• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر غلام علی مندرہ والا

ذیابطیس ایک طویل المیعاد مرض ہے، جو جسم کو اندر ہی اندر خاموشی سے کھوکھلا کرتا رہتا ہے۔ اور اگر علاج معالجے کے معاملے میں معمولی سی بھی کوتاہی برتی جائے، تو مرض کے مُضر اثرات جسم کے کسی بھی عضو کو متاثر کر سکتے ہیں، جب کہ مرض کے کنٹرول نہ ہونے کی صورت میں عضو ضایع بھی ہوسکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جن امراض نے انتہائی شدّت کے ساتھ قومی صحت کو تباہی سے دوچار کیا ہے، اُن میں ذیابطیس سرِفہرست ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ذیابطیس میں مبتلا مریضوں کی تعداد گزشتہ تین سے چار عشروں کے درمیان دگنی ہو چکی ہے۔ 1970ء کی دہائی میں مَردوں میں ذیابطیس کی شرح تقریباً 4.9فی صد تھی، جو اب 12.6فی صد سے بھی تجاوز کر چُکی ہے۔ اسی طرح 70کی دہائی میں خواتین میں یہ شرح 5.9فی صد تھی اور اب 12فی صد سے بھی زائد خواتین اس مرض میں مبتلا ہیں۔ بلاشبہ ڈائی بیٹیز نے ترقی پزیر، متوسط اور اوسط درجے کی آمدنی والے مُمالک کو تو متاثر کیا ہی ہے، مگر امریکا جیسے ترقی یافتہ مُمالک بھی اپنی آبادی کے ایک بڑے حصّے کو اس عارضے سے بچانے میں ناکام رہے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ذیابطیس میں مبتلا امریکیوں کی تعداد 2کروڑ 90لاکھ سے بڑھ چُکی ہے، جب کہ عالمی سطح پر بھی اس عارضے میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہو رہا ہے۔

اس وقت دنیا بَھر میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان ساتواں بڑا مُلک ہے۔ ضرورت تو اس امر کی تھی کہ مرض کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے کےلیے بہت مؤثر حکمتِ عملی اپنائی جاتی، لیکن بدقسمتی سے ناکافی معلومات، نامناسب علاج، منفی طرزِ زندگی اور مرض کی پیچیدگیوں سے ناواقفیت و لاپروائی کے سبب مرض کی شرح دِن بہ دِن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ مزید ستم یہ کہ مرض کی تشخیص کا بھی کوئی مؤثر نظام نہیں۔ ذیابطیس میں مبتلا مریضوں کی ایک بڑی تعداد کو اُس وقت تک بیماری میں مبتلا ہونے کا علم ہی نہیں ہو پاتا، جب تک کہ مرض ان کے جسم میں مختلف طبّی پیچیدگیوں کا سبب نہ بن جائے۔ یوں تو ذیابطیس کے پھیلائو کی کئی وجوہ ہیں، لیکن اس ضمن میں موٹاپا اور پُرتعیش طرزِ زندگی سرِفہرست ہیں۔ نیز، موروثیت کا بھی خاصا عمل دخل ہے کہ والدین میں سے کوئی ایک فریق بھی اس عارضے کا شکار ہو، تو اولاد میں مرض سے متاثر ہونے کے امکانات، عام افراد کی نسبت خاصے بڑھ جاتے ہیں۔

