رسول ا للہ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔ایک حدیث پاک میں ہے، میرے صحابہ ؓستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا ءکروگے، ہدایت پاؤ گے۔ سورۃ التوبہ میں ارشاد ہے:اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں، باغ جن کے نیچے نہریں ہیں، ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں ،یہی بڑی کامیابی ہے۔(ترجمہ کنزالایمان)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ’’ یا رب ! اسلام کو خاص عمر بن خطاب ؓ کے ذریعے غلبہ وقوت عطا فرما۔‘‘(المستدرک حاکم ) حضور ﷺ کی دعا قبول ہوئی اور حضرت عمر رضیؓ اعلان نبوت کے چھٹے سال 27سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے ۔آپ کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کو بے حد خوشی ہوئی اور انہیں بہت بڑا سہارا مل گیا، یہاں تک کہ حضورﷺ نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر حرم محترم میں علانیہ نماز ادا فرمائی۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اسلام قبو ل کیا تو دار اَرقم میں موجود مسلمانوں نے اس زور سے تکبیر بلند کی کہ اسے تمام اہل مکہ نے سُنا۔میں نے دریافت کیا،یارسول اﷲﷺ، کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟فرمایا:کیوں نہیں،یقیناً ہم حق پر ہیں،میں نے عرض کیا،پھر ہم پوشیدہ کیوں رہیں؟چناںچہ وہاں سے تمام مسلمان دوصفیں بنا کر نکلے ۔ایک صف میں حضرت حمزہؓ اور ایک میں،مَیں تھا ۔جب ہم اس طرح مسجد الحرام میں داخل ہوئے تو کفار کو سخت ملال ہوا۔اس دن سے رسول کریم ﷺنے مجھے فاورق کا لقب عطا فرمایا،کیوںکہ اسلام ظاہرہو گیا اور حق وباطل میں فرق نمایاں ہوگیا۔
حضرت علیؓ کا ارشاد ہے، عمرؓ کے سوا کوئی شخص ایسا نہیں جس نے علانیہ ہجرت کی ہو۔جس وقت حضرت عمرؓ ہجرت کے ارادے سے نکلے،آپ نے تلوارکی میان شانے پر لٹکائی اور تیر پکڑ کر خانہ کعبہ کا طواف کیا۔پھر وہاں موجود کفارِ قریش میں سے ایک ایک فرد سے الگ الگ فرمایا،تمہاری صورتیں بگڑیں،تمہارا ناس ہوجائے،ہے کوئی تم میں جواپنی ماں کو بیٹے سے محروم،اپنے بیٹے کو یتیم اور اپنی بیوی کو بیوہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، وہ آئے اور پہاڑکے اس طرف آکر مجھ سے مقابلہ کرے۔میں اس شہر سے ہجرت کررہا ہوں۔‘‘کفار کو آپ کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ ہوسکی۔
آقا ومولیٰ ﷺکا ارشاد ہے:اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ بن خطاب ہی ہوتے۔حضرت ابو سعید ؓسے مروی ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے عمر ؓسے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے عمرؓ سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی، اللہ رب العزت نے (یومِ عرفہ)اہلِ عرفہ پر عموماً اور حضرت عمرؓ پر خصوصاً فخرو مباہات فرمایا، جتنے انبیاء مبعوث ہوئے ہیں ،ہر ایک کی امت میں ایک محدث ضرور ہوا ہے، اگر میری امت کا کوئی محدث ہے تو وہ عمرؓ ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا۔ محدث کون ہوتا ہے؟ تو فرمایا: جس کی زبان سے فرشتے گفتگو کریں۔(طبرانی اوسط)
ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا، وہ شخص جس سے اللہ رب العزت (اپنی شان کے لائق)سب سے پہلے مصافحہ فرمائے گا، اور سلام بھیجے گا اور جسے (اپنی شان کے لائق)ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل فرمائے گا، وہ عمرؓہیں۔(ابنِ ماجہ وحاکم)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کی فضیلت وبزرگی چار باتوں سے ظاہر ہے۔بدر کے قیدیوں کے سلسلے میں قتل کا حکم دیا گیا اور آیت مبارکہ نازل ہوئی(جس سے فاروق اعظمؓ کی رائے کی تائید فرمائی گئی)آپ نے ازواجِ مطہراتؓ کے پردے کی بابت اپنی رائے کا اظہار کیا جس پر آیت نازل ہوئی(یوں حضرت عمر ؓ کی تجویز کی وحی کے ذریعے تائید کی گئی)حضور پرنور ﷺ نے آپ کے متعلق دعا فرمائی کہ اے اللہ، عمر کو مسلمان بناکر اسلام کو غلبہ عطا فرما۔آپ نے سب سے پہلے صدیق اکبر ؓ سے بیعتِ خلافت کی۔
