اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت وراہنمائی کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کو وقتاً فوقتاً اس دنیا میں بھیجا جنہوں نے آکر انسان کو دنیا میں آنے کا اصل مقصد بتایا اور اسے صحیح خطوط پر زندگی گزارنے کے طور طریقوں سے آگاہ کیا۔ یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا۔تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ سلسلۂ نبوت جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا، وہ آنحضرت ﷺ پر ختم کردیا گیا۔آپ ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں،آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔آپ کی امت آخری امت ہے اس کے بعد کوئی امت نہیں ہوگی آپ پر جو کتاب (قرآن کریم) نازل ہوئی وہ آخری کتاب ہے۔یہ عقیدہ ختم نبوت کہلاتا ہے۔’’عقیدۂ ختم نبوت‘‘ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے، اس پر ایمان لانا اسی طرح ضروری ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور نبی اکرم ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا، کیوں کہ یہ عقیدہ قرآن کریم کی سو سے زائد آیات اور دو سو احادیث سے ثابت ہے، امت کا سب سے پہلا اجماع بھی اسی پر منعقد ہوا ،یہی وجہ ہے کہ ختم نبوت کا مسئلہ اسلامی تاریخ کے کسی دور میں مشکوک اور مشتبہ نہیں رہا اور نہ ہی کبھی اس پر بحث کی ضرورت سمجھی گئی، بلکہ ہر دور میں متفقہ طور پر اس پر ایمان لانا ضروری سمجھا گیا۔
حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت کا اعلان در حقیقت اس اُمت پر ایک احسان عظیم ہے ،اس عقیدے نے اُمت کو وحدت کی لڑی میں پَرودیا ہے ، آپ پوری دنیا میں کہیں چلے جائیں اور آپ ہر دور اور ہر عہد کی تاریخ کا مطالعہ کریں آپ کو نظر آئے گا کہ خواہ کسی قوم، کسی زبان، کسی علاقے اور کسی عہد کا باشندہ ہو، اگر وہ مسلمان ہے اور حضور اکرم ﷺ پر اس کا ایمان ہے تو اس کے عقائد، اس کی عبادات، اس کے دین کے ارکان، اس کے طریقے میں آپ کو یکسانیت اور وحدت نظر آئے گی جس طرح حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں پانچ نمازیں فرض تھیں، اسی طرح آج بھی پانچ نمازیں فرض ہیں، ان کے جو اوقات حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں تھے، وہی آج بھی ہیں جو اوقات سعودی عرب میں ہیں، وہی اوقات امریکہ اور یورپ اور ایشیائی ممالک میں ہیں ،اسی طرح روزہ ، حج، زکوٰۃ اور دیگر احکام بھی سب کے لئے یکساں ہیں، یہ سب نتیجہ ہے ختم نبوت کا، اتمام نبوت کا ،اکمال شریعت کا ۔
اسی لئے علامہ اقبالؒ نے یہ حقیقت واشگاف الفاظ میں بیان کی۔’’ دین وشریعت تو قائم ہیں کتاب وسنت سے ، دین وشریعت کی بقا اور دین وشریعت کا استمرار اور وجود مربوط ہے کتاب وسنت سے ، جب تک کتاب وسنت ہے ، دین باقی ہے، دین و شریعت باقی ہے ،لیکن اُمت کی بقاء ختم نبوت کے عقیدے سے ہے۔‘‘
قرآن کریم نے اس عقیدۂ ختم نبوت کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’محمد (ﷺ) تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں، مگر اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔‘‘ (سورۃالاحزاب)اللہ تعالیٰ نے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ آیت نازل فرمائی جس میں تکمیلِ دین کا اعلان کیا :’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنا احسان پورا کردیا اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔‘‘ (سورۃ المائدہ)
اس کے علاوہ قرآن کریم کی سو سے زائد آیات سے عقیدۂ ختم نبوت ثابت ہوتا ہے، حضور اکرم ﷺ نے صاف اور واضح طور پر اعلان فرمایا:’’میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے ،ہر ایک یہی کہے گا کہ وہ نبی ہے ،حالانکہ میں اللہ کا آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔‘‘ (سنن ابودائود، ترمذی)
علمائےکرام نے ان تمام احادیث کو جمع کردیا ہے جن سے عقیدہ ختم نبوت ثابت ہوتا ہے اور ان احادیث کی تعداد دو سو سے زائد ہے۔ اس عقیدے پر امت کا اجماع چلا آرہا ہے، بلکہ امت میں سب سے پہلا اجماع اسی مسئلے پر ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کسی نے آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کی، امت نے نہ صرف یہ کہ اسے قبول نہیں کیا بلکہ اس وقت تک سکون کا سانس نہیں لیا ،جب تک کہ اس ناسور کو کاٹ کر جسد امت سے علیحدہ نہیں کردیا۔
آنحضرت ﷺ کے آخری دورِ حیات میں تین افراد نے نبوت کا دعویٰ کیا، آپ ﷺ نے اس پر کیاطرزِ عمل اختیار کیا ،یہ پوری امت کے لئے مشعل راہ ہے اور امت کے لئے ایک راہ نما درس ہے ، اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو بتانا چاہا کہ آنحضرت ﷺ کے ارشادات اور زبانی ہدایات کے ساتھ عملی طور پر بھی راہنمائی ہوجائے۔ تین افراد نے نبوت کا دعویٰ کیا (۱) اسود عنسی(۲) طلیحہ اسدی (۳)مسیلمہ کذاب۔ اسود عنسی یمن کے علاقے صنعا کا رہنے والا تھا ،عنس قبیلے کا سردار تھا، اس لئے عنسی کہا جاتا ہے، حدیث میں اسے صاحب صنعاء کہا گیا ہے ،اس کا نام عبہلہ تھا چونکہ بہت کالا تھا ،اس لئے اسود نام پڑ گیا۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور یمن کے گورنر کو قتل کرکے پورے یمن پر قبضہ کرلیا۔ آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوا تو آپ نے حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کو اس کے خاتمے کے لئے بھیجا اور حضرت فیروز نے اسود عنسی کے گھر میں نقب لگاکر اس کا خاتمہ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے آپ ﷺ کو اس کی اطلاع دی، آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو یہ بات بتاتے ہوئے فرمایا: فاز فیروز (فیروز کامیاب ہوگیا) اس طرح ایک جھوٹے نبی کے خاتمے پر بارگاہِ رسالت سے حضرت فیروز رضی اللہ عنہ نے کامیابی کی سند حاصل کی۔
طلیحہ بن خویلد جو قبیلہ بنو اسد سے تعلق رکھتا تھا، نے بھی آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور کئی افراد اکٹھے کر لئے۔ آپ ﷺ نے معروف صحابی کمانڈر حضرت ضرار بن ازور رضی اللہ عنہ کو اس کی سرکوبی کے لئے بھیجا، انہوں نے اس کا محاصرہ کرتے ہوئے اس پر حملہ کیا ،اگرچہ طلیحہ قابو میں نہیں آیا، بھاگ گیا مگر باقی لوگوں کے ساتھ جنگ ہوئی اور مسلمان کامیاب و کامران واپس لوٹے۔ ابھی حضرت ضرارؓ راستے میں تھے کہ آنحضرت ﷺ کا وـصال ہوگیا۔
تیسرا مدعی نبوت مسیلمہ تھا جو یمامہ کے مضبوط قبیلے بنو حنیفہ سے تعلق رکھتا تھا ،اس نے آنحضرت ﷺ کی نبوت کا انکار نہیں کیا، بلکہ نبوت میں شراکت کا دعویٰ کیا،اور اس پر مبنی خط تحریر کروایا۔‘‘(دلائل النبوہ ،ج ۵، ص ۳۳۱)
