• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے پیش کردہ وفاقی بجٹ پر نظرثانی کا فیصلہ کر تو لیا ہے مگر اس فیصلے کے نتیجے میں موجودہ حکومت کو دو مشکل مرحلوں سے گزرنا ہوگا۔ ایک مرحلہ پسے ہوئے طبقے کے اس عام آدمی کو مطمئن کرنے کا ہے جو نئی حکومت سے یہ توقع وابستہ کرچکا تھا کہ وہ آتے ہی اس کی مشکلات کو دور یا کسی قدر کم کر دے گی۔ دوسرا مشکل مرحلہ موجودہ مشینری سے نئے بجٹ فیصلوں پر ان کی روح کے مطابق عمل کرانے اور اشرافیہ کو ٹیکسوں کی ادائیگی پر آمادہ کرنے کا ہے۔ جہاں تک فنانس ایکٹ میں ترامیم کا تعلق ہے، اسے منی بجٹ کہا جائے یا کوئی دوسرا نام دیا جائے، درحقیقت یہ کڑے وقت کا ایسا میزانیہ ہوگا جسے عوام اور حکومت دونوں کے لئے امتحان قرار دیا جاسکتا ہے۔ معاشی ماہرین کا ملکی معیشت کی زبوں حالی کے حوالے سے کہنا ہے کہ مشکل فیصلوں کی کڑوی گولی نگلے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ جہاں تک سابق حکومت کی طرف سے پیش کردہ بجٹ کا تعلق ہے، کہا جاسکتا ہے کہ اس میں عام انتخابات سے قبل برسراقتدار پارٹی نے انتخابی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے وعدے کئے تھے جن پر بعدازاں عمل کرنا شاید خود اس کی حکومت کے لئے بھی ممکن نہ ہوتا۔ جبکہ نیا بجٹ انتخابات کے نتیجے میں حکومت بنانے والی پارٹی کو زمینی حقائق کی روشنی میں پیش کرنا ہے اور اس باب میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو ’’بیل آئوٹ‘‘ پر قائل کرنے کیلئے بعض اصلاحاتی اقدامات بھی کرنا ہیں۔ جہاں تک توازن ادائیگی میں خسارے پر قابو پانے اور قرضوں کی خطرناک دلدل میں پھنسے ہوئے ملک کے لئے فنانس ایکٹ میں ترمیم کا تعلق ہے اس باب میں وزیر خزانہ اسد عمر نے منگل کے روز عندیہ دیا تھا۔ مذکورہ ترمیم جمعرات کے روز وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد جمعہ کو پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کی توقع ہے جس میں سگریٹوں، غیر ضروری پرتعیش اشیاء اور گاڑیوں پر ٹیکسوں میں اضافے کی تجاویز، درآمدات میں کمی اور برآمدات بڑھانے کے اقدامات سے یقیناً کسی کو اختلاف نہیں ہوگا مگر اچھا ہوتا کہ تنخواہ دار طبقے اور بجلی اور گیس کے صارفین پر بوجھ بڑھانے کی بجائے امیروں سے محاصل لینے اور غریبوں پر خرچ کرنے کے اقدامات پر زیادہ زور نظرآتا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف ’’نیپرا‘‘ نے بجلی کے نرخوں میں 4روپے فی یونٹ اضافے کی سمری پاور ڈویژن کو بھیج دی ہے اور گیس مہنگی ہونے کی اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں تو دوسری جانب باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ فنانس ایکٹ میں ترامیم کے لئے تنخواہ میں ٹیکسوں کی چھوٹ 12لاکھ سالانہ سے گھٹا کر 8لاکھ روپے کرنےکی تجویز ہے جبکہ حکومت 200 سے300غیر منظور شدہ اسکیموں کو ختم کرکے نظرثانی شدہ بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لئے مختص رقم1030ارب روپے سے کم کرکے 600ارب سے 650ارب روپے تک لانا چاہتی ہے۔ جی ڈی پی کا ہدف 6.2فیصد سے گھٹا کر 5.5فیصد کرنے، افراط زر میں ہدف 6سے بڑھا کر 7تا8فیصد کرنے کے امکانات ہیں۔ ایف بی آر کی 30جون تک کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے بجٹ خسارہ کا ہدف بھی جی ڈی پی کے 6.6فیصد سے گھٹا کر 5.5فیصد کرنے کی تجاویز ہیں۔ اخراجات کی کیفیت بھی بڑی تنگ بتائی جاتی ہے۔ چونکہ قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات بندھے ہوئے ہیں، ان میں بڑے پیمانے پر کٹوتی ممکن نہیں۔ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ برآمدات بڑھانے کیلئے ترغیبی پیکیج دیئے جانے اور درآمدات میں کمی کے لئے ریگولیٹری اور اضافی ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔ رقوم کے حصول کیلئے ترقیاتی اخراجات میں کمی کرنا بھی حکومت کی مجبوری محسوس ہوتی ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ، مگر عام آدمی سے مسلسل قناعت کا مطالبہ کرتے رہنا اس وقت تک درست نہیں معلوم ہوتا جب تک بڑی جائدادوں، بڑی زمینوں اور بڑے وسائل کے حامل افراد کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جاتا۔جہاںتک آئی ایم ایف سے 22ویں بار قرض مانگنے کا تعلق ہے، اس بار زیادہ سخت شرائط سامنے آنے کی توقع ہے۔کیا ہم ان کیلئے تیار ہیں؟

تازہ ترین