• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی (تجزیہ:…محمد اسلام) تھر کے لوگ بہت بہادر ہیں، مجھے ان کے حوصلوں پر بہت پیار آتا ہے۔ دیکھئے نا! بار بار قحط، نقل مکانی، سالانہ سینکڑوں بچوں کی اموات مگر پھر بھی ہے دل پاکستانی۔ میں جو کچھ لکھ رہا ہوں مجھے نہیں پتہ یہ فکاہیہ کالم ہے یا کچھ اور لیکن تھری عوام کے مسائل اس کالم میں مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ سنجیدہ کالم ہے یا فکاہیہ اس بحث سے قطع نظر ڈاکٹر عبدالرئوف پاریکھ نے میرے اس نوعیت کے کالم کے لئے ’’غزہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے یعنی غم اور مزاح کی مکس پلیٹ سمجھ لیں
برادران اسلام! اس وقت تھر میں قحط، نقل مکانی اور بچوں کی اموات کی وجہ سے صورتحال تشویش ناک ہوگئی ہے۔ لوگ بیراجی علاقوں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔ گائوں کے گائوں خالی ہو رہے ہیں۔ کیفی اعظمی کے بقول ؎
وہ میرا گائوں ہے وہ میرے گائوں کے چولہے
کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا
بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں نقل اور نقل مکانی ہو تو بڑا دل دکھتا ہے۔ یہ تھر کے عوام کا ہی دل جگرا ہے کہ وہ بار بار اس صورت کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ صورت حال۔۔۔۔ منہ پر طماچہ ہے نہیں طماچہ پر طماچہ ہے، کس کے یہ میں نہیں بتائوں گا۔ مائیں ہی نہیں بلکہ مرنے والے بچے بھی یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ہم پاکستانی نہیں۔ بھیا بتائو! صحرائے تھر میں کھلنے والے پھول کیوں مرجھا رہے ہیں؟ سندھ کے اس سرحدی ضلع میں تسلسل کے ساتھ سینکڑوں کا مرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارا ضمیر خواب آور دوا کھا کر سو رہا ہے دیکھیں اور بہت سے لوگ اس کے اطراف پہرہ دے رہے ہیں کہ کوئی اسے بیدار نہ کر دے۔ کہتے ہیں کہ مائیں غذائی قلت کا شکار ہوتی ہیں اس لئے بچے کمزور ہوتے ہیں اوربیمار ہو کر مر جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا 21 ویں صدی میں غذائی قلت کا مسئلہ حل کرنا ممکن نہیں۔ حاملہ خواتین رجسٹرڈ کر کے خوراک فراہم نہیں کی جا سکتی۔ لیکن یہ کام کرے گا کون؟ اب تو مویشیوں کے لئے بھی چارہ دستیاب نہیں ہے اور جانور بھی مر رہے ہیں جبکہ جو امدادی گندم تقسیم کی جاتی ہے وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے اور اس کی تقسیم پر بھی کئی بار سوالیہ نشان لگا ہوا دیکھا گیا ہے اس صورتحال کے باوجود سکوت ہے، سناٹا ہے اور خاموشی ہی خاموشی ہے۔ حکیم شرارتی نے تجویز پیش کی ہے کہ اگر قومی اور سندھ اسمبلی تھر میں قحط اور نقل مکانی پر گفتگو نہ کرے تو ہمیں آپس میں ہی گفتگو کر لینی چاہئے اور ممکن ہو تو یہ گانا بھی گنگنانا چاہئے کہ
’’بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے‘‘۔
تھر کی موجودہ صورتحال مزید تکلیف دہ اس لئے بھی ہوگئی ہے کہ وطن عزیز خصوصاً تھر میں بارشیں ایسے ہی روٹھی ہوئی ہیں جیسے بیویاں شوہروں سے روٹھ جاتی ہیں لہٰذا فرحت عباس شہ کے اس شعر کی صورت ہم بارش کو بھی یاد کر لیتے ہیں ؎
اپنی آنکھوں کے خشک صحرا میں
لے کے برسات تم کو یاد کیا
تازہ ترین