زندگی کے خطرناک جنگل میں وہی محفوظ رہ سکتا ہے جو خرگوش کی طرح چوکنا رہے جسے ہر دم یہ کھٹکا لگا رہے کہ اُس کی گھات میں شکاری کتُا لگا ہے۔کچھ بزدلوں کو خوف ہوتا ہے کہ اُن کی جانیں دوسروں کے مقابلے میں قیمتی ہیں لیکن ایسی سوچ رکھنے والوں کی زندگی بے رنگ اور بے حسی کے مجموعے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اس وقت مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوئے آٹھ دن گزر چکے ہیں۔ 16نومبر کے شام دفتر سے واپسی پر گھر کے قریب مجھ پر فائرنگ کی گئی، ایک گولی آنکھ کے ابرو پر پیشانی کی کھال ادھڑتے ہوئے گزری تو یوں محسوس ہوا جسے آگ کے گولے کی لکیر نے پہلے میری آنکھوں کو خیرہ کرکے اندھیرے میں مجھے دھکیل دیا اور دوسری گولی میرے جبڑے کے نچلے حصے کو توڑتی ہوئے نکل گئی، تیسری گولی جب گردن کے آرپار ہوئی تو اس نے میرے جسم میں انگارے بھر دیئے، زمین پر گرتے گرتے میں نائن ایم ایم کی چوتھی گولی کو اپنے کندھے کو چومتا بآسانی محسوس کر رہا تھا۔ اوندھے منہ گرنے سے قبل لمحے بھر کیلئے ایک ہلکی سے آہ میرے منہ سے نکلی اور چند سیکنڈ بعد یہ سب مناظر دھندلا کر غائب ہو گئے۔ اگلے لمحے میں نے خود کو چھوٹے بھائی کی گود میں پایا تو وہ مجھے تسلی دے رہا تھا کہ ٹھیک ہے کچھ نہیں ہوا۔ میں نے کہا کہ میرا چشمہ، میرا فون کہاں ہے؟ فون مل گیا، چشمہ تلاش کرنے لگا تو بھائی نے کہا کہ مل جائے گا۔ میں نے کہا کہ ٹوٹ جائے گا کسی کے پاؤں تلے آکر۔ اس نے مجھے کہا اسپتال چلو، ایمبولینس کا انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا، میں اپنے سینے پر سرخ خون کی گرم بھاپ چشمے کے بغیر بھی دیکھ سکتا تھا۔ رکشے میں سوار ہوتے ہوئے پوچھا کیا عباسی اسپتال چلوگے؟ رکشہ چل پڑا، اسی لمحے غنودگی حاوی ہوئی تو ایک اسپیڈ بریکر پر تیز رفتار رکشے کے جھٹکے سے میری آنکھ کھلی تو پوچھا کہ ہم کہاں ہیں … بتایا عبداللہ کالج کے پاس، وہیں جناح یونیورسٹی کے پاس ایک گلی میں مڑے تو میں نے ڈرائیور سے کہا کہ اندھیرے سے مت جاؤ، مرکزی شاہراہ سے لو وہ موٹر سائیکل پر پیچھے ہیں، گلی میں مار دیں گے، اُس نے کہا بے فکر رہیں، آپ کو کچھ نہیں ہوگا، میں نے اُس کی مہارت پر بھروسہ کر لیا اور فون پر قریبی ساتھیوں کو فون کرنے لگا تو بھائی نے کہا کہ کیا کرتے ہو؟ میں نے کہا کہ ایمرجنسی میں ہمیں ضرورت ہوگی، تم اکیلے ہو۔ گھر سے فون آیا تو میں نے گھروالوں کو تسلی دی کہ میں ٹھیک ہوں، زخمی ہوں پریشان مت ہونا، سب ٹھیک ہوجائے گا۔
میرے پہلے محسن نے مجھے عباسی اسپتال کے گیٹ پر اتار دیا، میں ڈولتے جسم کو اپنے کمزور پیروں پر ٹکانے کی کوشش میں اس طرح آگے بڑھا کہ اگرگر گیا تو اُٹھ نہیں سکوں گا ۔ بھائی نے میرا بازو تھام رکھا تھا اور میں نے اپنی گردن کے ان سوراخوں پر ہاتھ رکھا ہوا تھا جن سے نکلنے والے خون کی حدت نے میرے اعصاب کو منتشر نہیں ہونے دیا اور میں ڈاکٹروں کے پاس کھڑا تھا کہ پرچی بن جائے گی، مجھے گولی لگی ہے بتاؤ مجھے لیٹنا کہاں ہے؟حالات کے سنگین ہونے کا احساس انہیں بھی تھا ۔ مجھ سے میری ذات، نسل زبان، عہدہ یا کسی مذہبی یا سیاسی تعلق کا پوچھے بغیر مجھے اسٹریچر پر لٹا دیا گیا اور پھر ہر منٹ کے دوسرے حصے میں میری کھلی آنکھیں دیکھ رہی تھی کہ مجھ سے محبت کرنے والے جوق در جوق آنے لگے تھے۔ میرے بھائی جذباتی ہو گئے تھے لیکن کمال کا ضبط تھا کہ میرے مسیحاؤں نے میری جان بھی بچانی تھی اور میرے احباب کے غیظ و غضب کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں تسلی بھی دینا تھی۔ میں ماہرین طب کے سپرد ہو چکا تھا۔ مجھ سے میرے زخم کا نہیں پوچھا جا رہا تھا بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ، دوڑ دوڑ کر علاج کیلئے لے جایا جا رہا تھا۔ سب کو اطمینان تھا کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میں اپنے ساتھیوں، اپنے بھائیوں، اپنے جاننے والوں کو دیکھ کر مسکرانے کی کوشش کرتا اور آنکھ سے اشارہ کر کے سلام کرتا تاکہ وہ پُرسکون رہیں، مجھے نہیں معلوم کہ میرے خون میں لت پت چہرے کی مسکراہٹ کو تکلیف میں اضافہ سمجھا گیا یا کوئی اور اشارہ۔ میرے ساتھی میرے ساتھ تھے، ان کا درد مجھے اپنے زخموں کے درد سے زیادہ محسوس ہو رہا تھا لیکن سکون تھا کہ مجھے کچھ نہیں ہوگا حالانکہ میں مسکراتی موت کے سائے کو اپنے قریب محسوس بھی کر رہا تھا پھر چند لمحوں بعد ایک نہ چھٹنے والا اندھیرا چھا گیا، آنکھ کھلتے ہی میں نے زندگی دیکھ لی، وہ تھی میری ماں…جس کے لبوں پر آہ اور آپریشن ہونے والی آنکھ سے نکلتے موتی دیکھ کر میں کہہ اٹھا کہ ”امی روئیں مت ، آپ کی آنکھ زخمی ہے“ ماں کی دعائیں رنگ لائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے نئی زندگی عطا کی، جو میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ تھی۔ اُن کے لبوں پر ایک ہی بات تھی، اللہ کا شکر ہے کہ تُو سلامت ہے۔
مجھ پر چار گولیاں صرف دو فٹ کے فاصلے سے نشانہ لیکر سر پر چلائی گئی تھیں ایسے میں میرا کسی بڑے جسمانی نقصان سے محفوظ رہنا ایک محیرالعقول بات ہے۔ میڈیکل کی تاریخ میں ایسے واقعات کم ہوئے ہیں کہ اتنی گولیاں لگنے کے باوجود میں نہ صرف بچ گیا بلکہ میری ریڑھ کی ہڈی، سر، حلق، سانس کی نالی، جبڑا اور کندھے حیرت انگیز طور پر پوری طرح فعال رہے۔
میں ایک گناہ گار بندہ ہوں، مجھ پر حملہ کرنے والوں نے یہ نہیں سوچا کہ مجھے وہ آخر کس جُرم کی سزا دینا چاہتے ہیں۔ میں نے تو اپنے لئے سچ کا راستہ منتخب کیا، اپنے نقصان کو پہلے دیکھا، فائدہ دوسروں کو دیا۔سالہا سال کی خدمات پر بھی کسی نے اگر مجھے اپنا نہیں سمجھا تو میں نے خاموشی سے اپنے لئے سفر کا طویل اور پُرخار راستہ منتخب کیا۔ میرے اپنے پرائے اور پرائے اپنے ہوگئے لیکن میں نے کسی سے شکوہ نہیں کیا۔
میں لیڈر نہیں ہوں اور نہ بن سکتا ہوں کیونکہ میں عوام میں سے ہوں۔اس لئے میرے ہاتھ ہمیشہ سچ لکھتے رہیں گے۔ مجھے افسوس صرف یہ ہے کہ میں موت سے لڑ رہا تھا توکچھ پولیس اہلکار ملزموں کو پکڑنے کے بجائے میرے گھر کی تلاشی لیکر،کاغذات اور گھریلو سامان کو اتھل پتھل کر کے میری وابستگیاں اور میرے خلاف نہ جانے کیا تلاش کر رہے تھے۔ جنہیں اپنا سمجھا تھا وہ دشمنوں سے بھی بدتر نکلے کہ میرے زخموں پر نمک چھڑک رہے تھے ”میں حق کی راہ پر ہوں، مجھے اُن سب کا مشکور رہنا ہے جنہوں نے میری زندگی کے لئے لمحہ بہ لمحہ دعا اور دوا کی۔ میں مختلف سیاسی،مذہبی جماعتوں کی شخصیات اور اراکان پارلیمنٹ کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے میری عیادت کی۔ میں اپنے ساتھیوں، اپنے دوستوں، اپنے احباب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اسپتال آکر یا فون کرکے مجھے تسلی دی اور اپنے تعاون کا یقین دلایا لیکن میں اپنی ماں کا شکریہ ادا نہیں کر سکتاکیونکہ ماں کا احسان تو میں ہزار بار زندگی پا کر بھی نہیں اُتار سکتا۔ میں نے انتقام لینے کے لئے نہیں بلکہ اصلاح کے لئے قلم اٹھایا ہے،اس کا حلف میں نے اپنے آپ سے لیا ہے۔ کوئی کچھ بھی سمجھے لیکن میرا انتقام گولی کے بجائے گولی کبھی نہیں ہوگا۔ میں اپنے اس عزم پر اپنے پایہ استقامت کے ساتھ قائم رہنا چاہتا ہوں۔ انسان فانی ہے لیکن جو کچھ وہ چھوڑ جاتا ہے وہی یاد رہ جاتا ہے۔