• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت محض پیپلز پارٹی کی مدد سے آئین میں ترمیم نہیں کرسکتی

رپورٹ:احمد نورانی

اسلام آباد:… ایوان بالا سینیٹ میں اقلیت میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت کو سادہ دستورسازی کے لئے پیپلز پارٹی یا کسی دیگر اپوزیشن جماعت سے حمایت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا کیونکہ حکمراں اتحاد دو تہائی اکثریت سے محروم ہونے کے باعث اسے ختم نہیں کرسکتا۔ چاہے اسے ایوان بالا میں پیپلز پارٹی کی حمایت ہی حاصل کیوں نہ ہو۔جبکہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ نظام بھی نہیں چلایا جا سکتا۔ آئین اور قانون کے ماہر وسیم سجاد نے کہا کہ سینیٹ میں عدد یقوت کے اعتبار سے سادہ دستور سازی کے لئے اگر قومی اسمبلی سے منظور کوئی بل سینیٹ سے منظور کرانے میں ناکام رہتی ہے، تب وہ یہ بل آرٹیکل70(3)کے تحت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کرسکتی ہے۔ ضمنی انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں حکمراں اتحاد کے 189 ووٹ اور اپوزیشن اتحاد کے ارکان کی تعداد 153ہوسکتی ہے۔ سینیٹ میں تحریک انصاف کے 12سمیت حکومتی اتحاد کے 34اور اپوزیشن میں ن لیگ کے 32اور پیپلز پارٹی کے20سمیت اپوزیشن اتحاد کے 68ووٹ ہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکمراں اتحاد کے223(189جمع34) اور اپوزیشن کے221(153جمع68) ووٹ ہیں۔ بشرطیکہ اپوزیشن متحد ہو۔ جب ضمنی انتخابات ہوں گے تو تحریک انصاف عدد قوت میں اضافہ کرسکتی ہے ۔ صدارتی انتخابی عمل میں سرکاری امیدوار نے212ووٹ لئے جو اپوزیشن کے امیدواروں کے مجموعی ووٹوں کے برابر تھے۔ اکتوبر میں ضمنی انتخابات کے بعد پارلیمنٹ کے کسی بھی مشترکہ اجلاس کے لئے حکومت اکثریت حاصل کرلے گی۔ تاہم وسیم سجاد کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ اجلاس میں تمام ارکان کی حاضری کو یقینی بنانا حکومت کے لئے مشکل ہوگا۔ ایسے مواقع پر صورتحال برابری کی ہوگی۔ لیکن عددی اعتبار سے حکومت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعہ سادہ دستور سازی کی پوزیشن میں ہوگی۔ دوسری جانب کسی آئینی ترمیم کے لئے حکومت کو دونوں ایوانوں میں علیحدہ علیحدہ دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔ وسیم سجاد کے مطابق کسی بھی ایوان سے آئینی ترمیم منظور نہ ہونے کی صورت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا کوئی اختیار نہیں ہے کیونکہ آئین کا آرٹیکل۔239اس کی اجازت نہیں دیتا۔ آئینی ترمیم کے لئے حکومت کو قومی اسمبلی میں 228اور سینیٹ میں70ووٹ درکار ہوں گے۔ آرٹیکل۔239کے ذیلی آرٹیکل۔4کے تحت صوبائی سرحدوں میں ردوبدل کے لئے ترمیمی بل بھی متعلقہ صوبائی اسمبلی سے منظور کرانا ہوگا۔ تحریک انصاف نے قوم سے جو بنیادی وعدے کئے ان میں ایک جنوبی پنجاب صوبہ کی تخلیق بھی ہے۔ لیکن اس کے لئے تحریک انصاف کی حکومت کو سینیٹ اور پنجاب اسمبلی میں مطلوبہ دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہے۔ اس کے لئے اسے قومی اسمبلی، سینیٹ اور پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی مکمل حمایت درکار ہوگی۔ماضی میں مسلم لیگ(ن) بھی جنوبی پنجاب کےساتھ بہاولپور صوبہ کی بھی حمایت کرتی رہی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت اگر وعدے پورے کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے ن لیگ کے ساتھ سنجیدگی سے مکالمہ کرنا ہوگا۔ ن لیگ کی حمایت کے بغیر آئین میں ترمیم ممکن نہ ہوگی۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد اب آرٹیکل۔89کے تحت نظام صدارتی آرڈیننس جاری کرکے نہیں چلایا جاسکتا۔ اب ہر آرڈیننس کی پارلیمنٹ سے منظوری لازمی ہے۔ سادہ دستوری سازی سے متعلق آئین کا آرٹیکل۔ 70کہتا ہے(1) وفاقی دستوری فہرست سے متعلق بل کسی بھی ایوان سے منظوری کے بعد دوسرے ایوان میں پیش کردیا جائے گا۔ اگر بل ترمیم کے بغیر منظور ہوجاتا ہے تو یہ منظوری کے لئے صدر کو پیش کردیا جائے گا۔(2) اگر بل شق۔ ایک کے تحت بل مسترد ہوتا یا90دنوں میں منظور نہیں ہوتا تو یہ اصل ایوان کو واپس بھیج دیا جائے گا۔(3)اگر ایوان ترمیم کے ساتھ منظور کرلیتا ہے تو پھر یہ صدر کو منظوری کے لئے بھیج دیا جائے گا۔ (4) صوبے کی حدود میں تبدیلی کے لئے آئین میں ترمیمی بل صدر کو اس وقت تک منظوری کے لئے پیش نہیں ہوگا جب تک متعلقہ صوبائی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے اس کی منظوری نہ دے۔(5) آئین میں کسی بھی ترمیم کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔(6)شک رفع کرنے کے لئے اعلان کیا جاتاہے کہ آئین میں کسی ترمیم کے لئے پارلیمنٹ کے اختیارات کی کوئی حد نہیں ہے۔ 

تازہ ترین