• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی ننھی زینب کا واقعہ ذہن سے محو نہ ہوپایا تھا کہ بچوں کی اغوا کی خبریں ایک بار پھر عام ہونے لگی ہیں، جس سے والدین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ آج کل تو والدین ویسے بھی بچوں کواکیلا نہیں چھوڑتے لیکن گھر کا بھید ی بھی لنکا ڈھا سکتا ہے، عموماً گھر میں پڑنے والی ڈکیتیوں اور اغواء برائے تاوان کے کیسز میں اکثر گھر میں کام کرنے والوں یا بعض اوقات قریبی رشتہ داروں کو ہی ملوث پایا گیا ہے، اسی لئے وقت کا تقاضا یہی ہے کہ کسی پر بھی اندھا اعتماد کرنے کے بجائے والدین کو بچوں کی حفاظت کی ذمہ داری خود لینی ہوگی اور اس ضمن میں انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، چہ جائے کہ خدانخوستہ بعد میں افسوس کرتے رہ جائیں کہ کاش کوتاہی نہ کی ہوتی ۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ بچوں کو بھی اس حوالے سے آگہی دینی چاہیے۔ بچپن، زندگی کا خوبصورت ترین وقت ہوتاہے، تاہم بعض بچوں یا بچیوں کے ساتھ پیش آنے والے اغو ا اورجنسی زیادتی جیسے واقعات کے منفی اثرات عمر بھر ان کا پیچھا نہیں چھورتے۔ اس سلسلے میں والدین کیلئے کچھ مشورے ہیں، جن پر انھیں عمل کرنا چاہیے۔

بچوں کو دوست بنائیں

والدین کو چاہیے کہ اپنی ذمہ دار ی کا احساس کرتے ہوئے بچوں کو دوست بنائیں، ان کی خاموشی کو توڑیں اور ان میں اعتماد پیدا کریں۔ والدین اس بات کی اہمیت کو سمجھیں اور بچوں کے ساتھ اس موضوع پر بات کرکے انہیں آگاہی دیں، بچوں کو ان کی عمرکے مطابق اپنی زیر نگرانی رکھیں۔ اجنبی لوگوں کے ساتھ انہیں نہ بھیجیں اورانہیں اپنی حفاظت کرنے کے بارے میں بھی بتائیں۔

غیر ضروری لاڈ پیار کی جانچ

– بچوں کو سکھائیں کہ کوئی غیرضروری طور پر پیار کرے یا سر کے علاوہ دیگر اعضا کو چھونے کی کوشش کرے تو اس کی بات ماننےسےسختی سےانکار کریں اور والدین کوفوری بتائیں۔ بچے کو بتائیںکہ آئسکریم یا کوئی اور کھانے کی چیز یا کھلونا کسی اجنبی سے نہ لے، کسی بھی قسم کی لالچ میں اجنبی کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دے۔

اسکول کے عملے پر نظر رکھیں

اساتذہ کو چاہیے کہ اسکولوں میں بچوں کے مسائل پر نظر رکھیں،کہیں کوئی وین والا، مالی،چوکیدار، پی ٹی ماسڑ وغیرہ بچوں کوتنگ تو نہیں کررہا۔

رشتہ داروں پر نظر

بچے جنسی زیادتی کا شکار گھرمیں بھی ہوسکتےہیں، انہیں کسی ملازم یا رشتہ دارکے کمرے میں اکیلے جانے سے منع کریں۔

ٹیوشن پر نظر

والدین بچوں کو ٹیوشن لینے کے دوران اساتذہ کے ساتھ ایسے کمرے میں بٹھائیں، جہاں سے وہ ان پر نظر رکھ سکیں، ساتھ ہی بچوں کو اکیلا گھر سے نہ نکلنے دیں، کھیل کامیدان ہو یاٹیوشن سینٹر، انھیں خود ہی چھوڑنے جائیں اور خود ہی لےکر آئیں۔

میل جول پر نظر

جب بھی آپ کا بچہ اپنے دوستوں کے ہمراہ کھیلنے کے لئے باہر جائے تو یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس پرنظر رکھیں کہ وہ کس قسم کے لوگوں میں گھلتا ملتا ہے اور کیسے کھیلوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔

ہچکچاہٹ

اگر آپ کا بچہ کسی بڑے کے ساتھ کہیں باہرجانے میں یا تنہائی میں وقت گزارنے میں ہچکچاتا ہے، تو کبھی بھی اس کو مجبور نہ کریں بلکہ وجہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ بچہ ایسا کیوں کرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی نظر رکھیں کہ کہیں آپ کا بچہ بڑی عمر کے کسی مخصوص شخص کی صحبت تو پسند نہیں کرتا۔

رویے میں تبدیلی

اگر بچے کے رویے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی محسوس کریں تو اسے نظر انداز مت کریں بلکہ کوشش کریں کہ مختلف نوعیت کے سوالات کے ذریعے آپ اس تبدیلی کی وجہ جان پائیں۔

گُڈ ٹچ ۔ بیڈ ٹچ

آج کل میڈیا پرGood Touch اورBad Touchکے بارے میں کافی آگاہی فراہم کی جارہی ہے۔ والدین کو خود بھی چاہیے کہ وہ بچوں کو اس بارے میں بتائیں اور ان سے پوچھیں کہ کن لوگوں کے اور جسم کے کس حصے پر انہیں چھونے پر بُرا محسوس ہوتاہے۔ ایسے ہی جب آپ کے بچے تین سال کی عمر کو پہنچیں تو انہیں جسم کے مخصوص اعضاء کو دھونے کا طریقہ سکھائیں اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کریں کہ کبھی کسی کو ان حصوں کو چھونے کی اجازت نہ دیں۔

اسکول کا انتخاب

کوشش کریں کہ اسکول کا انتخاب کرتے وقت اپنے گھر کے کسی قریبی اسکول کا انتخاب کیجیے، جہاں روزانہ کی بنیاد پر آپ خود بچے کو پک اینڈ ڈراپ کر سکیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ، ویگن، بس، ٹیکسی یا ڈرائیور رکھنے سے جان چھڑائیں۔

دوستوں پر نظر رکھیں

بچوں کے دوستوں سے دوستی کیجیے۔ فیس بک اور سوشل میڈیا پر بھی اپنے بچوں کو اپنی فرینڈ لسٹ میں شامل رکھیے اور ان کے نیٹ فرینڈز کو بھی چیک کرتے رہیے۔ جس دوست کے حوالے سے ذہن میں ذرا سا بھی شبہ ہو، اس کو اچھی طرح کھنگال لیجیے اور اگر دل مطمئن نہ ہو تو دوستی ہی دوستی میں اپنے بچے کو اس مشکوک دوست سے دور کر دیجیے۔ بچوں کی دوستی کو ان کے ہم عمر دوستوں تک محدود کیجیے ۔ بڑی عمر کے دوست، اساتذہ، کزنز، محلےدار اور اکیڈمی فیلوز سے محتاط رہیے۔

نوکروں اور ماسیو ں پر نظر

نوکروں اور ماسیوں کو بہت احتیاط اور چھان بین کرنے کے بعد ملازمت پر رکھیں اور ان کی موجود گی میں بچوں کو اکیلا نہ چھوڑیں، ہر وقت ان کے آس پاس رہیں۔ 

تازہ ترین