اس کے جواب میں حضور اکرم ﷺ نے تحریر فرمایا:’’محمد رسول اللہ کی جانب سے مسیلمہ کذاب کے نام !سلام ہو اس پر جو ہدایت کی اتباع کرے۔ اما بعد!زمین اللہ کی ہے ، اللہ جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنادیتا ہے۔‘‘ (دلائل النبوہ، ترجمان السنہ)
اس دن سے مسیلمہ کا نام کذاب پڑ گیا اور اس کے نام کا حصہ بن گیا، حضور اکرم ﷺ نے زمین کی تقسیم کے بارے میں جواب دیا کہ یہ اللہ کی ہے، اللہ جسے چاہتا ہے،اس کا وارث بنادیتا ہے اور نبوت میں شراکت اور اپنے آپ کو رسول اللہ لکھنے کے جواب میں ارشاد فرمایاکہ یہ بات کہنے والا سب سے بڑا جھوٹا ہے اور یہ بات اس قابل ہے کہ اس کی طرف دھیان ہی نہ دیا جائے ۔ البتہ اس کے قاصدوں کو کہا کہ اگر قاصد کا قتل کرنا جائز ہوتا تومیں تم دونوں کی گردن اڑادیتا۔یہ ہے حضور اکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ اور عملی نمونہ کہ ایک لمحے کے لئے بھی جھوٹی نبوت برداشت نہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے لئے اس کا دعویٰ ناقابل برداشت ہے۔
اسود عنسی اور طلیحہ اسدی کی طرح آنحضرت ﷺ کو مسیلمہ کذاب کی بیخ کنی اور اس کے خاتمے کا موقع نہیں ملا۔ اس لئے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ (جن کے سامنے آپ کا اسوۂ حسنہ موجود تھا) نے مسیلمہ کذاب کے فتنے کے خاتمے کے لئے ایک لشکر بھیجا جس میں بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے، اور تمام صحابہ نے اس لشکر کشی پر اتفاق کیا، یوں سب سے پہلا اجماع اور سب سے قوی اور مضبوط اجماع منکرین ختم نبوت کے خلاف منعقد ہوا ۔ اس جنگ میں سب سے پہلے عکرمہ رضی اللہ عنہ ، پھر حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ اور آخر میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے لشکر کی کمان کی۔ مسیلمہ کذاب اپنے بیس ہزار لشکریوں سمیت حدیقۃ الموت میں جہنم رسید ہوا۔ مسیلمہ کذاب کے خلاف ختم نبوت کے تحفظ کے اس پہلے معرکہ میںبارہ سو صحابہ کرامؓ و تابعینؒ شہید ہوئے جن میں سات سو قرآن مجید کے حافظ و عالم اور ستر بدری صحابہ کرامؓ بھی تھے۔ جبکہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں لڑی جانے والی تمام جنگوں میں شہید ہونے والے صحابہ کرامؓ کی تعداد ۲۵۹ ہے۔
مسیلمہ کذاب حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا جس پر انہوں نے کہا کہ حالت کفر میں میرے ہاتھوں ایک بڑے مسلمان شہید ہوئے تھے ،آج ایک بڑے کا فرکو قتل کرکے میں نے اس کا مداوا کردیا۔
یہ تو خلیفہ اول اور صحابہ کرامؓ کا اجتماعی طرزِ عمل تھا انفرادی طور پر صحابہؓ نے کیا طرزِ عمل اختیار کیا درج ذیل دو واقعات سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
