مولانا شعیب احمد فردوس
اسلامی سن ہجری کا آغاز محرم الحرام کے مہینے سے ہوتا ہے۔ محرم کا معنی ہے" عزت واحترام والا "۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: بے شک ،مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ ہے۔جس دن سے زمین و آسمان تخلیق کیے گئے۔ان مین میں سے چار بالخصوص عظمت والے ہیں۔" ( التوبہ:36)
تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں سے مراد محرم، رجب ، ذی القعدہ اور ذی الحجہ ہیں۔ عام طورپر محرم کی دس تاریخ کو"یوم عاشور" کہا جاتا ہے۔یوم عاشور کے معنی ہیں دسواں دن۔ تاریخ میں اس بات کاثبوت ملتا ہے کہ اہل قریش قبل از اسلام بھی اس دن کا احترام کیا کرتے تھے۔ بعض روایات میں یہ بات موجود ہے کہ : " قریش ایام جاہلیت میں عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس وقت یہ روزہ رکھتے تھے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہاں بھی روزہ رکھا، اور اس روزے کا حکم بھی دیا۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزے کے حکم ( یعنی فرضیت) کو ختم کر دیا گیا، یعنی جو چاہے( عاشورہ کا) روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے۔ (صحیح بخاری:2002)
احادیث مبارکہ کی مستند و مشہور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے پہلے محرم الحرام کی دس تاریخ یعنی یوم عاشور کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر لازمی اور ضروری تھا۔ (صحیح بخاری)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے استفسار فرمایا کہ ایسا کیوں کرتے ہو؟ یہودیوں نے جواب دیا کہ یہ ایک عظیم دن ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرئیل کو ان کےدشمن ( فرعون) سے نجات دی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرئیل کو غلبہ اور کامیابی عطا فرمائی۔ہم اس دن کی تعظیم کےلئے(بہ طور شکر) روزہ رکھتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے قریب ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دس محرم کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (صحیح بخاری)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیا۔ تو صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! یہ وہ دن ہے جس کی یہودونصاریٰ تعظیم کر تے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" جب اگلا سال آئے گا تو اگر اللہ نے چاہا تو ہم نوتاریخ کا روزہ (بھی) رکھیں گے۔ (صحیح مسلم)
یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں حرمت والے مہینوں (یعنی محرم، رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ) کا ذکر فرمایا، اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ " ان حرمت والے مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو"(التوبہ:36)ااور اپنی جانوں پر ظلم نہ کرنے سے مراد یہ ہی ہےکہ ان حرمت والے مہینوں میں گناہوں اور منکرات سے بچنے کا خاص اہتمام کیا جائے۔