تذکرہ نگار بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓوہ پہلے شخص ہیں ،جنہیں امیر المومنین سے موسوم کیا گیا۔آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں ،جنہوں نے تاریخ وسن ہجری جاری کیا۔آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں،جنہوں نے ماہِ رمضان میں صلوۃ التراویح کی نماز باجماعت جاری فرمائی۔آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نےلوگوں کے حالات کی خبر گیری کے لیے راتوں کو گشت کیا۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے(بے جا)مذمت کرنے والوں پر حد جاری فرمائی۔آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نےشرابی پر اسی(۸۰) کوڑے لگوائے۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنہوں نےنماز جنازہ میں چارتکبیریں کہنے کا حکم دیا۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنہوں نے دفاتر قائم کیے اور وزارتیں مقرر کیں۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں ،جنہوں نےسب سے زیادہ فتوحات حاصل کیں۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنہوں نےصدقے کا مال اسلامی امور میں خرچ کرنے سے روکا۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنہوں نےترکہ کے مقررہ حصوں کی تقسیم کا نفاذ فرمایا۔آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں ،جنہوں نےگھوڑوں پر زکوٰۃ وصول کی۔آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں، جنہوں نےسیدنا علیؓ کو ’’اطال اللہ بقاء ک اور ایدک اللہ‘‘ (یعنی اللہ آپ کی عمر دراز فرمائے اور آپ کی تائید فرمائے)کہہ کر دعا دی۔سب سے پہلے درّہ ایجاد کیا۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں ،جنہوں نےشہروںمیں(باقاعدہ) قاضی مقرر کیے۔ آپ نےکوفہ، بصرہ، جزیرہ، شام، مصر اور موصل کے شہر آباد کیے۔آپ ہی نے مقامِ ابراہیم کو اس جگہ قائم کیا، جہاں وہ اب ہے، ورنہ پہلے وہ بیت اللہ سے ملا ہوا تھا۔ آپ نے مسجد نبویؐ کی توسیع کی اور اس میں ٹاٹ کا فرش بچھایا۔آپ نے مسجد میں قندیل روشن کرنے کا رواج عام کیا۔آپ نےعشرو خراج کا نظام نافذ کیا۔ جیل خانہ وضع کیے اور جلاوطنی کی سزا متعارف کرائی۔ِسیدنا عمرفاروقؓ کسی کو گورنر یا حاکم مقرر کرنے سے پہلے یہ عہد لیتے تھے کہ وہ٭ اعلیٰ گھوڑے پر سوار نہ ہوں گے۔٭باریک کپڑے نہ پہنیں گے۔٭چھنا ہوا آٹا نہیں کھائیں گے۔٭ذاتی خدمت کے لیے نوکر چاکر نہیں رکھیں گے۔٭ضرورت مندوں سے ہمیشہ ملیں گے۔
خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں سیدنا عمر ابن خطاب ؓ نے فرمایا: لوگو!مجھے تم سے آزمایا جارہا ہے اور تمہیں مجھ سے۔ میں اپنے دونوں پیش روئوں کے بعد تم میں جانشین بن رہا ہوں، جو چیز ہمارے سامنے (یعنی مدینہ میں)ہوگی اُسے ہم شخصی طورپر انجام دیں گے اور جو چیز غائب (دوسری جگہ)ہوگی تو اس کے لیے قوی (قابل)اور امین (دیانت دار)لوگوں کو مامور کریں گے۔جو اچھا کام کرے گا اس پر ہمارا احسان بھی زیادہ ہوگا اور جو بُرا کام کرے گا، ہم اُسے سزا دیں گے۔اللہ ہمیں اور تمہیں معاف کرے۔ اس کے بعد آپ نے اپنے مقرر کردہ عمال اورگورنروں سے مخاطب ہو کر فرمایا:یاد رکھو! میں نے تمہیں لوگوں پرحاکم اور جبار بناکر نہیں بھیجا کہ تم لوگوں پر سختی کرو،بلکہ میں نے تمہیں لوگوں کا امام بناکر بھیجا ہے، تاکہ لوگ تمہاری تقلید کریں۔ لہٰذا تمہارا فرض ہے کہ تم لوگوں کے حقوق ادا کرو اور انہیں زدوکوب نہ کرو کہ ان کی عزتِ نفس مجروح ہوجائے اور نہ ان کی بے جا تعریف کرو کہ وہ غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں۔ ان پر اپنے دروازے بند نہ رکھو کہ زبردست کمزوروں کو کھا جائیں اور نہ ان پر کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح دو کہ یہ ان پر ظُلم کرنے کے مترادف ہے۔‘‘