• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 ابو الزعیم نقوی

اردو جس نے سر زمینِ دکن میں آنکھیں کھولیں، دلّی میں پرورش پائی اور لکھنؤ میں جوان ہوئی، اس کے علاوہ عظیم آباد، بھوپال، رام پور اور امروہہ وغیرہ میں پھولی پھلی، آج اس کا برصغیر میں سب سے اہم اور عظیم مرکز کراچی بن چکا ہے۔ یہاںکی سمندری ہوائیں، نہ صڑف اس کی غزل کو راس آئیں، بلکہ انہوں نے کربلا کے پیاسوں کی یاد کو بھی مرثیے کی شکل میں تازہ کردیا، جس طرح اردو شاعری کی ابتدا دکن کی سر زمین پر مرثیہ نگار شعرا کے ہاتھوں ہوئی، اسی طرح کراچی کی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز بھی مرثیہ نگار شعرا کے ذریعے ہوا۔ اب اس میں آلِ رضا ہوں یا نسیم امروہوی ، جوش ملیح آبادی ہوں یا یاور عباس ، رئیس امروہوی ہوں یا قمر جلالوی، نجم آفندی ہوں یا راجہ صاحب محمود آباد۔ یہ سب شعرا اپنی مرثیہ خوانی کا مرکز کراچی کو بنائے رہے۔

پاکستان کے قیام کے بعد، پہلے ہی عشرۂ محرم سے مجالسِ مراثی کا آغاز ہوگیا تھا اور اس میں سب سے زیادہ ہاتھ سید آلِ رضا کا رہا، ان کے علاوہ نسیم امروہوی، یاور عباس اور صبا اکبر آبادی کی خدمات بھی اہم ہیں۔ اس طرح کراچی میں مرثیہ نگاری کی ابتدا اور مرثیہ خوانی کی بنیاد پڑ چکی تھی، لیکن آرزو لکھنوی نے کراچی پہنچ کر اسے اور مستحکم بنادیا۔

آرزو کے علاوہ جن بزرگ مرثیہ نگاروں نے کرچی میں مرثیے کی خدمت انجام دیِ، ان میں ثمر لکھنوی، محسن اعظمی، کامل جونا گڑھی، بنیاد تیموری، موجد سرسوی، منظر عظیمی اور راجہ صاحب محمود آباد وغرہ شامل ہیں ، یہ سب شعرا اپنے اپنے رنگ میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ مرثیہ نگاری کو انہوں نے خاص طورسے اپنایا تھا، اسی لیے ان کے مراثی کی تعداد بھی کافی ہے۔ نمونہء کلام مندرجہ ذیل ہیں؎

راجہ صاحب محمود آباد

جہاں کے واسطے ہے، دجہِ زندگی پانی

ہے چشم ِعالمِ ایجاد کی ، تری پانی

اسی سے مشکلِ اہلِ زمیں ہوئی پانی

رگوں میں دہر کی دوڑا کیا یہی پانی

بڑھے ہوئے ہیں اسی سے تپاک کے دامن

اسی نے رنگ دئیے ،صحنِ خاک کے دامن

کامل جونا گڑھی

حسینؓ جاتے ہیں کعبے سے کربلا کی طرف

خدا کے گھر سے چلے ہیں، مگر خدا کی طرف

بڑھے ہیں رکھ کے ہتھیلی پہ سر، قضا کی طرف

قدم ہیں حج سے بھی آگے، رہ ِرضا کی طرف

خوشی اب اہلِ حرم کے نہیں کسی گھر میں

سیاہ پوش ہے کعبہ، فراقِ سرور میں

محسن اعظمی

شبیرؓ کون، دجہِ گلستانِ زندگی

شبیرؓ کونِ ،جو ہرِ عرفانِ زندگی

شبیرؓ کون ،مرجعِ عنوانِ زندگی

شبیرؓ کون، سرحدِ امکانِ زندگی

امداد جس سے نزع کے عالم میں دین لے

شبیرؓ وہ، جو موت سے ہستی کو چھین لے

کراچی کے مرثیے کی ابتدا کچھ اس طرح ہوئی کہ یہ سلسلہ بہت تیزی سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ ڈاکٹر یاور عباس کی کوششوں سے اور نسیم امروہوی کی شاگردی سے شعرا کی صفیں مرثیے کے حلقے میں داخل ہونے لگیں۔ شوکت تھانوی، رئیس امروہوی، مصطفےٰ زیدی اور کوکب شادانی جیسے شعرا نے بھی مراثی کہے۔ قمر جلالوی جیسے استاد کو بھی مرثیے سے دل چسپی بڑھی۔ جمیل نقوی امروہوی، امیر امام حر، صبا اکبر آبادی، راغب مراد آبادی، زیبا رودلوی، صہبا لکھنوی، ضیا الحسن موسوی، میر رضی میر، وصی فیض آبادی، شاہد نقوی، ادیم امروہوی، عزم جونپوری، ظفر جونپوری، مقبول حسین نیر، کرار جونپوری، ڈاکٹر ہلال نقوی وغیرہ نے مرثیے کی بہت خدمت کی ۔ مجالسِ مراثی کے باقاعدہ پابندی سے عشرے منعقد ہونے لگے، شعرا نے نئے نئے، موضوعات مراثی کے لیے تلاش کیے اور جدید مرثیے کو ترقی کے لیے ساز گار ماحول ملا۔ چند شعرا کا نمونہء کلام

