• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ جو صبح وشام جمہوریت کی رٹ لگاتے ہیں، شاید اس لب و لہجے کے عادی نہ ہوں لیکن ہم جو مادر جمہوریت کہلانے والے معاشرے میں عرصہ دراز سے آباد ہیں، حاکم ِ وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تنبیہ بھی کر سکتے ہیں اور گھرک بھی سکتے ہیں۔ خبر نہیںہے، حقیقت ہے کہ تخت اقتدار پر ابھی چند روز پہلے براجمان ہونے والوں نے دارالحکومت اسلام آباد میں ملک کی قومی نشر گاہ کی عمارت کسی دولت مند کو پٹّے پر دینے کی ٹھانی ہے اور ریڈیو پاکستا ن کے جمے جمائے نظام کو اٹھا کر کسی معمولی عمارت میں منتقل کرنے کافرمان جاری کردیا ہے۔ یہی نہیں، کم فہمی کے شاہکار ان لوگوں کا یہ فرمان ہے کہ ریڈیو اسٹیشن تو ایک کمرے میں بھی قائم ہو سکتا ہے۔ دو چار چیزیں ہر ہوش مند کے پلّے ہونا لازمی ہے، انسان سب کچھ ہو، ان دو چار چیزوں سے عاری نہ ہو۔ بھلا کوئی بھی ذی ہوش سوچ بھی سکتا ہے کہ نشر گاہ، جو کسی سیاسی جماعت یا چار پانچ سال کی حکومت کی ملکیت نہیں ہوتی،اسے اٹھا کر کسی گاہک کو پکڑا دیا جائے۔قوم کا یہ اثاثہ کوئی سچ پوچھے تو اس کا پرچم بردار ہوتا ہے۔ قومی ائرلائن کی طرح ریڈیو کے ذریعے ملک و ملت کا نام دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچتا ہے۔ملک میں بغاوت یا شورش ہو تو سب سے پہلے ریڈیو اسٹیشن کو کیوں محفوظ کیا جاتا ہے۔اور ریڈیو بھی ایسا کہ جو اس لمحے وجود میں آیا جس گھڑی خود وطن اس سرزمین پر قائم ہوا تھا۔ میں ان لوگوں میں شامل ہوں جو برصغیر کے اس علاقے میں رہتے تھے جس کے بارے میں معلوم تھا کہ زمین کا وہ ٹکڑا پاکستان نہیں کہلائے گا۔ اس دور دراز علاقے میں لاہور ریڈیو کاوہ اعلان سن کر ہماری جبینیں جھک گئی تھیں کہ پاکستان کا قیام مبارک ہو۔ کیا اب اسی آواز، اسی جذبے اور اسی وطن پرستی کی دولت کو ایک کمرے میں قید کرکے ملک کے مالی بحران کو ختم کیا جائے گا۔ پہلے یہی ستم کچھ کم تھا کہ کراچی میں ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت میں آگ لگی اور عمارت کو بحال کرنے کی بجائے ریڈیو کو وہاں سے دیس نکالا ملا۔ کیسی شاندار عمارت تھی، کیسا پر شکوہ ٹھکانہ تھا جسے کیسے کیسے اعلیٰ خوبیوں کے مالک لوگوں نے آباد کیا تھا ۔ روس نے پاکستان کو دو بہت طاقت ور ٹرانسمیٹردئیے ۔ ایک کراچی اور دوسرا ڈھاکہ کے لئے تاکہ ملک کے یہ دوحصے ہمنوا بن کر رہیں۔وہ تدبیر تو خیر نصیب دشمناں ہوئی، یہ ضرور ہوا کہ اس ٹرانسمیٹرکی بدولت ریڈیو پاکستان کی عالمی سروس کو فروغ ہوا اور پاکستان کی آواز دنیا بھر میں سنی جانے لگی۔مجھے اسلام آباد میں ریڈیو پاکستان کی عمارت میں داخلے کی سعادت حاصل ہوچکی۔ ریڈیو والوں نے ذہین نوجوانوں کی بڑی کھیپ بھرتی کی تاکہ پاکستان کی نشریات میں نئی روح پھونکی جائے۔ انہوں نے مجھے دعوت دی کہ ان نئے براڈکاسٹروں کو کچھ اپنے تجربات سے آگاہ کروں ۔ وہ کیسے اچھے لمحات تھے جب ہم پچاس ساٹھ افراد نے گھل مل کر باتیں کیں اور اپنے اپنے تجربات کا تبادلہ کیا۔ اس کے علاوہ ایک روز پورے ریڈیو اسٹیشن کے چھوٹے بڑے ملازمین اور افسروں کی بیٹھک ہوئی اور مجھ سے میری ریڈیو کی روداد سنی گئی ۔یہ رویہ اچھا لگا جب نشریات کی دنیا کو پچیس تیس سال تک برتنے والے براڈکاسٹر سے پوچھا گیا کہ اس دنیا کو آپ نے کیسا پایا۔ اسے جانے دیجئے، جو بات کہنے کی ہے وہ یہ کہ ریڈیو پاکستان کی اسلام آباد کی اس عمارت کو جس سلیقے اور اہتمام سے آراستہ کیا گیا تھا اس نے مجھے بہت متاثر کیا۔ خاص طور پر قدیم اور جدید ریڈیائی نشریات کی ریکارڈنگز کوجس احتیاط سے ترتیب وار جمایا گیا تھا اور جسے اب نئی ٹیکنالوجی میں ڈھالا جارہا تھا اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ ریڈیو کا عملہ کیسے جی لگا کر کام کر رہا ہے۔اس طرح کے کام تنخواہوں کے بدلے نہیں ہوا کرتے تھے۔ یہ ایسا کار ثواب ہے جس کی قدر کرنی چاہئے۔(بی بی سی جیسے ادارے کی اردو نشریات کی بہت سی ریکارڈنگز محفوظ نہ رہ سکیں)۔مگر قدر کرنا ہر ایرے غیرے کے بس کا روگ نہیں۔ جسے نشریات کی الف بے پے بھی نہ آتی ہو ۔ جس نے کبھی مائیکروفون کے آگے ایک عمر نہ لگائی ہو۔ جسے یہ بھی خبر نہ ہو کہ خبر کیسے ترتیب پاتی اور کیونکر ہوا کی لہروں پر آگے پہنچائی جاتی ہو۔ جس نے کبھی ریڈیو کی خوبیوں کو جانا ہی نہ ہو اور جس کے کاسہ سر میں یہ خیال سمایا ہوا ہو کہ ریڈیو اسٹیشن ایک کمرے میں بھی چلایا جا سکتا ہے ، اس سے یہ امید رکھنا دیوانگی ہے کہ وہ نشریات کے قومی ادارے کو اور اس کی جانفشانی کو سراہے گا اور اس کے لئے اس کے منہ سے واہی تباہی کے علاوہ کبھی کوئی کلمہ خیر بھی نکلے گا۔(وزیر اطلاعات ابھی اناڑی ہیں۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ غسل خانے میں اور بھی بہتر ریڈیو اسٹیشن بن سکتا ہے، یوں لگے گا جیسے سیاست دانوں کی آواز آسمان سے نازل ہورہی ہے)۔مجھے دلّی میں آل انڈیا ریڈیو کی وہ تاریخی گول عمارت دیکھنے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے جو انگریز چلتے وقت انہیں سونپ گئے تھے اور جسے انہوں نے آج تک سینے سے لگا کر رکھا ہے۔ وہ عمارت نہیں، تاریخ کی راہ کا بڑا سنگِ میل ہے۔

اب آخری اور ایک ذاتی بات جسے چاہیں توتنبیہ کہہ لیں۔ میری ان گنت دعاؤں اور منتّوں مرادوں سے پاکستان میں جو حکومت قائم ہوئی ہے، وہ تبدیلی کے نام پر اچھے بھلے چلتے ہوئے کاموں پر جھاڑو پھیرے گی اور قومی نشر گاہ جیسے اداروں کو خاک میں ملائے گی توسن رکھے۔میں اس کی حمایت سے ہاتھ اٹھالوں گا اور اعلان کروں گا کہ دعا گو خیر خواہوں کی فہرست سے میرا نام کاٹ دیاجائے۔ ہر چند کہ مجھے اُس بڑھیا کی حکایت یاد آتی ہے جس کا مرغ ہر صبح تڑکے بانگ دیتا تھااور بستی والے شکایت کرتے تھے کہ وہ ان کی نیندیں حرام کرتا ہے۔لوگوں کی مسلسل شکایتوں سے تنگ آکر ایک روز بڑی بی نے اپنا مرغا بغل میں دبایا اور یہ کہتی ہوئی بستی سے نکل گئیں کہ دیکھتی ہوں اب تم لوگ کیسے جاگو گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین