• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
30نومبر 2012ء ملک کی سب سے بڑی قومی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا 45واں یوم تاسیس تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے 45برس کی اس تاریخ کا راستہ خون ریز جدوجہد کی موت آسا راہوں، تختہ دار کے آسیبوں اور شہادت گاہوں کے خوانین مراحل کی تکمیل سے طے کیا۔ 45برس کی اس تہلکہ خیز اور پرعزم تاریخ کے ابواب جبہ و دستار کے مقابل شدید مزاحمت میں بھی رقم کئے گئے جس جبہ و دستار کی فکر نے اس گھڑی تک ہموار طریقے سے نہ پاکستانی ریاست کو چلنے دیا نہ عوام کو ذہنی آزادی و عزت کی زندگی کا مفہوم سمجھنے اور برتنے کے قابل چھوڑا۔
پاکستان پیپلز پارٹی عوام کے آدرشوں کا ایسا سمندر ہے جس کی تموج آمیز لہروں اور اور بپھرتی روانیوں کی ناقابل فراموش کہانی کو ابھی تک باقاعدہ الفاظ کے کسی مجموعے میں ریکارڈ نہیں کیا گیا، آپ کو اس کی اساطیری تگ و تاز پر کوئی شاہکار کتاب دستیاب نہیں، مدتوں پہلے مقتدر اخبار نویس اور محقق خالد کاشمیری نے ”پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ“ (جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے نام یہی تھا)لکھی تھی جسے وقت کی گرد اپنی اوٹ میں لے چکی۔ بے چاری پیپلز پارٹی تحریری یلغار اور میڈیا کے محاذ پر ہمیشہ زمانے کی اس دھول کا حصہ بنتی رہی جس کے عناصر پر جھوٹ اور بے انصافی کا راج ہوتا ہے، 2012ء میں بھی حیرت انگیز حد تک ناگزیر ان دونوں میدانوں میں اس جماعت کا یہی حال زار ہے!
ہفتہ رواں کی 27تاریخ، منگل کے دن وفاقی وزارت اطلاعات کے میڈیا کوآرڈی نیٹر ملک سلیم عثمان کی جانب سے لاہور کے صحافیوں ، کالم نگاروں اور اینکر پرسنزکو دعوت ظہرانہ دی گئی۔ وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ خصوصی مہمان مقرر تھے۔ لالہ موسیٰ کے رہائشی، فلسفے کے ایم اے، ساری زندگی پر وگریسو دوستوں کی رفاقت کے رسیا، بسیار خور کے بجائے خوش خوراک، اب بھی اپنی کٹنگ کے لئے اپنے قصبہ نما شہر کے ہیئر ڈریسر کے پاس جانے کی مستقل عادت، ذاتی رہائش سے کچھ فاصلے پر جن کا ڈیرہ ہے جہاں وہ کسی بھی نوعیت اور سطح کے Protocol Conciousہوئے بغیر عوامی مجلس آرائی میں ہر ایک کے ساتھ ”گڈ لک ڈائری“ مرتب کرتے ہیں، عرصے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے ایسا وزیر اطلاعات فراہم کیا جس کا بغیر لکنت کے منظم جوشیلہ تکلم سینئر لوگوں کو اس جماعت کی ابتدائی قیادت کے افراد کی بے ساختہ یاد دلاتا ہے جنہیں بات کہنے کے ڈھنگ، رنگ اور سلیقے پر دسترس تھی، خواص ہوں یا عوام، ان کی گفتگو اپنے گہرے اثرات مرتسم کئے بغیر نہ رہتی، اس وزیر اطلاعات کو ماضی کے ماہ وسال کی نسبت ایک اور قطعی منفرد Edgeحاصل ہے، یہ کہ ان کی منتخب حکومت کے گزرے ساڑھے چار برسوں میں پاکستان میں پہلی مرتبہ نہ تو ریاستی نظام میں کوئی سیاسی قیدی تھا نہ ریاستی حوالے سے کسی ایک صحافی یا دانشور کو کسی بھی درجے کی خفیہ یا ظاہری اذیتوں، دھمکیوں، خوف اور پابندیوں کا شکار ہونا پڑا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے بلا کسی سماجی یا ذاتی حفظ مراتب کے پاکستانیوں کو ”مادر پدر آزادی“ کا مکمل مطلب سمجھا دیا، نوبت بہ ایں جا رسید، خود معتبر صحافتی شخصیات، صحافتی تنظیمیں، سول سوسائٹی، تمام اہل فکر و نظر الامان و الحفیظ پکار اٹھے۔ الٹا ان ساڑھے چار برسوں کی ”مادر پدر آزادی“ پر مبنی بے مہار رویوں کے علی الرغم منتخب حکومت نے پاکستانی میڈیا کو ہمیشہ Motherly Behave کیا۔
قمر زمان کائرہ اپنے پہلے اور دوسرے دونوں ادوار وزارت میں ذہناً اور قلباً قبول کئے گئے۔ ان سے اتفاق یا اختلاف رائے رکھنے والے دونوں صحافتی گروپوں کا طرز عمل آپ کی ہر دلعزیزی کے اعتراف کا عکاس رہا۔ لاہور کے مقامی کلب کے اس ظہرانے میں کائرہ صاحب کا انداز خطاب اور ان کا شخصیاتی کرشمہ تکمیلی معیار پر نہایت آراستگی کا مظہر تھا، سوالات کے جوابات میں ان کی دلربائی، فسوں کاری، مفاہمت، برداشت، وسعت ظرف اور وسعت قلب کی غیر معمولی خوبیاں متحرک اور اجاگر رہیں۔
بسا اوقات قمر زمان کائرہ آپ کو Arrogantبھی لگیں گے، اس لمحاتی حالت کو وہ ہمیشہ اپنی تہذیبی مشق کے بل بوتے پر سلیس کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے اصغر خان کیس کے فیصلے اور ملالہ یوسف زئی کے المیے پر مفصل اور مدلل مضامین تحریر کئے، گویا میڈیا سیل کے فقدان کی کمی بھی پوری کی، کیا اس طرح کسی قومی سیاسی جماعت کے اجتماعی تشہیری تقاضوں سے نپٹا جاسکتا ہے؟ میرے خیال میں وزیر اطلاعات کی امداد ہونی چاہئے انہیں خود بھی ایسے سیل کے قیام پر رسماً نہیں حقیقتاً عمل کی ضرورت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہر سیاسی جماعت نے اس مورچے پر اپنے ممکنہ وسائل جھونک رکھے ہیں!
اس سلسلے میں ایک بار پھر آہ! بے آسرا ور بے خانماں بے چاری پیپلز پارٹی !
یہ منعقدہ فنکشن ہر نقطہ نظر اور ہر پہلو سے شاندار تھا۔ جہاں مجیب الرحمن شامی، عارف نظامی، مہدی حسن اور سلیم بخاری جیسی کلاسیکل صحافتی فگرز سٹیج پر رونق افروز ہوں، ساتھ صاحب کلام و منطق قمر زمان کائرہ تشریف رکھیں، اس دو آتشہ کے بعد اس فنکشن نے اپنے معانی و مقاصد کے حقیقی منشا کی Productivityمیں کہاں کسر چھوڑنی تھی۔ ہوا بھی یہی، کائرہ صاحب نے اس اجتماعی مضراب کے ایک سے زیادہ تاروں میں ارتعاش پیدا کیا، ان مرتعش جھنجھناہٹوں میں نواز شریف بھی شامل تھے۔ شاید اس مجلس کی موسیقیت میں یہ سب سے طاقتور ردم تھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا ”نواز شریف کو الیکشن سے آؤٹ کرنے کی سوچ احمقانہ ہے۔ نواز شریف نے وزیراعظم منتخب ہونے کی صورت میں آصف زرداری سے حلف لینے کا جو بیان دیا ہے ہم اس کو خوش آئند سمجھتے ہیں اور ان کا شہباز شریف کو صدر زرداری پر تنقید نہ کرنے کا مشورہ دینا بھی انتہائی اچھی بات ہے۔ شہباز شریف بھی آج کے بعد چودھری نثار کی بجائے نواز شریف کی بات پر عمل کریں“۔
صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس، چیف آف آرمی سٹاف آج کے عہد میں کسی بھی ملک اور قوم کے بزرگ اور محترم مناصب ہیں۔ یہ مناصب افراد کے نہیں ملک و قوم کے احترام کی طے شدہ علامتیں قرار دی گئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے گزشتہ ایک برس میں صدر کے بزرگ منصب کے سلسلے میں کون سے الفاظ اور کس قسم کی اصطلاحات استعمال کیں، آئندہ کی سیاسی نسلوں کو وہ کیسا سیاسی ورثہ منتقل کر چکے ہیں اس موضوع پر ایک لفظ بھی کہنے کا روا دار نہیں نہ یہ میرا موضوع ہے، مجھے تو پاکستان کی سیاست کے پیاسے صحرا میں اس سیاسی چشمے کے نمودار ہونے کو انجوائے کرنا ہے جس کا تعلق کائرہ صاحب کے اس جملے ”نواز شریف کو الیکشن سے آؤٹ کرنے کی سوچ احمقانہ ہے“ اور نواز شریف کے اس جملے ”میں وزیراعظم منتخب ہونے کی صورت میں صدر آصف علی زرداری سے حلف لینے کو تیار ہوں“ سے ہے۔ میرے نزدیک پاکستان کی ہر رنگ سے زخمی جمہوریت کا سفر مضبوط تر ہو رہا ہے۔ وطن کی سیاسی اکائیوں میں آئینی ارتقاء کی پسندیدگی اور ایک دوسرے کی مقبولیت کے آثار نہایت طور پر ہویدا ہیں، اس ساڑھے چار برس کے اندوہ و دباؤ میں ڈوبے جمہوری نظام کے تسلسل نے تمام آئینی اداروں کو اپنی حدودمیں رہنے کے وظیفے بلکہ چلے پر لگادیا ہے، ہم یقین کی حد تک بہترین کی امید کرسکتے ہیں!
تازہ ترین