محمد انور شیخ، نواب شاہ
’’حج‘‘ اسلام کا بنیادی رکن اور ایک مقدّس دینی فریضہ ہے۔ نیز، حج کے موقعے پر اللہ رب العزّت خاص طور پر مسلمانوں کو ایک سنہری موقع فراہم کرتا ہے کہ جہاں وہ اکٹھے ہوکر عالمِ اسلام کو درپیش مسائل سے نجات کے لیے ایک مشترکہ حکمتِ عملی مرتّب کرکے باہمی اختلافات دُور کرنے کی بھی کوشش کرسکتے ہیں۔ اسے محض ایک رسم کے طور پر نہیں، بلکہ اس کے فلسفے اور اصل روح کے مطابق ادا کرنا چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور قُرب حاصل کرنے کا ایک بہترین وسیلہ ہے۔ ہرسال کی طرح اس سال بھی دنیا کے اس سب سے بڑے اجتماع میں دنیا کے سب سے مقدّس اور بابرکت مقام ارضِ حرم مکّہ معظّمہ میں سخت سیکیوریٹی کے انتظامات کیے گئے۔ اس موقعے پر دنیا بھر سے بیس لاکھ سے زائد فرزندانِ اسلام نے مناسکِ حج ادا کیے، جن میں ایک لاکھ 84ہزار پاکستانی عازمین بھی شامل تھے۔ ایک زمانہ تھا، جب دنیا بھر کے حجاجِ کرام کو مکّہ پہنچنے میں مہینوں لگ جاتے تھے، لیکن اب جدید ترین سفری سہولتوں کے باعث لاکھوں کی تعداد میں حجاج محض چند گھنٹوں میں ارضِ مقدّس، مکّہ پہنچ جاتے ہیں۔ اس برس، دو سو سے زائد ممالک، جن میں چین، روس، بھارت، افغانستان، برما، مقبوضہ کشمیر، امریکا، برطانیہ، جرمنی اور فرانس سمیت دنیا بھر کے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان شامل تھے، فریضہ ٔ حج کی سعادت سے فیض یاب اور بہرہ مند ہوئے۔ یہ عظیم سعادت حاصل کرنے والوں میں نوجوان، بزرگ، بچّے اور خواتین سب ہی شامل تھے۔ اس موقعے پر خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑنے کی کیفیت کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ حرمِ پاک میں سب اپنے رب کے حضور شاداں و فرحاں پیش ہورہے تھے۔ ہر فرد اپنی زبان میں اپنے رب سے معافی کا خواست گار اور جنّت کا طلب گار تھا۔ بندگانِ خدا گناہوں پر ندامت اور بندگی کا اعتراف کرتے ہوئے خانہ ٔ کعبہ کے سامنے اللہ کی حمد و ثناء بیان کررہے تھے۔ ان ہی خوش بخت افراد میں ہم بھی شامل تھے اور ان پُرنورمناظر کو دیکھ کر ہمارا دل گواہی دے رہا تھا کہ ان شاء اللہ، اللہ کی رحمت جوش میں آئے گی اور دنیا بھر کے مظلوم اور محکوم مسلمانوں کے دکھوں کا مداوا ضرور ہوگا۔
خانہ کعبہ میں حاضری کے بعد اگلا مرحلہ عمرے کی ادائیگی اور طواف کا تھا۔ طواف کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ہزاروں سال سے خانہ ٔ کعبہ کے قیام کے بعد شروع ہوا اور روزِ حشر تک جاری رہے گا اور حج کے رکنِ اعظم، وقوفِ عرفہ کے بارے میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ گویا یہ حشر کے میدان کا سا ایک منظر ہوتا ہے، جس طرح میدانِ حشر میں تمام مخلوق اللہ ربّ العزّت کے سامنے پیش ہوگی، اسی طرح حج کے اس رکنِ اعظم میں تمام تر حجاج رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر اپنے ربّ کے حضور پیش تھے اور جس طرح قیامت کے روز ایک خلقت اپنے اعمال کے حساب کے لیے ایک میدان میں جمع ہوگی، اسی طرح حج کے موقعے پر بھی ایک جمِ غفیر پروردگار کے حضور سر جھکائے کھڑا تھا۔ حج و عمرہ سے فیض یابی کے دوران صفا و مروہ وہ مقدّس مقامات ہیں، جن کی تاریخ اور عظمت و اہمیت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ حرم کعبہ اور ارض مقدّس میں اللہ تعالیٰ نے صفا اور مروہ کو اپنی نشانیاں قرار دیا ہے۔ ان مقدّس پہاڑیوں کے کچھ حصّے اب بھی محفوظ حالت میں ہیں کہ ان سنگلاخ پہاڑیوں پر امّاں ہاجرہ علیہا السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے کر، جو کہ پیاس سے بلک رہے تھے، کس طرح بے قراری کے عالم میں ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ تک دوڑ رہی تھیں۔ قیامت خیز گرمی میں بھی اس منظر کو یاد کرنا شاید اب ناممکن ہے، کیوں کہ سعودی حکومت نے اس مقام کو سینٹرلی ائرکنڈیشنڈ کرکے حجاج کے لیے انتہائی آسانیاں فراہم کردی ہیں۔ تاہم، گرین لائٹ کے درمیان حاجیوں کو دوڑنے اور خواتین کو نسبتاً تیز چلنے کے حکم سے یہ یاد اب بھی تازہ ہوجاتی ہے۔ صفا ومروہ کی سعی کے بعد عمر ے کا مرحلہ مکمل ہوجاتا ہے، جس کے بعد مرد حلق یعنی سر کے بال منڈوا کر یا ترشوا کر احرام کی پابندی سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ اب، جب کہ ایّامِ حج میں حج کی ادائیگی کے لیے پہلا مرحلہ حج کا احرام باندھ کر منیٰ میں قیام اور نو ذوالحجہ کو حج کے رکنِ اعظم، وقوفِ عرفات کے لیے عرفات کے میدان میں دنیا بھر سے آئے ہوئے حجاجِ کرام کا روح پرور اجتماع ہے۔ وقوفِ عرفہ کی حقیقت یہ ہے کہ ہر بندہ گویا اللہ رب العزت سے ہم کلام ہوتا ہے کہ اس کا اللہ کے درمیان تعلق جتنا مضبوط ہوگا، اتنا ہی عرفات کا وقوف اس کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ وقوفِ عرفات کے بارے میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے آسمان پر نازل ہوتا اور اپنے بندوں پر تفاخر فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ باوجود علم کے فرماتا ہے کہ ’’میرے فرشتو! میرے یہ بندے یہاں کس لیے جمع ہوئے ہیں؟‘‘ فرشتے کہتے ہیں ’’اللہ عزّوجل! انہوں نے تیرے حکم پر لبیک کہتے ہوئے یہاں آنے کا قصد کیا اور حج کے لیے جمع ہوئے ہیں۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے، ’’کیا یہ وہی انسان نہیں، جس کی تخلیق کے موقعے پر تم نے کہا تھا کہ یہ زمین میں فساد کریں گے۔‘‘ فرشتے کہتے ہیں کہ ’’ہاں معبود، یہ وہی بندے ہیں؟‘‘ تو اللہ فرماتا ہے ’’میرے بندے بکھرے بال، میلے کچیلے کپڑے پہنے میرے حضور آئے ہیں، اے فرشتو ! تم گواہ رہنا، میں نے ان سب کی مغفرت کردی۔‘‘
عرفات کے میدان میں حجاج کرام اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے، ایک طرف اپنے گناہوں کی معافی کے لیے آنسو بہاتے ہیں،تو دوسری طرف اپنی ذات سے لے کر ملک و قوم اور امّتِ محمدیہﷺ کی مغفرت اور امّت کے جملہ مسلمانوں کے لیے بھی دعائیں کی جاتی ہیں۔ بلاشبہ، یہ دنیا کا واحد میدان ہے، جہاں لاکھوں کی تعداد میں خواتین و مرد اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی اورہر ایک انسان کے لیے ہدایت اور اس کی کام یابی کی دعا کرتے ہیں۔ مغرب کا وقت شروع ہونے کے بعد سعودی حکومت کی جانب سے عرفات کے میدان میں موجود حجاج کی آگہی کے لیے توپ کا گولہ داغا جاتا ہے، یہ اس بات کا اعلان ہے کہ وقوف کا وقت ختم اور مزدلفہ کی روانگی کا وقت شروع ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ ہی عرفات میں موجود تمام حجاجِ کرام شاداں و فرحاں مزدلفہ کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں۔ حجاج، اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوتے ہیں اور اللہ کے مہمانوں کی خدمت میں سعودی عوام بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ یہاں لاکھوں کے مجمعے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں کنٹینرزمیں انواع و اقسام کے کھانے، ڈرائی فروٹس، تازہ مچھلی، آئس کریم، فروٹ جوسز اور لسّی، دہی وغیرہ تقسیم کیے جاتے ہیں۔ عرفات سے روانگی کے بعد مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی قصر نمازوں کی ادائیگی کے بعد آرام کا حکم ہے۔ فجر کی نماز کے بعد کچھ توقف کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے مناجات کے بعد حجاجِ کرام، حج کے اہم رکن، جمرات میں رمَی کے لیے مِنیٰ روانہ ہوجاتے ہیں۔ رمَی کے لیے کنکریاں مزدلفہ میں پہاڑیوں کی شکل میں موجود ہیں، اور قیامت تک یہ کنکریاں موجود رہیں گی۔ حجاج، رمَی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد قربانی کرکے سر کے بال منڈواتے ہیں، جس میں حلق، یعنی سر کے بال منڈوانا یا قصر ترشوانا شامل ہے۔اس کے بعد طوافِ زیارت کرکے حرمِ پاک کی طرف جاتے ہیں، یہ طوافِ زیارت بھی حج کا رکن ہے، جس کے بغیر حج مکمل نہیں ہوتا۔ اکثر حجاج بارہ ذوالحجہ کی رمَی کے بعد مکّہ آجاتے ہیں، ایسے افراد کا مغرب سے قبل منیٰ سے آنا ضروری ہے اور سورج غروب ہونے کے بعد ان پر تیرہ ذوالحجہ کو منیٰ میں قیام اور رمی کی پابندی عائد ہوجاتی ہے اور آخرمیں طواف وداع کے بعد ارکانِ حج مکمل ہوجاتے ہیں۔
حج کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ عالمِ ارواح میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حج کی پکار کو لوگوں تک پہنچایا اور اسی پر لبیک کہنے والے دنیا کے کونے کونے سے سمٹ کر حج بیت اللہ کے لیے ارضِ مقدّس، مکّہ معظمہ آتے ہیں اور قیامت تک آتے رہیں گے۔ سورئہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اور اللہ کی رضاکے لیے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج فرض ہے، جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔‘‘نبی اکرم ﷺ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا۔ ’’لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، اس لیے حج کرو۔ کسی کو معلوم نہیں کہ (آئندہ) اسے کیا عذر پیش آجائے۔‘‘ (مسندِاحمد) حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ ’’جو شخص حج پر قادر ہو، پھر بھی وہ اسے چھوڑ دے، تو اس کے لیے برابر ہے کہ وہ یہودی ہوکر مَرے یا عیسائی ہوکر۔‘‘ حج ایک ایسا مبارک سفر ہے کہ جس میں پیش آنے والی تمام تر مشقّت کو عازمینِ حج خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔ تاہم، دیکھا یہ جارہا ہے کہ ماضی میں حجاج جتنا وقت نمازوں کے بعد تلاوتِ قرآن و ذکر و اذکار کو دیتے تھے، اب وہ وقت موبائل فون کے استعمال اور سیلفیز بنانے پر صرف ہورہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ سیلفیز کا یہ شوق گویا (نعوذ باللہ) خانہ کعبہ اور روضہ رسول ﷺ کی محبت و عقیدت سے بھی آگے بڑھ گیا ہے اور اب تو بعض حضرات جمرات پر کنکریاں مارتے ہوئے بھی سیلفی بنانا ضروری سمجھتے ہیں۔
