جاپانی حکومت نے ملک میں تیزی سے کم ہوتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اپنے امیگریشن قوانین نے حیرت انگیز تبدیلیاں کیں ہیں، جن کا اب سے دس سال قبل تک تصور کرنا بھی ممکن نہ تھا، کیونکہ جاپان کی حکومت نے ہمیشہ ہی ملک میں غیر ملکی آبادی کو ایک محدود تناسب سے بڑھنے نہیں دیا کیونکہ جاپان ہمیشہ ہی اپنے قومی کلچر اور تہذیب کو غیر ملکی یلغار سے بچانے کے لیے غیر ملکی آبادی کو ایک مخصوص تناسب سے بڑھنے نہیں دیتا تھا، لیکن اب ملک کی آبادی میں شدید کمی کے سبب لیبرفورس میں بھی کمی آرہی ہے جس سے جاپان کی معیشت میں منفی اثرات پیدا ہورہے ہیں۔ جس کے بعد حکومت جاپان نے فیصلہ کیا ہے کہ جاپان میں غیر ملکی شہریوں کو خو ش آمدید کہا جائے تاکہ ملک کی معیشت میں بہتری پیدا ہوسکے اور آبادی میں کمی کو پورا کیا جاسکے جبکہ خاص طور پر ایسے ہنر مندوں کو جو اپنے شعبے میں مہارت رکھتے ہوں، جاپان کا مستقل ویزہ فراہم کرکے ملکی معیشت میں بہتری کے لیے کام کیا جاسکے لہذا ان ہنرمندنوجوانوں کے لیے خوشخبری ہے کہ جاپان نے پانچ سے پندرہ سال کے لیے نیا ورک ویزاپروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جاپان دنیا کے ان ممالک میں سرفہرست ہے جنہیں نوجوان آبادی کی شدید قلت کا سامنا ہے-شادیوں میں تاخیر،بروقت شادیاں نہ ہونے یا سرے سے شادی نہ کرنے کے رجحان نے دنیا کے ترقی یافتہ ملک کو بوڑھوں کے دیس میں بدل دیا ہے اور عالمی رینکنگ میں جاپان81پوائنٹس کے ساتھ ان ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر کھڑا ہے جنہیں نوجوانوں لیبرکی شدید کمی کا سامنا ہے۔ ورلڈاکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق جاپان81پوائنٹس کے ساتھ پہلے، بھارت 64 پوائنٹس کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے ،جبکہ ترتیب کے اعتبار سے برازیل، ترکی، میسیکو، یونان، آسٹریلیا، جرمنی، امریکا، اٹلی،کینیڈا،چین وغیرہ خطرے کا شکار ممالک میں سے ہیں۔بھارت،چین،میکسیکو،اٹلی میں نوجوانوں کی شرح میں کمی کی بڑی وجہ ہجرت ہے ،اپنے ممالک میں روزگار کے بہتر مواقع دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ان ممالک کے نوجوان دوسروں ملکوں کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں جبکہ جاپان سمیت مغربی ممالک میں خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ اس کی بنیادی وجہ ہے ۔جاپانی حکومت نے نوجوان ہنرمند او رغیرہنرمند لیبر کے حصول کے لیے ورک ویزا کا ایک نیا پروگرام متعارف کروانے کا اعلان کیا ہے، جس کے مطابق ہنر مند اور غیرہنر مند نوجوانوں کو پانچ سال سے پندرہ سال کے لیے مشروط ورک ویزا دیا جائے گااس پروگرام کے تحت جاپان آنے والے اپنے خاندان کو سپانسرکرسکیں گے اور نہ ہی وہ جاپان میں شادی کریں گے بلکہ اپنے ویزے کی معیاد مکمل ہوجانے کے بعد جاپان چھوڑنے کے پابند ہوں گےتاہم یہ حتمی فیصلہ نہیں ہے اس میں کسی بھی وقت تبدیلی کے امکانات موجود ہیں ،جاپانی حکومت جاپانی نوجوانوں کو ملک میں آبادی میں اضافے کے لیے مختلف ترغیبات دے رہی ہے تاکہ شادیاں وقت پر ہوں اور ملک میں آبادی میں اضافہ ہوسکے ،تاہم تمام تر اقدامات کے باوجود اس کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے ،جس کے بعد جاپان میں غیر ملکی شہریوں اور ہنر مند کارکنوں کی آباد کاری کے لیے نئے قوانین بنائے جارہے ہیں۔ اسی طرح کی ایک خبر گزشتہ دنوں کچھ اس طرح بھی نظر سے گزری تھی جس کے تحت جا پا ن نے امیگریشن کے نئے قوانین کا اعلان کر دیا ہے جس کے تحت تارکین وطن کے لیے قوانین میں نر می کر کے ایک سال بعد انہیں مستقل قیام کا حق دے دیا جا ئے گا، جا پا نی ذرائع ابلا غ کے مطا بق وزارت انصاف نے امیگریشن کے نئے قوانین کا اعلان کیا ہے جو مستقل رہائش کے خواہشمند غیرملکیوں کے لیے ہیں اور ملک کو توقع ہے کہ اس سے بیرون ملک سے باصلاحیت ورکرز کو لانے میں مدد ملے گی۔ان قوانین کا اطلاق رواں ماہ سے ہورہا ہے اور ان کی مدد سے کچھ افراد وہاں مستقل قیام کا حق صرف ایک سال رہنے کے بعد ہی حاصل کرسکیں گے۔بنیادی طور پر تمام غیر ملکی دس سال تک جاپان میں رہائش کے بعد مستقل رہائش کا حق حاصل کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔تاہم 2012 میں جاپان میں پوائنٹ پر مبنی سسٹم متعارف کرا کے اس عرصے کو کم کردیا گیا تھا خاص طور پر تین شعبوں میں جیسے ایڈوانس تدریسی تحقیقی سرگرمیاں، ایڈوانس ٹیکنیکل سرگرمیاں اور ایڈوانس بزنس منیجمنٹ سرگرمیاں۔ان شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد پوائنٹس کی بنیاد پر پانچ سال بعد مستقل قیام کے ویزے کے حصول کے اہل قرار پاتے مگر اب نئے قوانین کے تحت اس دورانیے کو محض تین سال کردیا گیا ہے۔70 پوائنٹس سے زائد حاصل کرنے والوں کو یہ سہولت حاصل ہوگی جبکہ 80 پوائنٹس سے زیادہ پر ایک سال بعد ہی ایسا ممکن ہوسکے گا۔اسی طرح پوائنٹس کے حصول کے لیے مزید ذرائع کا بھی اضافہ کیا گیا جیسے جاپانی کاروباری اداروں میں سرمایہ کاری یا کسی اچھی یونیورسٹی سے ڈگری کا حصول وغیرہ۔اس طریقہ کار کو مکمل جاننے کے لیے آپ وزارت کی ویب سائٹ کے اس لنک پر جاکر دیکھ سکتے ہیں تاہم ابھی یہاں نئے طریقہ کار کا اضافہ نہیں کیا گیا۔
اس حوالے سے جاپان میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان کا کہنا ہے کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ جیسے ہی جاپان میں غیر ملکیوں کی ملازمتیں شروع ہوں ان میں پاکستانی بھی جاپان آسکیں جس کے لیے سب سے اہم جاپانی زبان کی تعلیم کو پاکستان میں فروغ دینا ہوگا تاکہ تربیت یافتہ ہنر مند افراد جو جاپانی زبان سے بھی واقف ہوں جاپان آسکیں اس کے لیے ہماری جاپانی حکام سے بھی بات چیت چل رہی ہے تاہم پاکستان میں بھی جاپانی زبان کے فروغ کے لیے کوششوں میں اضافہ ضروری ہے۔ اس حوالے سے جاپان میں مقیم سینئر پاکستانی اور پاکستان ایسوسی ایشن کے صدر رحیم آرائیں کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کے لیے سنہری موقع ہے کہ پاکستان اپنے تربیت یافتہ ہنر مند افرا د کو جاپان میں ملازمتوں کی فراہمی ممکن بنا سکے کیونکہ جاپان دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے اور یہاں فی کس آمدنی دنیا کے کئی ممالک سے زیادہ ہے لہذا حکومت پاکستان کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ جو لاکھوں افراد ملازمتوں پر جاپان آئیں ان میں سے پاکستانیوں کا بھی بڑا حصہ ہوسکے جس کے لیے کمیونٹی سطح پر ہم سے جو کچھ ممکن ہوسکا ہم کریں گے تاہم اصل کام حکومت پاکستان کو کرنا ہے جس سے پاکستان اور جاپان کے درمیان عوامی سطح کے تعلقات میں بھی بہتری آسکے گی اور پاکستان کے لیے جاپان سے جانے والے ذرمبادلے میں بھی اضافہ ہوسکے گا۔