• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی تجویز، کہ روس اور چین تجارتی معاملات میں اپنی کرنسی کا استعمال بڑھائیں، موجودہ عالمی معاشی منظرنامے میں کئی مشکلات کی شدت کم کرنے اور کئی بحرانوں کو ٹالنے کا ذریعہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ منگل کے روز روس کے شہر ولادی ووسٹوک میں چینی ہم منصب شی جن پنگ کے ساتھ مشترکہ پریس بریفنگ میں پیوٹن کا کہنا تھا کہ تجارتی مقاصد کیلئے امریکی ڈالر کا استعمال کم کرنا اور اپنی اپنی قومی کرنسی کا استعمال بڑھانا ہوگا۔ چین اور روس کے صدور نے اقتصادی کانفرنس کے موقع پر جو ملاقات کی اس کے نتائج موجودہ عالمی معاشی کیفیت میں دوررس اثرات کے حامل محسوس ہوتے ہیں۔ روسی صدر کے بقول دو طرفہ تجارت میں روس اور چین کی جانب سے اپنی اپنی کرنسی میں لین دین ان بینکوں کو زیادہ مستحکم بنائے گا جو درآمدات و برآمدات کی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ روس کو 2014ء سے یوکرائن کے علاقے کریمیا کے تنازعے اور چند ماہ قبل سے امریکہ کے صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت اور کئی دوسرے الزامات کے تحت واشنگٹن کی سنگین پابندیوں کا سامنا ہے جن کی بناء پر روسی کرنسی روبل کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے کمی آئی جبکہ کئی ماہ سے امریکی اقدامات کے باعث چینی کرنسی یوآن کی قدر بھی تیزی سے گھٹی ہے۔ ترکی اور ایران سمیت کئی دیگر ملکوں کی کرنسیاں بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے، بین الاقوامی اقتصادی فورموں پر یہ موقف خاصے عرصے سے سامنے آتا رہا ہے کہ باہمی تجارتی لین دین میں ڈالر کی بجائے قومی کرنسی کو استعمال کیا جائے۔ اب صدر پیوٹن نے چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے بعد جو بات زور دے کر کہی، وہ بہت سے ممالک خاصی مدت سے محسوس کررہے تھے۔ سیاسی تنازعات کے حوالے سے امریکی رویہ ڈالر کے بطور ’’گلوبل ریزرو کرنسی‘‘ استعمال کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس ضمن میں بعض حلقوں کا یہ تاثر بے وزن نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد سے مختلف ملکوں پر سیاسی مقاصد کیلئے معاشی دبائو بڑھانے کی پالیسی کا بے محابا استعمال کیا جارہا ہے۔ چین کو ایسی تجارتی جنگ میں الجھایا جارہا ہے جس کے عالمی معیشت پر پڑنے والے مضر اثرات کی بیجنگ کی طرف سے بار بار نشان دہی کی جاتی رہی ہے۔ بیجنگ نے عالمی تجارت میں امریکہ کو کئی رعایتیں دینے کا اعلان بھی کیا مگر اس کا تاحال کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ 8ستمبر کو امریکہ کی طرف سے چینی مصنوعات پر 200ارب ڈالر کے اضافی ٹیکس عائد ہونے کے بعد ایشیائی حصص بری طرح متاثر ہوئے۔ چین کی جوابی کارروائی اور وسیع ہوتی تجارتی جنگ کے منفی اثرات سے بڑے ممالک کو نکلنے میں شاید اتنی مشکلات پیش نہ آئیں جتنی ترقی پذیر ملکوں کو درپیش ہیں۔ بھارت بھی، جسے امریکہ ان دنوں اپنا فطری حلیف کہہ رہا ہے، ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی کی زد میں آتا نظر آرہا ہے۔ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ڈالر کے مقابلے میں بھارتی روپے کی لڑکھڑاتی صورتحال بھارت کی ایوی ایشن مارکیٹ سمیت کئی شعبوں پر اثرانداز ہوچکی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، اس کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کو سہولتیں فراہم کرنے پر جو اخراجات کرنا پڑتے ہیں وہ ایک طرح سے امریکہ پر واجب الادا قرض ہے جس کی قسط کی ادائیگی میں پہلے امریکہ کی جانب سے کٹوتی کی اطلاع دی گئی اور اب باقی ماندہ رقوم کی ادائیگی میں لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا آئی ایم ایف ’’بیل آئوٹ‘‘ کو مشروط کرنے کا اعلان اس پر مستزاد ہے جبکہ پاکستان نے آئی ایم ایف کو تاحال ایسی کوئی درخواست نہیں دی۔ اس منظرنامے میں روس اور چین کا ڈالر کے بغیر تجارتی لین دین کا عزم واضح کرتا ہے کہ عالمی تجارت میں مال کے بدلے مال اور مقامی کرنسی میں لین دین کا پچھلی صدی کا رجحان لوٹ رہا ہے۔ ہماری نئی حکومت کو اپنی معاشی حکمت عملیوں میں اس پہلو کا بھی بطور خاص خیال رکھنا چاہئے۔

تازہ ترین