حج کی سعادت سے قبل یا بعد میں مدینہ منورہ کا سفر بھی عازمینِ حج کے سفر کا حصّہ ہوتا ہے اور مدینہ منورہ اور روضہ ٔ رسول ﷺ پر حاضری کے بارے میں عرض ہے کہ خانہ کعبہ وہ مقام ہے جہاں مسلمان طواف و سعی کے ذریعے اللہ کی رحمت تلاش کرتے ہیں، جب کہ مدینہ منورہ وہ جگہ ہے، جہاں اللہ کی رحمت مسلمان کو تلاش کرتی ہے، کیوں کہ نبی اکرم ﷺ کے بارے میں خود اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ ’’اے نبی ﷺ! ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ اور اس طرح رحمت و برکت کا سفر اختتام پزیر ہوتا ہے۔ تاہم، اللہ پاک اور نبی ﷺ کے حج کے فریضے کو جلد سے جلد ادا کرنے کے احکام توجّہ طلب ہیں اور اگر زادِ راہ بھی ہے، صحت بھی اجازت دیتی ہے، تو فریضہ ٔ حج کی ادائیگی اور حرمین شریفین میں حاضری کی سعادت سے محرومی حد درجہ بدنصیبی اور محرومی کی بات ہے۔ ’’حج‘‘ اللہ کی راہ میں بندگی کا سفر، تسلیم و رضا کا مظہر اور اللہ اور اس کے حبیب، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت کی ایک روشن علامت ہے۔ جس کی ادائیگی بلاشبہ اللہ کا ایک عظیم انعام ہے۔ اس سال میدانِ عرفات میں جمع لاکھوں عازمین سے مخاطب، مسجد نبوی ؐ کے امام، شیخ حسن بن عبدالعزیز، آل الشیخ نے خطبہ ٔ حج میں مسلمانوں کو تقویٰ اختیار کرنے پر زور دیا۔ شیخ حسن بن عبدالعزیز آل الشیخ نے خطبہ حج میں کہا کہ ’’اللہ کی جانب سے حکم دیا گیا ہے کہ اپنے والدین، پڑوسیوں، رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھا جائے۔‘‘ خطبہ حج میں حسنِ اخلاق پر زور دیتے ہوئے امامِ حرم نبوی ؐ نے مسلمانوں کو بہ طور خاص اسے اپنانے اور اس کی عظمت و اہمیت کو سمجھنے کی تعلیم دی۔ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجینسی نے حج کے موقعے پرحرمِ مکّی اور مشاعرِ مقدّسہ کا فضائی جائزہ لیا اور حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے حجاجِ کرام کے لیے فراہم کردہ سہولتوں کو کیمرے میں محفوظ کیا۔ اس دوران متعلقہ ادارے حج سیزن کے دوران سیکیوریٹی، صحت اور انتظامی امور سے متعلق خدمات انجام دینے میں بھی شب و روز مصروفِ عمل نظر آئے، تاکہ حجاج کرام مکمل امن، سکون اور سلامتی کے ساتھ مناسکِ حج ادا کرسکیں۔ سعودی وزارتِ صحت نے عرفات کے مختلف حصّوں میں چار عارضی اسپتال قائم کیے، جن کی گنجایش 600 بستروں پر مشتمل تھی۔ اس کے علاوہ 46 طبّی مراکز بھی قائم کیے گئے، گُردوں کے امراض میں مبتلا افراد کے لیے ڈائیلیسز کی 49 مشینیں نصب کی گئیں، عرفات میں 150 طبّی ٹیمیں، 33 ایمرجینسی مراکز اور 26 سے زیادہ کیئر پوائنٹس صحت سے متعلق خدمات کے لیے تیار نظر آئے۔ ایسے منظم اور مربوط انتظامات، بلاشبہ قابلِ تعریف و لائقِ تحسین ہیں۔منیٰ میں آباد ہونے والی، دنیا کی اس سب سے بڑی خیمہ بستی میں جس نظم و ضبط کا مظاہرہ اور جو مثالی انتظامات دیکھنے میں آئے، اس کے لیے حجاجِ کرام کے دل سے اپنے رب کی حمد و ثناء کے ساتھ ساتھ اس حسنِ انتظام پر منتظمین اور وہاں موجود عرب رضاکار میزبانوں کے لیے بھی دعائیں نکلتی رہیں۔ فریضہ ٔ حج کی ادائیگی اور اپنے رب اور اللہ کے حبیب، محبوبِ دوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ ٔ انور اور مدینتہ النبی ؐ کی حاضری کا منظر بیان کرنا، مشاہداتِ سفر قلم بند کرنا، اسے لفظوں کے اسلوب اور پیرائیہ بیان میں سمونا مشکل ہی نہیں، بڑی حد تک ناممکن بھی ہے۔ بلاشبہ، اس مقدّس سفر کا ہر لمحہ مقدّس و مبارک، اللہ کی رضا کا سرچشمہ اور اس کے قرب کا وسیلہ و شانِ بندگی کا حسین مظہر ہے۔