• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالیہ ذوالقرنین، لاہور

’’حارث! اپنی کاپی لائیں اور کام دکھائیں، حارث… حارث…‘‘!

مس عائشہ کے تیسری بار آواز دینے کے باوجود متوجہ نہ ہونے پر ساتھ بیٹھے ارسلان نے اس کا کندھا ہلایا۔

’’جی، جی کیا ہوا؟‘‘ حارث نے بوکھلا کر کہا۔

’’کچھ نہیں ہوا، مس نے تمہیں 3 بار آواز دی اور تم نے کوئی جواب نہیں دیا‘‘۔ ارسلان نے ناگواری سے کندھا ہلانے کی وجہ بیان کی۔

’’جی مس! سوری، آپ کی آواز سن نہیں پایا‘‘۔ حارث نے سر جھکاتے ہوئے شرمندگی سے کہا۔

’’کوئی بات نہیں بیٹا! ایسا کبھی کبھی ہو جاتا ہے۔ آپ بریک میں اسٹاف روم میں میرے پاس آئیں‘‘۔ مس عائشہ نے اس کی شرمندگی کم کرتے ہوئے کہا اور بلیک بورڈ پر سوال سمجھانے لگیں۔

حارث آٹھویں جماعت میں درمیانے درجے کا طالب علم تھا۔ ذہین ہونے کے باوجود اس کی کبھی جماعت میں کوئی پوزیشن نہیں آئی تھی، جس پر مس عائشہ بھی حیران تھیں اور آج اس کو ذہنی طور پر غیر حاضر دیکھ کر انہوں نے اس سے بات کرنے کے لیے اس موقع کو غنیمت جانا اور اسے اسٹاف روم میں بلا لیا۔ وہ اسٹاف روم کے باہر کھڑا تھا۔

’’حارث، اندر آجائیں‘‘ مس عائشہ نے اسے دروازے پر کھڑے دیکھا تو آواز دی۔

’’جی مس‘‘، حارث نے سر جھکاتے ہوئے کہا۔

’’بیٹھو بیٹا‘‘، مس عائشہ نے حارث کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئیں۔

’’دیکھیں حارث، والدین اور استاد دنیا میں دو ایسے رشتے ہیں، جو اپنے بچوں اور شاگردوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور زندگی میں کسی مقام پر ان کا رک جانا انہیں تشویش میں مبتلا کر دیتا ہے۔ آپ ایک اچھے اور ذہین لڑکے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ کی کامیابی کا وہ معیار نہیں جو ہونا چاہیے اور ایک بات یاد رکھیں کہ مسئلے حل کرنے سے سلجھتے ہیں پریشان ہونے سے نہیں۔ آپ مجھے اپنا مسئلہ بتائیں تاکہ ہم مل کر اس کا حل نکالیں‘‘۔

’’ مس، وہ… وہ… ‘‘ حارث اٹک اٹک کر بولتے ہوئے پھر خاموش ہوگیا۔

’’ہاں… ہاں… بولیں بیٹا‘‘ مس عائشہ نے پیار سے اس کی ہمت بندھاتے ہوئے کہا۔

’’مس اصل میں ندیم کے بابا نے اسے نیا موبائل تحفہ میں دیا ہے۔ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میرے پاس بھی ایسا ہی فون ہو، صرف یہ ہی نہیں باقی اور بچوں کے پاس جو جو اچھی چیزیں ہیں، میرا دل کرتا ہے کہ میرے پاس بھی سب کچھ ویسا ہی ہو‘‘۔ حارث نے آہستگی سے کہا۔

’’تو یہ بات ہے، بیٹا پہلے تو ایک بات سمجھ لیں کہ اللہ کریم نے ہر چیز ہر انسان کو نہیں دی، اس کی تقسیم کا انداز مختلف ہے۔ وہ ہمارا خالق ہے اور ہم سے بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے اور کس وقت بہتر ہے لیکن اس نے انسان کو کوشش کرنے کے لیے اس کے اندر خواہشات رکھ دیں تاکہ وہ اس کی طلب میں آگے بڑھے اور جدوجہد کرے۔ ‘‘

’’لیکن مس، مجھے تو خواہشات پریشان کرتی ہیں ایسا کیوں ہے؟‘‘ حارث نے بے بسی سے کہا۔

’’خواہشات کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے، مگر اس کے پیچھے پریشان ہونا انسانی کمزوری۔ چنانچہ جب بھی کوئی خواہش آپ کے دل میں پیدا ہو، اس پر غور کریں کہ یہ چیز آپ کی دنیا کے لیے بہتر ہے یا آخرت کے لیے۔ اگر آخرت کے لیے بہتر ہو تو اس کے لیے کوشش کریں، کیونکہ اس کا پھل مل کر رہے گا اور اگر دنیا کے لیے ہے تو سوچیں کہ یہ میری ضرورت ہے یا سہولت۔ اگر ضرورت ہے تو کوشش کریں اور اگر سہولت ہے تو نظر انداز کرنے کو کوشش کریں۔ اس طرح آپ کبھی پریشان نہیں ہوں گے‘‘۔ مس عائشہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’مس تو کیا دنیاوی چیزوں کی خواہش کرنا گناہ ہے؟‘‘ حارث نے معصومیت سے سوال کیا۔

’’نہیں بیٹا، گناہ نہیں ہے۔ اس کے لیے تو ہمارے پیارے رب نے ہمیں خود دعا بتائی ہے کہ، ’اے ہمارے رب ہمیں دنیا و آخرت میں ہر طرح کی خیر عطا فرما اور قبر کے عذاب سے بچا‘۔ مگر ہم الحمدللہ مسلمان ہیں اور ہمارے لیے اللہ رب العزت نے خواہشات کا معیار آخرت کی فکر رکھا ہے، اسی کی طرف توجہ دلائی ہے اور اسی کا شوق۔ اور کیا کبھی آپ نے ٹی وی پر پریڈ میں طیاروں کو رنگا رنگ دھواں چھوڑتے ہوئے اڑتے دیکھا ہے؟‘‘ مس عائشہ نے حارث کی طرف دیکھا اور اس کا سر اثبات میں ہلتا دیکھ کر اپنی بات دوبارہ شروع کی۔

’’خواہشات بھی طیاروں سے نکلتے رنگین دھوایں کی مانند ہوتی ہیں، جن کے پیچھے انسان ساری زندگی چھوٹے بچے کی طرح بھاگتا ہے مگر کچھ ہی دیر بعد طیارے ہوتے ہیں نہ رنگ دار دھواں، یہ رنگین دنیاوی خواہشات تار عنکبوت یعنی مکڑی کے جالے کی طرح اس کو اپنی ظاہری خوبصورتی میں جکڑ لیتی ہیں اور وہ ساری زندگی ان سے نکل ہی نہیں پاتا یہی حال انسانی زندگی کا ہے اور اسی کیفیت کو ہمیں جاننے والا رب قرآن مجید میں اس طرح بیان کرتا ہے ’’انسان کہے گا، اے کاش، میں نے اپنی زندگی کے لیے آگے کچھ بھیجا ہوتا‘‘۔

مس عائشہ نے ایک گہرا سانس لے کر حارث کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تیرتے نظر آئے۔ ’’مس افسوس میں نے اپنا کتنا قیمتی وقت فضول دنیاوی خواہشات کے حصول کی چاہ میں ضائع کردیا‘‘۔

’’ہاں بیٹا مگر ابھی کچھ نہیں بگڑا آپ اس کے لیے اللہ کریم سے معافی مانگ لیں، کیونکہ ہمیں اپنے گزارے جانے والے وقت کا آخرت میں حساب دینا ہے اور آئندہ کے لیے اس سے خود کو بچائیں اور ان چیزوں کی خواہش کریں جن کا اللہ رب العزت نے ہمیں خود شوق دلایا ہے اور ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے آپ کا فی الحال اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کرنا آپ کے وقت کا بہترین استعمال ہے۔‘‘

’’مس آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے گمراہ کن رنگین خواہشات کے پیچھے بھاگنے سے بچا لیا۔ ان شاءاللہ اس سال میں جماعت میں اول آؤں گا‘‘۔ حارث نے جوش سے کہا۔

’’ان شاءاللہ چلیں، اب جماعت میں چلیں وقفہ ختم ہونے والا ہے‘‘۔ مس عائشہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور حارث کو ساتھ لیے اسٹاف روم سے باہر نکل گئیں۔

تازہ ترین