• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظر نامہ ،کلثوم کا سانحہ ارتحال، صدارتی خطاب میں ہنگامہ نہیں ہوگا

اسلام آباد( طاہر خلیل)ترمیم شدہ پروگرام کے مطابق منصب صدارت پر فائز ہونے کے بعد ڈاکٹر عارف علوی اب پیر کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سےخطاب کریں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کےلئے یہ دن باعث طمانیت و افتخار ہوگا کہ 25 جولائی کے عام انتخابات کے نتیجے میں مرکز اسلام آباد اور د و صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں اس کی حکومتیں تشکیل پاچکی ہیں۔ بلوچستان میں بھی اس کی حمایت یافتہ جماعتیں اقتدار میں ہیں، ملک کے بڑے آئینی مناصب پر پی ٹی آئی کو کامیابی عطا ہوئی ۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کا خطاب ایک آئینی تقاضا ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ایسے موقع پر ہورہا ہے جب بڑی اپوزیشن پارٹی پاکستان مسلم لیگ(ن) بیگم کلثوم کے سانحہ ارتحال کے باعث غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ مرحومہ کا جسد خاکی آج لاہور لایا جارہاہے اور کل جمعہ کی شام ان کی تدفین ہوگی۔مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی دونوں نے حکومت کو اپروچ کیا تھا کہ بیگم کلثوم کی تدفین میں لیگی ارکان کی شرکت کے باعث پارلیمنٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس چند روز کے لئے ملتوی کردئیے جائیں جس پر حکومت نے خیرسگالی جذبے کااظہا ر کرتے ہوئے اجلاس دو روز کےلئے موخر کردیا۔ مسلم لیگ(ن) نے تین روز قبل سپیکر پر واضح کیا تھا کہ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیشن کے قیام کا مطالبہ پورا نہ ہوا توصدارتی خطاب میں مسلم لیگ (ن) احتجاج کرے گی، اہم پہلو یہ ہے کہ صدارتی خطاب میں احتجاج کی خبر جب اڈیالہ جیل میں قید میاں نوازشریف تک پہنچی تو انہوں نے اس فیصلے کو ویٹو کردیا۔ اس حوالے سے امید کی جاسکتی ہے کہ صدر مملکت کا خطاب ماضی کی روایات کے مطابق کسی ہنگامہ آرائی، اپوزیشن کے شور شرابے یا نعرے بازی کی نذر نہیں ہوگا۔پارلیمانی تاریخ کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے 33 سالوں کے دوران پاکستان کے 8 صدور (پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس) مجلس شوریٰ سے آئینی تقاضا پورا کرتے ہوئے 27 مرتبہ خطاب کر چکے ہیں جبکہ 13 ستمبر 2018 کو موجود ہ صدر ڈاکٹر عارف علوی مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنیوالے 9 ویں صدر ہونگے۔ ضیاء الحق نے پہلی بار پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا پھر 30 دسمبر 1985 کو دوسری بار ،8 جولائی 1986 کو تیسری مرتبہ، 19 اپریل 1987 کو چوتھی اور 7 اپریل 1988 کو پانچویں مرتبہ خطاب کیا، 14 دسمبر 1988ء کو صدر غلام اسحاق خان نے پہلی بار، 2 دسمبر 1989 کو دوسری مرتبہ، 8 نومبر 1990 کو تیسری بار، 19 دسمبر 1991 کو چوتھی مرتبہ اور 22 دسمبر 1992ء کو پانچویں مرتبہ مجلس شوریٰ سے خطاب کیا ۔ 27 اکتوبر 1993ء کو وسیم سجاد نے بطورصدر خطاب کیا۔ 14 نومبر 1994ء کو فاروق احمد خان لغاری نے پہلی بار اور 29 اکتوبر 1995ء کو تیسری بار خطاب کیا۔ 1996ء میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا ہی نہیں گیا ، 23 فروری 1998ء کو رفیق احمد تارڑ نے پہلی مرتبہ، 11 مارچ 1999ء کو دوسری مرتبہ خطاب کیا، مارچ 1999ء سے جنوری 2004ء تک پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا ہی نہیں گیا۔ 17 جنوری 2004ء کو پرویز مشرف نے خطاب کیا۔ 20 ستمبر 2008 کو آصف علی زرداری نے پہلی مرتبہ، 28 مارچ 2009ء کو دوسری مرتبہ، 5 اپریل 2010 کو تیسری مرتبہ، 22 مارچ 2011ء کو چوتھی مرتبہ، 17 مارچ 2012ء کو پانچویں مرتبہ اور 10 جون 2013ء کو چھٹی مرتبہ مجلس شوریٰ سے خطاب کیا، 2 جون 2014ء کو صدر ممنون حسین نے پہلی مرتبہ، 4 جون 2015ء کو دوسری مرتبہ، یکم جون 2016 کو تیسری مرتبہ اور 2017 میں چوتھی مرتبہ خطاب کیا۔ اس طرح 1985ء سے 1988ء تک ضیاء الحق نے 5 مرتبہ، غلام اسحا ق خان نے 5 مرتبہ، وسیم سجاد نے 1 مرتبہ، فاروق لغاری نے 3 مرتبہ، رفیق تارڑ نے 2 مرتبہ، آصف علی زرداری نے 6 مرتبہ اور ممنون حسین نے 3 مرتبہ پارلیمنٹ کے اجلاس سے خطاب کیا۔ نئی حکومت نے سول ملٹری تعلقات میں ہم آہنگی کی جو خوشگوار روایت قائم کی حالیہ ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ پارلیمانی ماہرین کا ماننا ہے کہ صدر مملکت کا خطاب در حقیقت پارلیمنٹ کے لئے قومی ایجنڈے کے مترادف ہوتا ہے۔ صدر خطاب میں گورننس اور دیگر شعبوں میں خرابیوں اور کمزوریوں کی نشاندی کرتے ہیں پارلیمنٹ کو ان کے ازالے پر فوری توجہ دینی چاہیے۔ تدبر اور اجتماعی دانشمندی سے درپیش بحرانوں کا قابل عمل حل تجویز کرکے موجودہ پارلیمنٹ ملک کو خوشحالی اور ترقی کی نئی راہوں پر گامزن کرسکتی ہے جو عمران حکومت اور پارلیمنٹ کی بڑی کامیابی ہوگی۔

تازہ ترین