• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انٹرنیٹ جہاں دور جدید میں لوگوں کیلئے آسانیوں اور معلومات کا مفید ذریعہ بنا ہے وہاں اس سے لوگوں کی پریشانیوں اور مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے اورکچھ جرائم پیشہ ذہنیت کے حامل افراد اس سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جعلسازی کے نت نئے طریقے اپناکر اسے اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کررہے ہیں جسے ”سائبر کرائم“ کا نام دیا جاتا ہے۔ جدید ممالک میں سائبر کرائم کی روک تھام کیلئے قوانین متعین ہیں جہاں انٹرنیٹ فراڈ اور ہیکنگ کو قابل سزا جرم تصور کیا جاتا ہے اور اس میں ملوث افراد کیلئے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں تاہم پاکستان میں سائبر کرائم کے حوالے سے ابھی اتنی پیشرفت نہیں ہوئی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پڑھے لکھے جرائم پیشہ ذہنیت کے حامل افراد سادہ لوح لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا رہے ہیں اور اس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوں ترکی کے ایک ہیکر نے گوگل (Google) پاکستان کی ویب سائٹ کو ہیک کرکے اس پر کنٹرول حاصل کر لیا تاہم کچھ روز بعد اسے ری کنسٹرکٹ کرکے بحال کیا گیا۔ واضح ہو کہ 2010ء میں ہیکرز کے ایک گروپ نے پاکستان کی 36سے زیادہ سرکاری ویب سائٹس کو ہیک کیا تھا جن میں وزارت خارجہ، پاکستان نیوی، وزار ت خزانہ، قومی احتساب بیورو، میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی اور وزیراعلیٰ سندھ کی ویب سائٹس بھی شامل تھیں۔ اس کے علاوہ ماضی میں کچھ بھارتی ہیکرز بھی پاکستانی ویب سائٹس کو ہیک کرچکے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل تک لوگوں کو بذریعہ ای میل یہ خوشخبری دی جاتی تھی کہ وہ ایک بہت بڑی انعامی رقم جیت گئے ہیں لیکن جب ”انعام یافتہ“ شخص ای میل کرنے والے سے رابطہ کرتا تو اس سے ہینڈلنگ چارجز کے طور پر ایک مخصوص رقم طلب کی جاتی اور کہا جاتا کہ یہ رقم موصول ہونے کے بعد انعامی رقم آپ کو روانہ کر دی جائے گی جو انہیں کبھی موصول نہیں ہوتی تھی۔ ای میل کے ذریعے نت نئی کہانیاں گھڑ کے لوگوں کو لوٹنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل مجھے ایک خاتون کی ای میل موصول ہوئی جس میں اس نے اپنا تعلق نائیجریا سے بتایا۔ ای میل میں تحریر تھا کہ وہ ایک کروڑ پتی بیوہ ہے، اس کی کوئی اولاد نہیں اورکینسر جیسے موذی مرض نے اسے آگھیرا ہے، ڈاکٹرز نے اسے کچھ ماہ کی مہلت دی ہے، مرنے سے قبل وہ چاہتی ہے کہ اپنی دولت کسی ایسے فلاحی ادارے کو دے جو اسے نیک کاموں پر خرچ کرسکے“۔ خاتون کے بقول ”اُس نے میرے اور میرے ادارے میک اے وش پاکستان کے بارے میں شہرت سن رکھی ہے جبکہ وہ ادارے کی ویب سائٹ سے بھی بہت متاثر ہوئی ہے اور اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی بے پناہ دولت اس ادارے کیلئے وقف کردے جس کیلئے اسے میرا ذاتی اکاؤنٹ نمبر اور بینک کی تفصیلات درکار ہیں“۔ چونکہ اس طرح کی ای میل کی وصولی میرے لئے روز کا معمول بن گئی ہے اس لئے میں ایسی تمام ای میلز نظر انداز کر دیتا ہوں مگر بسا اوقات سادہ لوح اور تعلیم یافتہ افراد ان جعلسازوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کچھ دنوں قبل ایک پڑھی لکھی فیملی نے مجھے بتایا کہ ان کی ایک ملین ڈالر کی لاٹری نکلی تھی جس کے بارے میں انہوں نے مجھے متعلقہ کچھ ای میلز اور بینک کاغذات بھی دکھائے۔ فیملی کے مطابق ای میلز بھیجنے والے شخص نے انعامی رقم ان کے اکاؤنٹ میں منتقل کرنے اور کاغذی کارروائی کیلئے ان سے بطور فیس4 ہزار ڈالر طلب کئے تھے اور کہا تھا کہ فیس موصول ہونے کے بعد ایک ملین ڈالر کی انعامی رقم ان کے اکاؤنٹ میں منتقل کردی جائے گی۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ کیا آپ نے اس لاٹری میں حصہ لیا تھا تو ان کا جواب نفی میں تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ ای میل کرنے والے سے کہیں کہ وہ انعامی رقم سے مذکورہ فیس منہا کرکے باقی رقم آپ کو بھیج دے لیکن ایسا کرنے پر آج تک کوئی جواب نہ آیا۔ افسوس مجھے اس بات پر ہوا کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی اس طرح کی جعلسازیوں کا شکار ہورہا ہے۔
مالی فراڈ کرنے والے جرائم پیشہ افراد نت نئے طریقوں سے لوگوں کو لوٹتے ہیں اور جب کوئی طریقہ پرانا ہو جاتا ہے اور لوگ اس سے آشنا ہو جاتے ہیں تو ان کا شاطر دماغ کوئی نیا طریقہ دریافت کر لیتا ہے۔ گزشتہ دنوں جب میں میک اے وش لیڈر کانفرنس میں شرکت کیلئے برازیل گیاتو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی جعلساز یا ہیکر نے میری ذاتی ای میل آئی ڈی ہیک کرلی اور اس پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اس میں موجود تمام ای میل ایڈریس پر میرے دوستوں کو میرے نام سے ایک ای میل بھیجی جس میں تحریر تھا ”میں اس وقت پاکستان سے باہر ہوں، میرا پاسپورٹ اور پرس جس میں کریڈٹ کارڈز اور کیش موجود تھا کسی نے چوری کرلیا ہے، میرے پاس ہوٹل کا بل ادا کرنے کیلئے رقم نہیں، مہربانی کرکے مجھے 3 ہزار ڈالر فوری بھیج دیں تاکہ میں ہوٹل کا بل ادا کرکے وطن واپس آسکوں اور میں پاکستان پہنچ کر آپ کی یہ رقم واپس کردوں گا“۔ پاکستان اور بیرون ملک مقیم میرے سیکڑوں دوستوں کو جب یہ ای میل موصول ہوئی تو وہ شدید پریشانی کا شکار ہوگئے جس کے فوری بعد انہوں نے مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ ایسے وقت میں چونکہ میں ایمزون جنگل میں تھا اور میرا دنیا سے رابطہ منقطع تھا،اس لئے وہ مجھ سے رابطہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور سوچا کہ شاید میں واقعی مشکلات میں گھرا ہوں۔ کچھ معصوم دوست میری محبت میں جذباتی ہوگئے اور انہوں نے جعلساز کے دیئے گئے ویسٹرن یونین ایڈریس پر رقم ارسال کردی تاہم کچھ سمجھدار دوست جعلساز کی اس چال کو بخوبی سمجھ گئے۔ مجھے اس معاملے میں جس بات نے سب سے زیادہ حیرت زدہ کیا وہ یہ تھا کہ جعلساز یا ہیکر میری تمام نقل و حرکت سے واقف تھا اور اسے یہ علم تھا کہ میں اس وقت کہاں ہوں اسی لئے اُس نے جعلسازی کیلئے ایسے وقت کا انتخاب کیا جب لوگوں کا مجھ سے رابطہ نہ ہوسکے۔
حال ہی میں پاکستان میں موبائل فون سے متعلق ایک نئی جعلسازی منظر عام پر آئی ہے جس کے اب تک کئی سادہ لوح لوگ شکار ہوچکے ہیں جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔ اس جعلسازی میں جعلساز کی جانب سے آپ کے موبائل فون پر ایک کال موصول ہوتی ہے، کال کرنے والا شخص اپنے آپ کو موبائل فون کمپنی کا نمائندہ ظاہر کرتا ہے جبکہ بیک گراؤنڈ میں موبائل کمپنی کا میوزک بھی چل رہا ہوتا ہے، جعلساز آپ کو خوشخبری سناتا ہے کہ کمپنی کی کرائی گئی قرعہ اندازی میں آپ کے موبائل ٹیلیفون نمبر پر ایک لاکھ روپے کا انعام نکلا ہے، آپ فوری طور پر دیئے گئے نمبر پر کنفرم کریں تاکہ مذکورہ انعامی رقم آپ کو بھیجی جاسکے لیکن جونہی آپ اس کی ہدایت کے مطابق اس کے دیئے گئے نمبروں پر میسج بھیجتے ہیں تو آپ کا کریڈٹ بیلنس مذکورہ نمبر پر منتقل ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں جعلسازوں کے جھانسے میں آکر الائنس موٹرز، کوآپریٹو اسکینڈل اور ڈبل شاہ جیسے جعلسازوں کی اسکیموں میں کئی لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی گنوا چکے ہیں، اسی طرح پیسوں کی لالچ میں عجمان اور دبئی رئیل اسٹیٹ میں بھی ایک اندازے کے مطابق پاکستانیوں کے کئی ارب ڈالر ڈوب چکے ہیں۔ لوگوں کو چاہئے کہ اگر انہیں اس طرح کی کوئی ای میلز موصول ہوں جس میں ان سے رقم طلب کی گئی ہو تو وہ تصدیق ہونے تک اس پر کان نہ دھریں۔ لالچ ایسی چیز ہے جس کی اسلام میں سخت ممانعت کی گئی ہے، لالچی لوگ ہمیشہ نقصان اٹھاتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اپنے ملنے والوں کے سامنے بھی سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے ان کی نفسیات پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ دیا ہے اس پر قناعت کریں اور لالچ سے گریز کریں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ”تو مجھ سے مانگ، میں تجھے دوں گا“۔ ہمیں صرف مانگنے کاطریقہ آنا چاہئے۔
تازہ ترین