• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

فلسفہ شہادت نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ

ڈاکٹر حافظ محمد ثانی

تاریخِ انسانی کی دو قربانیاں پوری تاریخ میں منفرد مقام اور نہایت عظمت و اہمیت کی حامل ہیں، ایک امام الانبیاء، سیّدالمرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ، احمد مجتبیٰﷺ کے جدِّاعلیٰ، حضرت ابراہیمؑ و اسمٰعیل ؑکی قربانی اور دوسری نواسۂ رسولؐ، جگر گوشۂ علیؓ و بتولؓ شہیدِ کربلا حضرت امام حُسینؓ کی قربانی۔ دونوں قربانیوں کا پس منظر غیبی اشارہ اور ایک خواب تھا، دونوں نے سرِتسلیم خم کیا اور یوں خواب کی تعبیر میں ایک عظیم قربانی وجود میں آئی۔ حضرت ابراہیمؑ کے خواب کی تعبیر دس ذی الحجہ کو پوری ہوئی اور سیّدنا حُسین ؓکا خواب دس محرم 61ھ کو تعبیر آ?شنا ہوا، دونوں خوابوں کی تعبیر قربانی تھی، دس ذی الحجہ کو منیٰ میں یہ خواب اپنے ظاہر میں رُونما ہوا اور دس محرم کو سرزمینِ کربلا پر اپنی باطنی حقیقت کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔ یوں باپ نے جس طرزِ قربانی کا آغاز کیا تھا، تسلیم و رضا اور صبر و وفا کے پیکر، فرزند نے پوری تابانیوں کے ساتھ اس عظیم سنّت کو مکمل کیا۔ حضرت اسماعیلؑ سے جس سنّت کی ابتدا ہوئی تھی، سیّدنا حُسینؓ پر اس کی انتہا ہوئی۔

فلسفہ شہادت نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
روضۂ حضرت عباس علمدارؓکا اندرونی منظر

سیّدنا ابراہیم ؑو اسماعیلؑ اور حضرت حُسینؓ کی قربانیوں میں یہی جذبۂ عشق و محبت کارفرما تھا۔ اسی لیے یہ قربانیاں آ?ج تک زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گی۔ نواسۂ رسولؐ، جگر گوشۂ علیؓ و بتولؓ‘ سیّد شباب اہل الجنّہ‘ریحانۃ النّبیؐ‘ شہیدِ کربلا‘ سیّدنا حُسین ابنِ علیؓ، ہاشمی و مطّلبیؓ کی ذاتِ گرامی اسلامی تاریخ میں حق و صداقت‘ جرأت و شجاعت‘ عزم و استقلال‘ ایمان و عمل‘ ایثار و قربانی، تسلیم و رضا‘ اطاعتِ ربّانی‘ عشق و وفا اور صبر و رضا کی وہ بے مثال داستان ہے، جو ایک منفرد مقام اور تاریخ ساز اہمیت کی حامل ہے۔ 

فلسفہ شہادت نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
دریائے فرات کا ایک منظر، شہدائے کربلاؓ اسی کے کنارے خیمہ زن ہوئے تھے

یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ حق اور باطل‘ اسلام اور کُفر کی معرکہ آرائی روزِ اوّل سے جاری ہے اور روزِ آخر تک جاری رہے گی۔ حق کی بقا‘ اسلام کی سربلندی اور دین کی بالادستی، قدرت کا اٹل اور ابدی فیصلہ ہے، جب کہ طاغوتی اور ابلیسی قوّتوں کی سرکوبی اور ان کا زوال آئینِ فطرت ہے۔ حق کی سربلندی اور دین کی عظمت و بقا کے لیے جدّوجہد اور جہاد اُسوۂ پیمبری اور انسانی ضمیر کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔سرکارِ دوجہاں حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’سلطانِ جائر(ظالم و جابر بادشاہ اوران اوصاف کے حامل حاکمِ وقت) کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنا سب سے بڑا جہاد ہے۔‘‘

فلسفہ شہادت نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
کربلائے معلّٰی میں حضرت عبّاس علم دارؓ کے روضے کا بیرونی منظر

