• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روزآشنائی … تنویرزما ن خان، لندن
کیا برطانیہ کا شیرازہ بکھرنے والا ہے۔ یہ تشویش بھرا سوال ہر برطانوی کے ذہن میں گردش کررہا ہے۔ بریگزٹ پر شہریوں کو حکومت کی کنفیوژ پالیسی کا خوف ہے کہ اگر بریگزٹ بغیر ڈیل کے مارچ میں لاگو ہوگیا تو سکاٹ لینڈ اورآئرلینڈ، انگلینڈ اور ویلز سے علیحدگی اختیار کرسکتے ہیں۔ یہ تشویش بھی شدت سے پائی جاتی ہے کہ جب برطانیہ ای یو سے اپنی علیحدگی مکمل کرلیتا ہے تو برطانیہ کی معیشت شدید کساد بازاری میں داخل ہو جائے گی۔ ایسی صورت حال سے صرف برٹش گورے ہی پریشان نہیں ہیں بلکہ تارکین وطن بھی جو کئی دہائیاں گزارنے کے بعد ایسا سوچنے لگے ہیں کہ برطانیہ کی گرم سرد مٹی نے انہیں قبول نہیں کیا۔ گزشتہ دنوں گورنر بنک آف انگلینڈ نے کہا ہےکہ No Deal بریگزٹ کی صورت میں برطانیہ میں پراپرٹی 35فیصد نیچے تک جا سکتی ہے پورے یورپ کی نگاہیں اس بات پر لگی ہوئی ہیں کہ نو ڈیل بریگزٹ کی صورت میں یورپی یونین سے طلاق یافتہ برطانیہ اپنی یکجہتی کو کیسے برقرار رکھ سکے گیا۔ میں جب تین سو سال پیچھے تاریخ پر نظر دوڑاتا ہوں تو برٹش راج کا ایسا عروج نظر آتا ہے جس میں اس سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اب کنٹرول ختم ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اپنا ہی ملک سنبھالنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کا آئر لینڈ پر آٹھ سو سال نو آبادیاتی تسلط اتنا کمزور پڑ گیا کہ آئر لینڈ تقسیم ہوگیا۔ اس وقت برطانیہ کو سمجھ آچکی تھی کہ وہ اکیلا یورپ میں جرمن دبائو کو برداشت نہیں کرسکے گا۔ جس وجہ سے امریکی قرضہ جات اورٹیکنالوجی پر انحصار کو بڑھا دیا گیا ۔ جنگ فرانس کو درگزر کرنے کی کوشش کی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ نصف آئر لینڈ ہاتھ سے نکل گیا شمالی آئر لینڈ کے یونینسٹ کو برطانیہ کے ساتھ رہے لیکن جنوبی آئر لینڈ جسے اب ریپبلک آف ائرلینڈ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے آزادی اور خود مختاری حاصل کرلی۔ 1921میں آزاد ہوگئے آج ناردرن آئر لینڈ جو کہ برطانیہ کا حصہ تو ہے لیکن ای یو سے علیحدگی کی صورت میں اس کی برطانیہ کے ساتھ جڑے رہنے کی حیثیت چیلنج ہو جائے گی۔ برطانیہ نے ایکٹ 1920 کے تحت انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ برطانوی کالونی بننے سے پہلے آئر لینڈ ایک آزاد ملک تھا۔ اسی طرح آج سکاٹ لینڈ کی حیثیت بھی متزلزل ہے۔ کیونکہ سکاٹ لینڈ بھی تین سو سال قبل تک ایک آزاد ملک تھا ۔ اس کے بعد برطانیہ کے ساتھ ایکٹ آف یونین 1707کے تحت گریٹ برٹن کی تشکیل کا سبب بنا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی ماضی قریب 2014میں سکاٹ لینڈ کی باقی برطانیہ سے علیحدگی کی تحریک چل چکی ہے جس کے نتیجے میں ریفرنڈم ہوا تھا۔ گو کہ اس میں 55فیصد لوگوں نے برطانیہ کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ جبکہ 45فیصد نے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ تاہم اب جبکہ 23جون2016ء کو ای یو چھوڑنے یا ساتھ رہنے (بریگزٹ) کا ریفرنڈم ہوا تو سکاٹ لینڈ نے بڑی واضح اور بھاری بلکہ لینڈ سلائیڈ اکثریت کے ساتھ یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیا۔ اب اگر برطانیہ ای یو سے علیحدہ ہوتا ہے تو آئر لینڈ کی طرح سکاٹ لینڈ بھی انگلینڈ سے علیحدگی کی جانب چل پڑے گا۔ سکاٹش نیشنل پارٹیSNP پہلے ہی ای یو میں علیحدگی کی صورت میں اپنی ممبر شپ کے لئے مذاکرات کررہی ہے اس لحاظ سے اگلے چھ مہینے برطانیہ کے مستقبل کیلئے بے حداہم ہیں۔ ویلز بھی پانچ سو سال قبل تک ایک علیحدہ آزاد ملک تھا۔ اس طرح برطانیہ بنیادی طور پر چار ملکوں کے ملاپ و الحاق سے بننے والا ملک ہے۔ مختلف معاہدات نے اس کی یکجہتی کو قائم رکھاہوا ہے جس میں بنیادی طور پر تو عوام کی رضا مندی کا عمل دخل ہے۔ لیکن ہم سمجھ سکتے ہیں کہ برطانیہ کی ایک نسل جنہوں نے یورپ کے ساتھ 1975کے بعد سے لیکر آج تک ایک ملک جیسا ماحول ہی دیکھا ہے۔ ریفرنڈم میں ان سے علیحدگی کے نقصانات وغیرہ کے حقائق چھپائے گئے تھے۔ جن کا انہیں اب ملک کی معیشت اور یکجہتی دائو پر لگتے دیکھ کر احساس ہو رہا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون بھی اپنے ریفرنڈم کے اقدام کو غلطی کہہ چکا ہے کیونکہ اب انڈیا اور افریقہ کی نو ابٓادیوں کی طرح اپنی ہی اکائیاں ہاتھ سے نکلتی نظر آرہی ہیں۔ جرمی کوربن نے کہا ہے کہ اگر اب دوسرا ریفرنڈم کروایا جائے تو لیبر پہلے سے 15لاکھ زیادہ ووٹ لے کر جائے گی۔ آج کل برطانیہ میں سیاسی پارٹیوں کی سالانہ کانفرنسوں میں اس بات پر اتفاق بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ آئندہ مارچ میں بریگزٹ کے فیصلے پر علمدرآمد ہوچکنے سے پہلے دوسرے ریفرنڈم پر اتفاق رائے کرلیا جائے۔ اس میں سیاسی پارٹیوں کو قباحت یہ ہے کہ وہ اب اگر پچھلے ریفرنڈم کے برخلاف جاتے ہیں ہیں تو انٹی ای یو ووٹ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس لئے پارٹی کا ایک بڑا حصہ ریفرنڈم کی بجائے جنرل الیکشن کے حق میں ہے تاکہ لیبر اکثریت سے اقتدار میں آکے ای یو کے ساتھ نئے سرے سے بہتر شرائط پر بات کرسکے، تھریسامے اپنی کنفیوژ پالیسی کی وجہ سے پارٹی میں اپنی مقبولیت تو کھو چکی ہیں لیکن اقتدار سے چمٹے رہنے پر بضد ہیں۔ تاہم امید رکھنی چاہئے کہ برطانوی سیاست کے کرتا دھرتا وہاں تک نوبت نہیں پہنچنے دیں گے اور برطانیہ کو صرف انگلینڈ اور ویلز تک محدود ہونے سے بچالیں گے۔
تازہ ترین