ذیابطیس کا عارضہ، لبلبے میں انسولین پیدا کرنے والے ہارمونز کم ہو جانے کے نتیجے میں لاحق ہوتا ہے۔ بعض کیسز میں لبلبے میں سِرے سے انسولین بنتی ہی نہیں یا پھر مطلوبہ مقدار سے کم بنتی ہے۔ تاہم، ایسے کیسز بھی موجود ہیں، جن میں لبلبہ انسولین تو بناتا ہے، لیکن وہ اپنا کام درست طریقے سے انجام نہیں دے پاتی۔ ذیابطیس کی مختلف اقسام میں ذیابطیس ٹائپ وَن اور ٹائپ ٹو زیادہ عام ہیں۔ ان دونوں اقسام میں خون میں شامل شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ یہاں اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ گلوکوز کی موجودگی جسمانی اعضاء کی عمدہ کارکردگی کے لیے لازم ہے۔ ہم روزانہ اپنی خوراک میں جو نشاستے دار غذائیں استعمال کرتے ہیں، وہ ہماری آنتوں میں جا کر ایک مخصوص عمل کے تحت گلوکوز (بلڈ شوگر) میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور پھر یہی گلوکوز ہمارے خون میں شامل ہو کر ایک ایندھن کی طرح خلیات کو توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ پورا عمل ایک اہم ہارمون، انسولین کی مدد سے انجام پاتا ہے۔ واضح رہے کہ اگر خون میں شکر کی مقدار موجود نہ ہو یا مطلوبہ مقدار سے کم ہو، تو جسمانی اعضاء اپنے افعال انجام دینے سے قاصر رہتے ہیں اور اس پورے عمل میں بگاڑ اُس وقت پیدا ہوتا ہے، جب لبلبہ انسولین نہ بنائے اور خوراک سے شکر، براہِ راست خون میں شامل ہو جائے۔ پھر شکر کی یہ اضافی مقدار جسم کے مختلف اعضاء پر مضر اثرات مرتب کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ ذیابطیس سے متاثرہ فرد میں ایسی کئی علامات ظاہر ہوتی ہیں، جو خطرے کی نشان دہی کرتی ہیں، مگر زیادہ تر مریض ان مخصوص علامات کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ان علامات میں وقفے وقفے سے پیاس لگنا اور حلق خشک ہو جانا قابلِ ذکر ہے۔ نیز، بار بار پیشاب کی حاجت محسوس ہونا (بالخصوص رات میں)، جب کہ دیگر علامات میں بھوک لگنا اور زیادہ کھانے کے باوجود وزن نہ بڑھنا، تھکاوٹ اور کم زوری کا احساس، بصارت کی کم زوری یا نظر کا دھندلاپن (جو وقت کے ساتھ مزید بڑھ جاتی ہے)،ہاتھوں اور پیروں کا سُن ہو جانا، جسم پر چیونٹیاں سی رینگنے کا احساس، مُنہ یا سانس سے ناگوار بُو، موڈ میں اتار چڑھائو، تھوڑے سے کام کاج سے تھک جانا اور اگر کوئی زخم ہو جائے، تو جلد مندمل نہ ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ ذیابطیس کی حتمی تشخیص کے لیے خون میں شکر کی مقدار کی جانچ لازمی ہے، جس کے لیے معالج خون کا ایک ٹیسٹ تجویز کرتا ہے، جو نہ صرف بہت آسان، بلکہ سستا بھی ہوتا ہے۔ اگر کسی فرد کے خون کے نمونے میں شکر کی مقدار مقررہ حد سے تجاوز کر گئی ہو، تو علامات ظاہر نہ ہونے کے باوجود بھی وہ شخص ذیابطیس کا مریض شمار ہوگا۔