قمر جلالوی

نازک مزاج، مست ادا، نازنیںہے رات

مشہور آسمان سے اب ، تازمیں ہے رات

مغرب کے حسن والوں میں، سب سے حسین ہے رات

تاروں سے کل سجائی ہوئی ،مہ جبیں ہے رات

چمکا دیا ہے حسن کو انجم کے نور نے

افشاں چنی ہے چاند سے ماتھے پہ حور نے

شوکت تھانوی

کہتے تھے خود رسول ؐ کہ بیٹھا ہوں قبلہ رو

مجھ سا، مرے حسینؓ کو پائو گے ہو بہو!

عادات میں کہیں سے نہیں فرق موبمو

دیکھو مرے حسینؓ میں ،میری ہر ایک خو

میں خود کو دیکھتا ہوں تو ہوں سر بسر حسینؓ

آئینہ درمیاں ہے اِدھر میں اُدھر حسینؓ

کوکب شادانی

بشر جو چاہے تو عالم میں انتخاب بنے

یہ اپنی ذات میں دریائے بے سراب بنے

بنے گناہ کہ سر تا بپا ثواب بنے

اٹھے تو جانِ حقیقت، گرے تو خواب بنے

یہ اختیار خدا نے اسی کو بخشا ہے

یہ امتیاز فقط آدمی کو بخشا ہے

صبا اکبر آبادی

میں کہ مداحیِ شبیرؓ عبادت میری

آلِ اطہار سے ثابت ہے محبت میری

کھینچ لائی مجھے مجلس میں مودت میری

اوجِ منبر جو ملا ہے تو یہ قسمت میری

کیوں نہ اس خوبی ِتقدیر پہ نازاں ہوں میں

آج منبر پہ سرِ تخت ِسلیماں ہوں میں

ڈاکٹر یاور عباس

لطف ہی کیا تھا اگر پھول نہ پاتا خوشبو

غم سے خالی ہی جو رہتا، کہیں دل کا پہلو

آب کھو بیٹھتی جو آنکھ نہ پاتی آنسو

اتنی شائستہ نہ ہوتی کبھی انسان کی خو

غم نے انسان کو، انسان بنا رکھا ہے

ورنہ اس خاک کی تعمیر میں کیا رکھا ہے

ضیا الحسن موسوی

وہ تیغ ہے جو خاصہء دا ور کا معجزہ

بخشش خدا کی ساقیِ کوثر کا معجزہ

قرآن جس طرح ہے، پیمبرؐ کا معجزہ

ہے ذوالفقار، حیدرِ صفدر کا معجزہ

تحفے کو دیکھئے، کبھی حسنِ قبول کو

تلوار دی امام کو، قرآں رسولؐ کو

ان شعرا کے علاوہ دبستان نسیم کے شعرا کی تعداد کراچی میں کافی بڑھ گئی، جنہوں نے نسیم امروہوی کی رہنمائی میں مرثیے کے قافلے کو آگے بڑھایا، جس سے مرثیہ نگاری کی رفتار تیز ہوگئی۔ ان شعرا میں بدر الہٰ آبادی، یاور اعظمیٰ، فیض بھرتپوری، اطہر جعفری، عروج بجنوری، منظور رائے پوری، جمیل نقوی، وزیر جعفری، قسیم امروہوی، ساحر لکھنوی، زائر امروہوی، نظر جعفری، ہلال نقوی اور خمار فاروقی خاص طورسے قابل ذکر ہیں۔ ان شعرا میں سے کچھ تو ایسے ہیں، جو مرثیے کی روایت کو سینے سے لگائے رہے۔ کچھ کے ہاں قدیم و جدید کا حسین امتزاج ہے اور کچھ ایسے شعرا ہیں، جنہوں نے مرثیے کو ایک نئی فکری نہج دینے کی کوشش کی، لیکن سب کے ہاں ’’نسیمیت‘‘ کہیں نہ کہیں ضرور ہے۔ ان میں سے چندشعراکا کلام مندرجہ ذیل ہے۔

ساحر لکھنوی

دریائے فکر و فن کی روانی ہے مرثیہ

تیغِ زبانِ شعر کا پانی ہے مرثیہ

لیلائے شاعری کی جوانی ہے مرثیہ

تاریخ نے کہی وہ کہانی ہے مرثیہ

ہے فردِ جرم، فوجِ ضلالت شعار بھی

کردارِ اہلِ بیت کا آئینہ دار بھی

خمار فاروقی

ہر ایک ذی حیات کو دہشت ہے آگ سے

یاں تک کہ ناریوں کو بھی نٖفرت ہے آگ سے

لیکن مجھے محبت و الفت ہے آگ سے

وابستہ اک دلی مری حسرت ہے آگ سے

اک عمر کی لگی سرِ محشر بجھائے گی

جلتے ہیں جو علیؓ سے، یہ اُن کو جلائے گی

’’دبستانِ نسیم‘‘ کے علاوہ بھی کراچی میں مرثیہ نگار شعرا کی ایک طویل فہرست ہے، جو اپنے اپنے انداز میں مرثیے کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ مجالس میں بھی مراثی پڑھ رہے ہیں۔ اخبارات، رسائل اور کتب کی شکل میں بھی جن کی مراثی منظر عام پر آرہے ہیں، جنہیں دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت کراچی نے مرثیے کو نئی زندگی بخش دی ہے اور مرثیے کا مستقبل کسی طرح بھی خطرے میں نہیں ہے، بلکہ تاب ناک ہے۔ مرثیہ زندہ رہے گا اور مرثیے کا وقار قائم رہے گا۔

کراچی کے دیگر مرثیہ نگاروں میں کرار نوری، طالب جوہری، حسین اعظمی، تاثیر نقوی، شاداں دہلوی، سردار نقوی، امید فاضلی، کوثر آلہٰ آبادی، نصیر بنارسی ، ظلِ صادق، بیدار نجفی، نعیم نقوی، خاور نگرامی، عزت لکھنوی، رفیق رضوی، صہبا اختر، مسرور شکوہ آبادی، آرزو اکبر آبادی، سالک نقوی، زائد فتح پوری اور وقار سبزواری وغیرہ ہیں۔ چند شعرا کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو؎

کرار نوری

دنیا نے دیکھا باگ کو پھیرا حسینؓ نے

تاریکیوں میں بھیجا سویرا، حسینؓ نے

کافور کردیا، ہر اندھیرا حسینؓ نے

ہر دشمنِ حیات کو گھیرا، حسینؓ نے

اک عزم مستقل تھا کہ بڑھتا چلا گیا

مفہومِ مرگ و زیست بدلتا چلا گیا

طالب جوہری

تاریخِ کائنات کے ہر زیرو بم کے سات

لرزاں و خونچکاں ہیں، ہزاروں ہی حادثات

لیکن وہ حادثہ، جو ہوا تھا لبِ فرات

اپنے جلو میں لے کے چلا سر مدی حیات

وہ حادثہ، جو اک ابدی چیخ بن گیا

یعنی صریرِ خامہ ءتاریخ بن گیا

امید فاضلی

زبانِ عجز کھلی ہے، تو مدعا مانگوں

یہ وقت ہے کہ طلب سے بھی کچھ سوا مانگوں

رسولؐ کا ہے یہ منبر، یہاں دعا مانگوں

شعورِ تذکرئہ سبطِ مصطفیٰؐ مانگوں

خدائے عشق ، لہو کو مرے نوا کردے

وہ حرف دے کہ جو مدحت کا حق ادا کردے

سردار نقوی

بڑھ کے پھر وقت کے فرعون کو یوں للکارا

توڑ کر رکھ دیا، پندارِ تکبر سارا

چشمِ تاریخ نے دیکھا یہ عجب نظارا

ظلم کی حد یہ پکار اٹھی کہ ظالم ہارا

اب جو قرآن کے آئینے میں صورت دیکھی

ظلم نے اپنے لیے دائمی ذلت دیکھی

صہبا اختر

آخرش راہِ وفا میں وہ مقام آہی گیا

اک نمازِ خاص میں ، وقتِ قیام آہی گیا

اک وفا کے دشت میں نقشِ دوام آہی گیا

آسمانوں سے شہیدوں پر سلام آہی گیا

آمدِ شبیرؓ سے جاگے نصیبِ کربلا

کربلا کو مل گیا، آخر حبیب ِکربلا

کراچی سے تعلق رکھنے والے مذکورہ بالا شعرا کے علاوہ بھی کچھ شعرا ایسے ہیں، جنہوں نے مرثیہ کہا ہے اور کچھ شعرا مرثیہ کہہ رہے ہیں، لیکن یہی تعداد دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ قلی قطب شاہ کا دکن میں جلایا ہوا چراغ جب آلِ رضا کے ذریعے کراچی پہنچا تو ’’دبستانِ نسیم‘‘ اور دیگر شعرا کے ذریعے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دنیائے شاعری میں جگمگا رہا ہے اور اس نے ثابت کردیا ہے کہ مرثیہ کبھی نہیں مرسکتا۔

تازہ ترین