• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف آج کل بہت ہی بچت کرتی نظر آرہی ہے۔ بچت کا فلسفہ کیا ہے۔ بچت اصل میں اضافی آمدنی ہوتی ہے۔ پاکستان میں اصل مسئلہ آمدنی ہے ۔ دوسری طرف اخراجات کی کوئی انتہا نہیں۔ ابھی تک بچت کا معاملہ مکمل طور پر اخراجات کے ساتھ منسلک نہیں ہے۔ کپتان عمران خان اپنی نجی زندگی میں بہت بچت کرتے نظر آتے ہیں ۔ ان کا یہ فعل سب کے لئے قابل عمل بھی ہے۔ ہمارے سابق وزیر اعظم نواز شریف ذاتی زندگی میں بہت ہی شوقین مزاج تھے۔ ابتدائی دنوں میں والد محمد شریف کی سختی کی وجہ سے شوق کا اظہار کھل کر نہ کر سکے۔ پھر ان پر جنرل جیلانی کی نظر کرم ہوئی انہوں نے موصوف کو ایک اچھا اور معصوم بچہ پایا اور اس کی تربیت کا فیصلہ کیا۔ میاں شریف جو پیپلز پارٹی کے ڈسے ہوئے تھے۔ انہوں نے بچوں کی تربیت پر نظر رکھی، وہ شہباز شریف کو زیادہ چالانک مانتے تھے۔ مگر نواز شریف کو آگے رکھتے تھے ۔ پھر جنرل ضیا ء الحق نے پنجاب میں نواز شریف کو اپنا گھوڑا بنایا۔

جنرل ضیاء الحق اور ان کی اہلیہ کو مہنگی چیزوں کا بڑا شوق تھا۔ میاں شریف نے جنرل جیلانی اور جنرل ضیاء کو بھائی چارے کے طور پر بہت سارے مہنگے تحفوں سے نوازا جس سے میاں نواز شریف کا سیاسی سفر آسان رہا۔ جنرل ضیاء کی موت کے بعد بھی تحفوں کا تبادلہ جاری رہا مجھے یاد ہے جنرل آصف نواز جنجوعہ کے زمانہ میں بڑے میاں صاحب نے جنرل آصف کو بیش قیمت کار کا تحفہ دینے کافیصلہ کیا اور اس کی چابی لے کر کماندار پاکستان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا میں نے اپنے تینوں بچوں کو کار کا تحفہ دیا ہے (نواز شریف، شہباز شریف، عباس شریف) آپ بھی میرے بچوں جیسے ہیں اس لئے ایک کار آپ کے لئے بھی۔ جنرل آصف نواز کو کار اور چابی پسند تھی۔ مگر دینے والوں کی نیت پر شک تھا ۔ انہوں نے نفاست سے معذرت کر لی، مگر شریف فیملی نے ان کی معذرت کو پسند نہ کیا اور فریقین ایک دوسرے کو نا پسند کرنے لگ گئے۔

جنرل ضیا کے بعد میاں نواز شریف مسلسل ترقی کرتے گئے اور پیپلز پارٹی سے مقابلہ جاری رکھا۔ پھر جنرل مشرف پر مہربانی فرمائی۔جنرل مشرف دہلی کے سید تھے اور جنرل ضیا کی طرح کے آفیسر تھے اور میاں نواز شریف کو بہت ہی عزت دیتے تھے۔ ان کی سفارش کے لئے سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی اور سابق صوبے دار پنجاب شہباز شریف بہت ہی نمایاں تھے اور ان کے اندازے کے مطابق جنرل مشرف ان کا بہترین انتخاب تھے۔ سیاست اور سازش ہماری اشرافیہ کا خاصہ رہا ہے ۔ جنرل مشرف نے کشمیر کے معاملہ پر ڈرامائی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور کسی حد تک نواز شریف کے پریوار کو اعتماد میں لیا۔ جنرل مشرف کی منصوبہ بندی پر فوج میں تشویش تھی۔ ایک طرف میاں نواز شریف بھارت کے ساتھ جنگ کی فضا ختم کرنے اور تجارت اور کاروبار شروع کرنے کے لئے اپنے آپ کو نمایاں کر رہے تھے۔ پھر دوسری طرف کشمیر میں پیش قدمی سے معاملہ بگڑ گیا اور میاں نواز شریف جنرل مشرف کے مشورہ پر امریکہ گئے اور پاکستان کو مشکل سے نکالنے کے لئے امریکی مدد حاصل کی۔ اس دور میں بھی میاں نواز شریف صدر کلنٹن اور ان کی فیملی کے لئے نادر تحفے لے کر گئے۔