۱)…یمن میں حضرت ابو مسلم خولانی جن کا نام عبد اللہ بن ثوب تھا، وہ حضور اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں اسلام لاچکے تھے، مگر ابھی تک آپ ﷺ کی زیارت سے مشرف نہیں ہوئے تھے، اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ، ابو مسلم خولانی کو بھی بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی، انہوں نے انکار کردیا، انکار پر اسود عنسی نے ایک خوفناک آگ دہکائی اور اس میں انہیں ڈال دیا، وہ بلاتردد و خوف آگ میں کود گئے، اللہ تعالیٰ نے آگ کو ان کے لئے بے اثر کردیا اور وہ آگ سے صحیح سلامت نکل آئے، یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے ساتھیوں پر ہیبت طاری ہوگئی اور انہیں ہمت نہ ہوئی کہ وہ مزید ان کے خلاف انتقامی کارروائی کریں ، مگر انہیں اپنی خود ساختہ جھوٹی نبوت زمیں بوس ہوتی محسوس ہوئی، اس لئے انہیں یمن سے جلاوطن کردیا ،وہ سیدھے مدینہ منورہ روانہ ہوگئے۔ جب مدینہ منورہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آقا مدنی ﷺ وصال فرماچکے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے خلیفہ مقرر ہوچکے ہیں ۔ وہ مدینہ منورہ میں اجنبی تھے، مسجد نبوی میں ایک ستون کے پیچھے نماز میں مشغول ہوگئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں موجود تھے، ایک اجنبی مسافر کو دیکھا، نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کیا، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت عمرؓنے پوچھا کون ہو ، کہاں سے آئے ہو ؟ انہوں نے کہا یمن سے ۔ یمن کے واقعے کی اطلاع مدینہ منورہ پہنچ چکی تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بڑے اشتیاق سے پوچھا: اللہ کے دشمن اسود عنسی نے ہمارے دوست کو آگ میں ڈالا تھا ،آگ نے ان پر اثر نہیں کیا تم انہیں جانتے ہو؟ حضرت ابو مسلم خولانیؓ نے کہا ہاں ان کا نام عبد اللہ بن ثوب ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فراست ایمانی نے کام کیا ، فوراً پوچھا:میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ وہ آپ ہی تو نہیں ؟انہوں نے جواب دیا ،ہاں! حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں فوراً خلیفۃ المسلمین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئے اور ابو مسلم خولانی کو اپنے اور حضرت ابوبکر ؓ کے درمیان بٹھاکر فرمایا ، اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہ کے اس شخص کی زیارت کرادی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسا معاملہ فرمایا‘‘۔( حلیۃ الاولیاء ص ۱۲۹، ج۲، ترجمان السنۃ ص ۳۴۱، ج۴)
۲)… اسی طرح حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کو مسیلمہ کذاب نے بلاکر پوچھا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ،انہوں نے فرمایا، ہاں! اس نے پھر پوچھا کہ تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں:؟ اس پر انہوں نے عجیب جواب دیا کہ ’’تم جو کچھ کہہ رہے ہو میرے کان اس سے بہرے ہیں‘‘یعنی گواہی تو بہت دور کی بات، میرے کان یہ بات سننے کے لئے ہی تیار نہیں اور نہ ہی سننا چاہتا ہوں، مسیلمہ نے بار بار یہ سوال کیا مگر ان کا یہی جواب تھا۔ مسیلمہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا اور اپنا سوال دہراتا رہا، مگر حضرت حبیب بن زیدؓ بھی ثابت قدم رہے یہاں تک کہ ان کو شہید کردیا ۔
صحابہ کرامؓ نے اپنے طرزِ عمل سے امت پر یہ ثابت کردیا کہ وہ آگ میں کود سکتے ہیں ، اپنا ایک ایک عضو کٹواسکتے ہیں ، جان دے سکتے ہیں مگر حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔
امت نے آنحضرت ﷺ، خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ اور صحابہ کرامؓ کے اس مبارک عمل کو اپنے لئے نمونہ اور اسوہ بنایا، اسے اپنے لئے مشعل راہ بنایا اور جب کبھی کسی شوریدہ سر نے نبوت کا دعویٰ کیا امت نے نہ صرف یہ کہ اس کا مقابلہ کیا ،بلکہ جب تک اس کا قلع قمع نہیں کردیا، چین اور سکون کا سانس نہیں لیا، پوری تاریخ اسلامی میں ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں کیا جاسکتا کہ کبھی کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہو اور امت نے اسے خاموشی سے برداشت کرلیا ہو۔اسی عمل کا تسلسل ہے کہ جب متحدہ ہندوستان میں مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنے پیروکاروں کی ایک جماعت بنالی تو اسوۂ نبوی اور صحابہ کرامؓ کے عمل کی پیروی کرتے ہوئے علمائےحق اس جھوٹی نبوت کے خاتمے کے لئے میدان عمل میں آئے اور اس کا ہر سطح پر مقابلہ کیا، اس وقت کی حکومت برطانیہ کی چوں کہ مکمل سرپرستی مرزا غلام احمد کو حاصل تھی، اس لئے اس فتنے کا خاتمہ اس طرح تو نہیں کیا جاسکا جس طرح دورِ نبوی اور دورِ صحابہ میں ہوا، مگر اس کے مقابلہ اور ا سے ختم کرنے کے لئے کوئی سستی اور غفلت نہیں برتی گئی بلکہ تحریری ، تقریری، مناظرہ، مباہلہ غرضیکہ ہر سطح پر اس کا مقابلہ کیا۔
بے شمار تحریری پیش کی جاسکتی ہیں کہ یہ صرف ایک فرقہ نہیں ،بلکہ نبوت محمدی ﷺ کے خلاف ایک بغاوت اور اسلام کے متوازی ایک علیحدہ دین ہے ، جس کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی انہیں اسلام کا نام استعمال کرنے کا حق ہے ، نہ یہ اپنے آپ کو مسلمان کہلواسکتے ہیں ،لیکن ان کی ہٹ دھرمی ہے کہ سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے یہ اسلام اور مسلمانانِ اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں ،اس لئے ہمیشہ امت محمدیہ نے یہ مطالبہ کیا کہ انہیں غیر مسلم قرار دیا جائے۔ اس کے لئے ۱۹۵۳ء میں تحریک چلی ،جس میں یہی بنیادی مطالبہ تھا۔۱۹۷۴ء میں ایک بار پھر تحریک چلی جس میں پاکستان کے تمام مسلمانوں کا بیک آواز ایک ہی مطالبہ تھا کہ انہیں غیر مسلم اقلیت قراردیا جائے۔ اس مطالبے نے زور پکڑا ، پر امن تحریک چلی ، پوری قوم اس مسئلے پر متفق تھی، چنانچہ یہ تحریک ۷؍ستمبر کے تاریخ ساز آئینی فیصلے پر منتج ہوئی۔
۷؍ ستمبر 1974کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں وہ تاریخی بل پیش کیاگیا۔آخرکار قومی اسمبلی نے فیصلہ کا اعلان کیا کہ مرزا قادیانی کے ماننے والے ہر دو گروپ غیر مسلم ہیںاور اس شق کو باقاعدہ آئین کا حصہ بنادیا گیا۔قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے بعد وعدہ کیا گیا تھا کہ اس سلسلے میں باقاعدہ قانون سازی کی جائے گی، تاکہ قادیانی اپنے لئے اسلام اور مسلمان کا لفظ اور دیگر اسلامی اصطلاحات استعمال نہ کرسکیں، مگر اس سلسلے میں ٹال مٹول سے کام لیا گیا اور قانون سازی نہ کی جاسکی تا آنکہ۱۹۸۴ء میں ایک بار پھر تحریک کو منظم کیا گیا جس کے نتیجے میں امتناع قادیانیت آرڈیننس منظور ہوا جس کی رو سے قادیانیوں کے لئے اپنے آپ کو مسلمان کہنا یا کہلوانا، اپنی عبادت گاہ کو مسجد قرار دینا ، اذان دینا، کلمہ طیبہ کا بیج لگانا، مرزا غلام احمد کو نبی کہنا، اس کے ساتھیوں کو صحابی اور اس کی بیویوں کو امہات المؤمنین کہنا وغیرہ الفاظ کا استعمال قابلِ تعزیر جرم قرار دیا گیا۔