• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم حیران ہی نہیں پریشان بھی ہیں آخر یہ عمران خان کیا چیز ہے۔ اب دیکھو میاں صاحب کی اہلیہ کلثوم نواز کے انتقال پر نہ صرف تعزیت کی اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو بھی آگے بڑھا دیا اور تو اور میاں صاحب جو وزیر اعظم عمران خان کے سب سے بڑے حریف و مخالف رہے ہیں۔ ان کے ساتھ تو یہ حسن سلوک کرکے انہوں نے عوام کے دل جیت لیے ہیں میاں صاحب کے دور حکمرانی میں شیخ رشید کی والدہ کا انتقال ہوا تھا۔ تو بھی میاں صاحب نے درخواست کے باوجود شیخ رشید کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی تھی۔ شیخ صاحب اپنی والدہ کی تدفین میں شریک نہیں ہوسکے تھے، جب کہ شیخ صاحب ماضی میں میاں نواز شریف کے دست راست ہوا کرتے تھے۔ کلثوم نواز کی نماز جنازہ اورتدفین میں تحریک انصاف کے دو رکنی وفد نے شرکت کی اور دیگر جماعتوں نے بھی شرکت کی۔

وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ نے جس اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا ہے۔ اس کی توقع نہیں کی جا رہی تھی، لیکن انہوں نے بے مثال انسانی ہمدری کا ثبوت دیتے ہوئے میاں صاحب اورا ن کی فیملی کو ہر طرح کی سہولت فراہم کرنے کا اعلان ہی نہیں کیا، واقعی وہ تمام سہولتیں فراہم بھی کیں، ورنہ تو ایسا بھی ممکن تھا کہ جیل سے آتے نماز جنازہ پڑھتے اور تدفین میں شرکت کرکے واپس فوراً ہی جیل لے جائے جاتے، لیکن ایسا حکمران وقت نے نہیں کیا۔ میت کے آنے سے دو دن قبل انہیں پیرول پر رہا کردیا اور تدفین کے بعد بھی انہیں ملاقاتوں کا موقع دے دیا اور اس سے اہم یہ کہ اسمبلی کے اجلاس میں بیگم نواز کلثوم کے لیے تعزیتی قرار داد بھی منظور کی گئی۔ یقیناً یہ حکمران وقت عمران خان کی اعلیٰ ظرفی کا ثبوت ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اور ان کی وزارتی ٹیم پوری تندہی سے ملکی معاملات کوسلجھانے میں مصروف ہے۔ کابینہ کے غیر معمولی اجلاس پر اجلاس ہو رہے ہیں، مانا کہ قوم کی فلاح و بہبود کے منصوبے بنائے جارہے ہیں تاکہ ان کو فوری طور پر قابل عمل بنایا جاسکے۔ جب کہ ان کے تمام ہی مخالفین بار بار شور و غل مچارہے ہیں کہ انہوں نے جودعوے کیے ہیں انہیں پورا نہیں کیا جا رہا، حالانکہ وہ سب حسب توفیق حکمرانی کے لطف اٹھاچکے ہیں انہیں خوب اچھی طرح خبر ہے کہ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جما کرتی، کسی منصوبے کو بنانے، اسے عملی صورت دینے میں مہینوں لگ جاتے ہیں اور اس کی تکمیل میں برسہا برس صرف ہوجانے کے باوجود تکمیل نہیں ہوپاتی۔نئی حکومت کو ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں اور بقول مخالفین کے حکمرانی میں آنے والے تمام ہی لوگ خصوصاً وزیر اعظم عمران خان تجربہ کار نہیں کچھ پتہ نہیں کہ حکومت کیسے چلتی ہے۔ وزیراعظم جس طرح دن رات لگ کر ملک کو خرابیوں بد عنوانیوں کرپشن سے نجات دلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں وہ سب سامنے ہے سب سے اہم مسئلہ فی الحال اقتصادی امور پر قابو پانا ہے۔ ساتھ ساتھ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے اور موجودہ قرضوں کو اتارنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ ہاں اگر سابقہ حکمران ہوتے یقیناً اب تک وہ نہ صرف مزید قرضے لے چکے ہوتے اور اپنی فتح کا جشن منارہے ہوتے۔ ملکی داخلی معاملات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معاملات بھی اچانک ہی سامنے آنے لگے ہیں ہمارا اب تک کا سب سے اہم اور بڑاسربراہ امریکہ آپے سے باہر ہوا جا رہا ہے اور پڑوسی دشمن ملک بھارت کو اپنی سرپرستی سے ابھار رہا ہے۔ ایک طرف افغانستان جہاں امریکہ خود بیٹھا ہے اور بھارت کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ حالانکہ امریکہ خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ افغانستان پاکستان کی مدد کے بغیر قابو نہیں آسکتا۔ امریکہ کافی الحال رویہ ایسا ہوتا جا رہا ہے کہ ظالم مارے بھی اور رونے بھی نہ دے۔ اب جب کہ پاکستان نے چین سے خصوصاً اور روس سے عموماً اپنے تعلقات استوار کرلیے ہیں تو پاکستان کا یہ عمل امریکہ کے حلق کی ہڈی بن گیا ہے بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر پھنس گئی ہے۔ جسے نہ اگلتے بن رہی ہے نہ ہی نگلتے بن رہی ہے۔ امریکہ اور اس کا حلیف بھارت خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ پاکستان نرم نوالہ نہیں ہے۔ خطے میں جو اہمیت پاکستان کو حاصل ہے اسے کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اب جب کہ پاکستان اپنی جوہری قوت کا مظاہرہ کرکے جوہری طاقت بن چکا ہے تو اس سے کسی بھی طرح کی ٹکر لینا ممکن نہیں رہا، پھر پاکستان کی شیر دل افواج جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی فوج نہیں کرسکتی۔ امریکہ نے اب تک تقریباً ستر برسوں میں پاکستان کی جو سرپرستی کی ہے وہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے۔ امداد کے نام پر قرضوں کا بوجھ بڑھاتارہا ہے۔ اب چین جو نئی دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی مضبوط معیشت کے ساتھ ساتھ جوہری قوت بھی ہے وہ عالمی سطح پر امریکہ کے سامنے خم ٹھونک کر میدان میں آکھڑا ہوا ہے۔ چین نے بھی پاکستان میں جو سرمایہ کاری کی وہ اس کے مفاد میں ہے، لیکن چین کے مقابلے میں پاکستان کو مفادات کہیں زیادہ حاصل ہوں گے۔ مخالفین کی زبانیں تالوسے نہیں لگ رہیں پہلے وہ وطن عزیز کو امریکہ کی کالونی کہتے نہیں تھکتے تھے، اب وہی طریقہ وہی انداز چین کے خلاف اپنا رہے ہیں وہ برملا اس کا اظہار کرتے نہیں تھکتے کہ پاکستان جلد چین کی کالونی بن جائے گا۔ چین جس طرح پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہاہے اور اپنی سرمایہ کاری کی نگرانی کے لیے اپنے لوگوں کو یہاں آباد کر رہاہے کچھ دن جا رہے ہیں کہ ہر طرف چینی ہی چینی نظر آنے لگیںگے لیکن اس سب کے باوجود وزیر اعظم عمران خان بڑے تحمل اور برداشت سے سب کچھ سنتے سمجھتے ہوئے اپنے کام سے کام رکھ کر بہت سوچ سمجھ کر قدم بڑھا رہے ہیں۔ بیرون دنیا سے ایک کے بعد ایک سفارتی مشن آرہے ہیں۔ اپنی ہمدردی اور تعاون کا یقین دلا رہے ہیں جب کہ ماضی میں ایسا نہیں ہوا کہ نئے حکمرانوں کے حکومت سنبھالتے ہی بیرونی دنیا سے پاکستان کو اپنے تعاون اور ہمدردی سے نوازنے کی نوید سنانے کوئی آیا ہو۔عمران خان کاماضی بطور ایک کھلاڑی سب کے سامنے رہا ہے، اس نے کبھی بد دیانتی بے ایمانی کا اظہار نہیں کیا نہ ہی کبھی کسی قسم کے لالچ کا شکار ہوا ہے کیونکہ دنیا اس کے بے داغ ماضی سے واقف ہے۔ اس لیے اسے عالمی سطح پر قبول کرلیا گیا ہے اور تعاون کیا جا رہاہے ۔ اللہ وطن عزیز کی حفاظت فرمائے۔آمین

تازہ ترین