جس کے طویل مدت میں مقامی اسٹیل اور سیمنٹ کی صنعتوں پر منفی اثرات پڑیں گے۔ اسی طرح ایشیاء پیسفک ٹریڈ ایگریمنٹ (APTA) جس پر 1974ء میں بینکاک میں دستخط ہوئے تھے اور اسے بینکاک ایگریمنٹ بھی کہا جاتا ہے، کے ممبر ممالک میں تھائی لینڈ، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، لیوس، منگولیا اور جمہوری کوریا شامل ہیں جس کے تحت چین نے بھارت اور بنگلہ دیش کو پسندیدہ تجارتی مراعات دی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی چین کو ایکسپورٹ متاثر ہورہی ہے جبکہ بھارت اس ریجنل بلاک کی مراعات سے فائدہ اٹھارہا ہے۔ ہمیں بھی ریجنل بلاکس کی ممبر شپ حاصل کرکے ان کے ممبر ممالک سے تجارتی مراعات حاصل کرنا چاہئیں جس میں اب تک ہم بری طرح فیل رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کو تمام ممالک کے ساتھ سائن کئے گئے آزاد تجارتی معاہدے (FTA) کا جائزہ لینا ہوگا کہ آیا ان ممالک کے FTA سے پاکستان کی ایکسپورٹس میں اضافہ ہوا ہے یا نہیں۔

حال ہی میں ملائیشیا کے نومنتخب وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے ملائیشیا میں چین کے انفرااسٹرکچر منصوبے جن کے معاہدے ملائیشیا کے سابق وزیراعظم نجیب رزاق نے کئے تھے، منسوخ کرنے کا عندیہ دیا ہے جس میں چین کی انرجی پائپ لائن اور ریل پروجیکٹ شامل ہیں۔

ملائیشیا کے سابق وزیراعظم نجیب رزاق کے چین سے گہرے تعلقات تھے جو اس وقت کرپشن کے الزامات میں جیل میں ہیں۔ مہاتیر محمد نے کہا ہے کہ وہ چین سے اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں لیکن صرف ان منصوبوں کی حمایت کریں گے جو ملائیشیا کے مفاد میں ہوں۔ انہوں نے چین سے جنوبی چین کے سمندری حدود میں بحری جہازوں کی فری نقل و حرکت کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اسی طرح ہمسایہ ممالک سنگاپور کو بیچے جانے والے پانی کی قیمت میں 10 گنا اضافہ کرنے کا اعلان کیا تاکہ وہ ملکی قرضوں کی ادائیگی کرسکیں جبکہ سنگاپور کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ملائیشیا اپنے معاہدے پر پابند رہے۔ ان باتوں کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ملکی مفادات میں کبھی کبھی سخت فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ میری نئی حکومت کو تجویز ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر پاکستان چین آزاد تجارتی معاہدے پر نظرثانی کیلئے چین سے مذاکرات کئے جائیں اور چین پر اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ پاکستان کی ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات کو FTA کے دوسرے فیز میں ڈیوٹی فری مراعات دے اور ہمیں ان ریجنل ممالک کے تجارتی بلاکس جن کا وہ ممبر ہے، آسیان ممالک اور بھارت کی طرح مراعات دے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین