• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جناب وزیر اعظم، ’’گورننس ٹھیک کرلی تو‘‘ نہیں، کرنی ہے

ابتدائے زمانہ سے اسلامی معاشرے میں حکمرانی (گورننس) کی مختلف شکلیں دریافت ہوتی رہیں جو بنیادی (اور غالب طور پر بھی) حکمران پھر حکمرانی کے لئے اس کے حامی و تابعدار معاونین (حکمران طبقہ) کے اجتماعی مزاج اور رویے کی عکاس ہوتیں۔ اس کے گہرے اثرات معاشرے اور انسانی تہذیب کے ارتقاء پر پڑتے۔ قبائلی معاشروں سے لے کرعظیم سلطنتوں کے قیام تک اور محکوم و فاتح اقوام کی تشکیل تک پھرسفاک بادشاہتوں کے عیش و عشرت کے دلدادہ ادوار سے لے کر عوام دوست فلاحی اور منصف حکومتوں کے قیام اور سخت گیر آمریتوں سے مثالی جمہورتوں کے قیام تک۔ یہ حکمران اور ان کے معاون طبقے کا انداز حکمرانی ہی رہا، جس نےگورننس کے طرح طرح کے ماڈل تشکیل دیئے جو بعض اقوام کے لئے صدیوں تک ظلم و جور اور عوام الناس کے لئے اذیت کا باعث بنے بالآخر آج کے جدید دور میں آزادی و فلاح وبہبود کا بھی۔ لیکن آج کی بہترین گورننس کے مقابل، بدتر اور عوام دشمن گورننس کا سلسلہ آج تہذیب انسانی کے عروج پر بھی بدستور موجود ہے، بلکہ موجودہ دنیا میں بھی اکثریت بدتر حکمرانی کی ہے۔

پاکستان کا قیام، برصغیر کے کالونی بننے کے بعد معدود ےچند مسلم صاحبان نظر اور علم و دانش کی دوربینی اور عملی حقائق کےمحتاط اندازوں کا مرہون منت ہے۔ ان کے یہ ہی علمی انداز کے (Intellectual calculations) اور دور بینی (ویژن) جب ان کی ’’مسلسل سیاسی سوچ‘‘ میں ڈھلتے ڈھلتے، سیاسی پلیٹ فارم بن گئے، تو اس پر سے ہونے والے ابلاغ اور جدوجہد سے ہی پاکستان بننے کی ان ہونی، ہونی ہوگئی۔ ہوگئی تو ہماری باکمال سیاسی قیادت اور اس کے زور پر مطلوب بہترین گورننس کی ضمانت کا خلاء پاکستان بنتے ہی فقط 13ماہ میں ہوگیا۔ جس کے بعد کی تاریخ میں حکمرانوں پر معاون طبقہ حاوی ہوتا گیا، پھر آنے والے ستر سالوں میں پاکستانی گورننس گھمبیر اور بعض حوالوں سے بہت پیچیدہ اور تباہ کن بھی ہوتی گئی جس کا شاخسانہ قوم آج بھی ملک میں حقیقی جمہوریت اور گڈگورننس کے ابتدائی امکانات پیدا ہونے پر بھگت رہی ہے، بلکہ برسراقتدار آنے والی تبدیلی کی علمبردار حکومت عمران حکومت، اسٹیٹس کو کے چھوڑے اور غالب سرکاری ڈھانچے کے شدید دبائو میں معلوم دے رہی ہے۔

گزشتہ روز اسلام آباد، میانوالی ریل سروس کاافتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے ملک کی گھمبیر اقتصادی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’کرپشن سب سے بڑا مسئلہ ہے، احتساب کے بغیر ملک نہیں بچ سکتا۔ گورننس ٹھیک کرلی تو 2سال میں روزگار اور قرض کی ادائیگی کا مسئلہ حل ہو جائے گا، بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کریں گے۔‘‘

جناب وزیر اعظم! بلاشبہ مالی اور کتنے ہی اور حوالوں سے آپ کی دیانت عوام الناس کی نظر میں جتنی مسلمہ ہے اور ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے ساتھ گڈ گورننس قائم کرنے کا آپ کا عزم مطلوب درجے پر اور مبنی براخلاص ہے، لیکن، اس کی بنیاد پر مطلوب ڈلیور کرنے کے لئے ملکی اقتصادی تشویشناک صورتحال آپ کے حکومت سنبھالتے ہی اتنی ہی بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔ گویا اسٹیٹس کو آپ کی جدوجہد سے ضرب کاری کھانے سے پہلے آپ کی گورننس کو کٹھن بنانے کا انتظام کر چکا تھا۔ اس کے باوجود، آپ نے اقتدار ایک آئیڈیل صورتحال میں سنبھالا ہے، ایسے کہ ملک میں عین آئین و قانون کے مطابق، آئینی اداروں کی جانب سے آپ کے اقتدار سنبھالنے سے قبل ایک منتخب اور آئینی حکومت کی موجودگی میں تباہ کن کرپشن کے خلاف احتساب کا عمل شروع ہو کر ابتدائی نتائج بھی دے چکا۔ پاکستان میں احتساب کی ضرورت کو کرپٹ ترین حکمرانوں نے بھی تسلیم کرلیا، لیکن یہ دیانت دار حکمرانوں کے ہاتھوں ہونا بھی ممکن نہ تھا، لیکن یہ ہوگیا۔ یہ فقط پاکستان کے اسلامی جمہوریہ کے تشخص کے تحفظ کے لئے نکلے قدرتی راستے سے ممکن ہوا۔ اب وہ رہے تو اسی سے پاکستان کو بحران سے نکلنا ہے۔

لیکن گڈگورننس کو آپ کی جانب سے مشروط کرنا کہ ’’گورننس ٹھیک کرلی تو‘‘ تو دو سال میں بےروزگاری اور قرض کی ادائیگی کا مسئلہ حل ہو جائےگا۔ اس فقرے کا ’’تو‘‘ آپ کے معمول کے بلا کے اعتماد میں کمی کا اشارہ معلوم دیتا ہے۔ بلاشبہ پاکستان کی گورننس ایسی ہی پیچیدہ بنا دی گئی اور حد درجہ بے لچک، لیکن کسی صورت آپ کا عزم بھی لچکدار نہیں ہونا چاہیے۔ لازم ہے کہ آپ ہر حالت میں اس کمٹمنٹ پر قائم رہیںکہ گورننس کو ہر حالت میں بہتر بنائیں گے۔جو آپ کو حکومت میں آکر اب مشکل تر معلوم دے رہا ہے تبھی تو ’’گورننس ٹھیک ہوگئی تو‘‘ آپ کے منہ سے نکلا ’’تو‘‘ کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں، یہ تو اولین ہدف کہ ہر حالت میںگورننس کو مطلوب درجے پر بہتر بنانا ہے۔ سب کچھ اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

یہ بھی درست ہے کہ آپ کا آغاز اس لحاظ سے کافی حوصلہ افزا ہے اور 20روز تک کی کارکردگی کی گورننس کا جائزہ گزشتہ ’’آئین نو‘‘ میں لیا گیا ہے کہ کس طرح کابینہ سرگرم ہوگئی، وزارت خارجہ بحال ہو کر سرگرم ہورہی ہے۔ اہم ترین موضوعات ایڈریس کئے جا رہے۔ ڈیمز کی تعمیر ترجیحی ایجنڈا بن گیا اور انتہائی اطمینان بخش پاکستان کو پوری دنیا میں رسوا کرنے والا سول، ملٹری مصنوعی طور پر پیدا کیا گیا خلاء اور اس کا پروپیگنڈہ دنوں میں ختم ہوگیا ہے۔ جس سے یکدم ملک میں بالائی گورننس کی سطح پر استحکام پیدا ہونے کا واضح پیغام خود پاکستانی قوم اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے ممالک کو گیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کو اگر گورننس کے مسائل کو سمجھنے اور اس میں رکاوٹوں کا احساس پیدا ہوا ہے تو ان کایہ دھڑکا کوئی غلط نہیں، لیکن اس کا تو واضح حل ایک مکمل اہل معاون ٹیم کی تشکیل میں کامیابی ہے۔ اس کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ سیاسی مصلحتوں اور ضرورتوں کے مطابق آپ کی اپنی کابینہ، صوبائی وزراء اعلیٰ اور کابینہ تو تشکیل پا گئیں ہیں، جن کی مجموعی اہلیت حالات کی سنگینی اور اس کے لئے مطلوب گورننس کے تقاضوں کے مطابق تو نہیں اوپر سے جو مشاورتیں حاصل کی جاری ہیں وہ بھی یا تو سیاسی نوعیت کی ہیں یایہ اور طرح کی مطلوب ضرورت کو پورا نہیں کررہی ہیں۔ کسی وزارت یا محکمے کے لئے مشاورت کسی طور پر سیاسی نہیں ٹیکنیکل اور پروفیشنل ہونی چاہیے، جس کے ٹی او آر میں اولین متعلقہ وزارت یا محکمے کی خدمات سے متعلق مکمل تعلیم، تجربہ اور ویژن ہے، جسے کوئی بہت اہل کمیٹی کسی مخصوص بنیاد (ٹی اور آرز) پر ہی ٹیسٹ کر سکے۔ وگرنہ جس طور پی ٹی وی کا گورننگ بورڈ بنایاگیا ہے جس طرح وزیراعظم ہائوس اورگورنر ہائوسز کے متبادل کے فیصلے ہوتے ہیں، ایسے ہی فیصلے اور ایسا ہی سرکاری ابلاغ پر ہوتا جائے گا جو اسٹیٹس کو کے نظام کا متبادل استعمال نہیں بلکہ چہروں کی تبدیلی کے ساتھ بیڈ گورننس کی حامل حکومتوں کی ہی پریکٹس ہوگی۔ وماعلینا الالبلاغ۔

تازہ ترین