مستند تاریخی روایات کے مطابق رجب 60ھ/ 680 ء میں یزید نے اسلامی اقدار اور دین کی روح کے منافی ظلم و جبر اور استبداد پر مبنی اپنی حکومت کا اعلان کیا۔ بالجبر عام مسلمانوں کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا گیا۔ مدینۂ منوّرہ میں ایک مختصر حکم نامہ ارسال کیا گیا، جس میں تحریر تھا: ’’حُسینؓ‘ عبداللہ بن عُمرؓ اور عبداللہ بن زبیرؓ کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا جائے‘ اس معاملے میں پوری سختی سے کام لیا جائے، یہاں تک کہ یہ لوگ بیعت کرلیں۔‘‘ (ابنِ اثیر/ الکامل 3/ 263)۔بعد ازاں، دیکھنے والوں نے دیکھا کہ سرکارِ دوجہاںﷺ کے نورِ نظر، سیّدنا حُسینؓ ابنِ علیؓ اپنے جدِّ اعلیٰ حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ اور اپنے نانا سیّد الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی اتّباع میں سلطانِ جائر‘ یزید کے خلاف جرأتِ اظہار اور علمِ جہاد بلند کرتے ہوئے اُسوۂ پیمبری پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ امّتِ مسلمہ کو حق و صداقت اور دین پر مر مٹنے کا درس دیتے ہیں۔ 

فلسفہ شہادت نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
دمشق میں واقع روضۂ حضرت بی بی زینبؓ

خلقِ خدا کو اپنے ظالمانہ قوانین کا نشانہ بنانے والی اور محرّماتِ الٰہی کو توڑنے والی حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے ببانگِ دُہل فرماتے ہیں:’’لوگو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم‘ محرّماتِ الٰہی کو حلال کرنے والے‘ خدا کے عہد کو توڑنے والے‘ خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قولاً و عملاً اسے بدلنے کی کوشش نہ کی، تو خدا کو حق ہے کہ اس شخص کو اس ظالم بادشاہ کی جگہ دوزخ میں داخل کردے‘ آگاہ ہوجاؤ! ان لوگوں نے شیطان کی حکومت قبول کرلی ہے‘ اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑ دی ہے‘ مُلک میں فساد پھیلایا ہے‘ حدود اللہ کو معطّل کردیا ہے، یہ مالِ غنیمت سے اپنا حصّہ زیادہ لیتے ہیں‘ انہوں نے خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کردیا ہے اور حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کردیا ہے۔ اس لیے مجھے اس کے بدلنے کا حق ہے‘‘۔ (ابنِ اثیر / الکامل فی التّاریخ 4/ 40)۔

فلسفہ شہادت نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
دخترِ حسینؓ بی بی سکینہؓ کے روضے کا اندرونی منظر

چناں چہ یہی وہ سب سے بڑا جہاد اور دینی فریضہ تھا، جس کی ادائیگی کے لیے نواسۂ رسولؐ‘ سیّدنا حُسینؓ ابن علیؓ، اُسوۂ پیمبری کی پیروی میں وقت کے سلطانِ جائر‘ یزید کے خلاف ریگ زارِ کرب و بلا میں 72 نفوسِ قدسیہ کے ہمراہ وارد ہوئے اور حق و صداقت اور جرأت و شجاعت کی وہ بے مثال تاریخ رقم کی‘ جس پر انسانیت ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ حق کے متوالے اور باطل اور ظالم و جابر قوّتوں کے خلاف صف آرا مردانِ حق اس راستے پر ہمیشہ چلتے رہیں گے۔ شہدائے کربلا نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے جرأتِ اظہار اور باطل کے خلاف احتجاج اور جہاد کا سلیقہ اور ولولہ عطا کیا۔ سیّدنا حُسینؓ ابنِ علیؓ کی صدائے حق نے مظلوم انسانیت کو ظالمانہ نظام کے خاتمے اور ظلم و جبر کے خلاف ڈٹ جانے کا حوصلہ اور حق نوائی کا درس دیا۔

فلسفہ شہادت نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
کربلائے معلّٰی میںروضۂ امام حسینؓ کا اندرونی منظر

حق کی آواز کو بلند کرنا‘ انسانی اقدار کا تحفّظ اور دین کی سربلندی، اُسوۂ پیمبری اور شیوۂ شبّیری ہے۔ شہدائے کربلا کا فلسفہ اور پیغام یہی ہے کہ حق کی سربلندی اور باطل کی سرکوبی کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔ شہیدِ کربلا‘ نواسۂ رسولؐ‘ حضرت امام حُسینؓ کی یہی وہ عظیم قربانی اور کعبۃ اللہ کی عظمت و حُرمت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے کا عظیم جذبہ اور داستانِ حرم ہے‘ جس کے متعلّق شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال نے کہا تھا :

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم

نہایت اس کی حُسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعیل

تازہ ترین
تازہ ترین