مرض کی پیچیدگیوں کی بات کی جائے، تو اگر ذیابطیس طویل عرصے سے لاحق ہے اور تشخیص ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں طرزِ زندگی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے، تو گُردوں پر ناقابلِ تلافی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گُردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور ڈائی لیسز تک نوبت آجاتی ہے یا پھر گُردوں کی پیوندکاری کرنی پڑتی ہے، جو بہرحال ایک پیچیدہ اور مہنگاترین آپریشن ہے۔ دورانِ خون کا عمل بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ خصوصاً جسم کے نچلے حصّے تک خون نہ پہنچنے کے باعث پائوں ناکارہ ہو سکتے ہیں اور شدت اس نہج پر پہنچ جاتی ہے کہ انگوٹھا، انگلیاں یا بعض اوقات پورا پائوں یا ٹانگ ہی کاٹنے پڑسکتے ہیں۔ بسا اوقات بینائی بھی متاثر ہو سکتی ہے، جب کہ دِل کے دورے اور فالج کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ نظامِ انہضام بھی مضر اثرات سے محفوظ نہیں رہتا۔ علاوہ ازیں، مثانے کی تکلیف، آنتوں کے مسائل، جسمانی اور مختلف اعضاء کی کم زوری سمیت کئی اور مسائل اور پیچیدگیاں بھی ذیابطیس ہی سے منسوب ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کی حالیہ رپورٹ میں مرض کی پیچیدگیوں کے ضمن میں بتایا گیا ہے کہ 2012ء میں ذیابطیس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 15لاکھ تھی، جب کہ اس عارضے سے متاثرہ وہ افراد، جو مختلف اعضاء کی خرابی کے باعث انتقال کر گئے، اُن کی تعداد 22لاکھ تھی۔ اور اب 2018ء میں مرض کے پھیلائو ہی نہیں، شرحِ اموات میں بھی خاصا اضافہ ہو چُکا ہے۔ اس عارضے میں مبتلا افراد کی تقریباً نصف تعداد (43فی صد)، 70برس کی عُمر سے قبل ہی دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے۔ ذیابطیس کے مضر اثرات اور پیچیدگیوں سے محفوظ رہنے کے لیے معالج سے رابطے میں رہنا ناگزیر ہے۔ نیز، خون میں شکر کی مقدار بھی پابندی سے جانچی جائے۔ اگر خون یا پیشاب میں شکر کی مقدار مقررہ حد سے بڑھ جائے، تو گھبراہٹ کا شکار ہوئے بغیر فوری طور پر معالج سے رابطہ کیا جائے۔ اور پھر معالج طرزِ زندگی تبدیل کرنے، خوراک اور ادویہ کے ضمن میں جو تجویز کرے، اس پر سختی سے عمل بھی کیا جائے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ مریض ادویہ باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں، لیکن نہ تو متوازن غذا کا استعمال کیا جاتا ہے اور نہ ہی طرزِ زندگی میں تبدیلی لائی جاتی ہے۔ سو، وہ افراد، جو ذیابطیس میں مبتلا ہیں، یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ صرف ادویہ کے استعمال سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن میں طرزِ زندگی میں تبدیلی لانے کے ساتھ ماہر اغذیہ کی ہدایات کے مطابق متوازن غذا کا استعمال ناگزیر ہے۔ علاوہ ازیں، ایسے مشروبات کا استعمال بھی ترک کر دیا جائے، جن میں زیادہ مٹھاس اور کاربن ڈائی آکسائڈ پائی جاتی ہے۔ ان میں کولا مشروبات سرِفہرست ہیں۔ ان کی بجائے سادہ پانی، بغیر چینی کی چائے یا کافی کا استعمال زیادہ بہتر ہے۔ کھانا معمول سے کم کھائیں،دو وقت کھانے کی بجائے اگرچار سے چھےوقت کھائیں، تو مرض پر خاصا کنٹرول رہتا ہے۔ سفید آٹے اور چاول کی نسبت بغیر چھنا آٹا یا جَو اور بیسن کا آٹا زیادہ فائدہ مند ہے۔ چربی والا گوشت ہرگز استعمال نہ کریں، مرغی، مچھلی، دالیں، گِری والے میوہ جات، سبزیوں اور پھلوں کو اپنی خوراک کا حصّہ بنائیں۔ صرف مٹھاس سے پرہیز ہی کافی نہیں، بلکہ تیل و چکنائی والی اشیاء مثلاً بیکری مصنوعات، نیز، مکھن اور زیادہ مقدار میں روغنیات کا استعمال بھی سخت نقصان دہ ہے۔ ذیابطیس کے علاج کے سلسلے میں ورزش کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ یہ علاج کا ناگزیر حصّہ ہے۔ عمومی حالات کے تحت چہل قدمی سب سے اچھی ورزش ہے۔ تاہم، اس ضمن میں معالج کے مشورے کو فوقیت دی جائے، کیوں کہ اگر خود سے کوئی ایسی ورزش شروع کردی گئی، جس کے نتیجے میں خون میں شکر کم ہو گئی، تو مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ جب کہ سیلف میڈی کیشن سے حتی الامکان گریز بھی ضروری ہے۔ اپنی مرضی سے ادویہ کا انتخاب یا ان میں ردّوبدل قطعاً نہ کریں۔ نیز، اپنے معالج کے علاوہ کسی اور کے کہنے پر کوئی بھی دوا یا دیسی ٹوٹکا استعمال نہ کریں۔ یاد رکھیے، تھوڑی سی احتیاط اور دیکھ بھال سے کئی خطرات کو با آسانی کم کیا جا سکتا ہے۔

(مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ معدہ و جگر ہونے کے ساتھ جنرل فزیشن بھی ہیں اور انکل سریا اسپتال ،کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)

تازہ ترین