تحفوں کے تبادلہ میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بھی کسی سے کم نہیں تھیں۔ اور وہ بھی قیمتی چیزوں کی شوقین تھیں۔ انہیں اپنے شوہر زرداری کے شوقوں پر بہت اعتراض تھا آصف علی زرداری بلوچ سندھ سیاست کے انوکھے کردار ہیں۔ بے نظیر کے زمانہ میں ان کو پردے کے پیچھے رکھا جاتا تھا ۔ مگر بے نظیر کی شہادت کے بعد وہ خود ساختہ وارشتی تحریر کے بعد پیپلزپارٹی اور بے نظیر کے تمام جگہوں پر اکلوتے وارث بن گئے۔ آج کل ان پر جو مقدمات چل رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے موصوف بہت ہی پریشان اور نڈھال ہیں۔ آصف علی زرداری میاں نواز شریف پر نظر رکھتے تھے اور صوبے دار پنجاب شہباز شریف آصف علی زرداری پر نظر رکھتے تھے۔ 2018 کے انتخابات میں بھی شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کو مسلسل پریشان ہی رکھا۔

آج پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان ہیں۔ ہمارے دوست اور مہربان ممالک عمران خان کے بارے میں مسلسل تفتیش میں لگے ہیں۔ ایرانی دوست عمران خان پر اعتماد کرنے کو تیار ہیں۔ مگر خطہ کی سیاست اور بھارتی کردار ان کو فیصلہ کرنے میں رکاوٹ ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارے چینی دوست عمران خان کے آنے سے زیادہ خوش نظر نہیں آتے۔چین نے کافی محفوظ سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اب نئی صورتحال میں وہ صرف اور صرف پاکستان کی افواج پر اعتماد کر سکتے ہیں۔ افواج پاکستان چین کی سرمایہ کاری کی محافظ بن سکتی ہیں۔ اور اس کی ضرورت بھی ہے۔ سابق نواز شریف حکومت بھی چین اور سی پیک کے منصوبوں میں پاکستان کی افواج کو کردار ادا کرنے کے لئے اجازت دے ہی چکی تھی اور اس وقت سب سے اہم معاملہ گوادر پورٹ کا ہے چین یقین دہانی چاہتا ہے ۔ کہ ان کی سرمایہ کاری محفوظ رہے گی اور پاکستان کے راستے وہ عالمی تجارت میں آزاد ہو نگے۔اس مرحلہ پر بھارت نے امریکہ کو اکسایا اور بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے کا عندیہ دیا ہے اور عالمی اخباروں کی خبروں کے مطابق پاکستان کے عسکری حلقے بھارت سے تعلقات اور کشمیر کے معاملات طے کرنے کو تیار ہیں اور عمران خان ایک مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دوسرے بھارت میں 2019 میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کی ہار یقینی نظر آ رہی ہے۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو آئی ایم ایف سے معاملات کے لئے مشاورت کرے گی۔ اس ٹاسک فورس میں ایک متنازعہ کردار بھی شامل ہے اور پاکستان کے عوام اور خواص کو اس متنازعہ کردار پر تشویش اور پریشانی ہے۔ وہ ان 25نوجوان لوگوں میں شامل ہے جن کو آئی ایم ایف اپنی پالیسی کے حوالہ سے اہمیت دے رہا ہے۔ وہ آئی ایم ایف کے وکیل ہیں اور آئی ایم ایف ان کی خدمات کی وجہ سے ان کے لئے بہت سے عالمی ایوارڈ کے لئے نام بھی لیا جا رہا ہے۔ اس سارے معاملہ کو اسد عمر دیکھ رہے ہیں ۔ اس متنازعہ شخصیت کی وجہ سےعمران خان پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ان کے بغیر بھی آئی ایم ایف سے بات ہو سکتی ہے۔ دوسرے بچت سے زیادہ آمدنی کے معاملات پر توجہ کی ضرورت ہے۔ عمران خان آپ کے پاس وقت کم ہے۔ آپ اس وقت کرپشن بد انتظامی اور قانون کے نفاذ پر توجہ دیں اور حصول انصا ف کو آسان بنا ئیں۔ آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے اہم لوگ نظر نہیں آتے اس وقت گھرکو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اور سیاست کو مفاہمت میں تبدیل کریں۔

گر ہو سکے تو اب کوئی شمع جلائیے

اس دور سیاست کا اندھیرا مٹائیے

بس کیجئے اکاش میں نعرے اچھالنا

یہ جنگ ہے اس جنگ میں طاقت لگائیے

تازہ ترین