• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کمپیوٹر کی ایجاد ریاضیاتی اصولوں پر ایک حسابی مشین کے طور پر سامنے آئی لیکن کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آگے چل کر یہ سائنس و ٹیکنالوجی، ریسرچ اور پروڈکشن میں سب سے زیادہ استعمال ہوگا،جس کے ذریعےکام سہل ہوجائے گا۔پہلے کمپیوٹر کی بھاری جسامت کے لیے ایک وسیع و عریض کمرہ درکار تھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے نینو ٹیکنالوجی متعارف ہوئی اور مختصر ترین ٹیکنالوجی آلات نے جگہ لی ۔میکنٹوش پہلا چھوٹا کمپیوٹر تھا،جس نے پبلشنگ دنیا میں کمپوزنگ کی راہ نکالی۔ اب مختصر کمپیوٹر، اسمارٹ فون کی صورت ہماری جیبوں میں ہے۔ سپر کمپیوٹر اب ایک باریک سی چپ کے ذریعے ہینڈی ہوگیا ہے اور کوانٹم کمپیوٹر بھی سامنے آگیا ہے، جو روشنی کی رفتار سے کام کررہا ہے۔ ایسے میں کمپیوٹیشنل سوچ، ادراک و شعور (Computational thinking) جیسی سائنس وجود میں آنا کوئی اچنبھا نہیں کیونکہ انسانی دماغ بھی کمپیوٹر کی مانند کام کرتا ہے، جس کی یادداشت ڈاؤن لوڈ فائلز کی طرح ہوتی ہے۔جب ضرورت ہوتی ہے وہ فائل کھول کر دیکھی جاتی ہے ۔

بچوں کی تعلیم میں کمپیوٹیشنل سوچ کا استعمال

کولمبیا یونیورسٹی کی پروفیسر کمپیوٹر سائنس، جینیٹی میری ونگ، نےہر ایک بچے کی تعلیم کے لیے کمپیوٹیشنل سوچ کا استعمال کرتے ہوئےK-12کو نصاب کا لازمی جزو قرار دیا۔ اس میں بچوں کو سائنس، ریاضی، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے مضامین پڑھانے کے لیے کلاس روم میںکمپیوٹیشنل تھنکنگ کا استعمال کیا جاتا ہے۔اسے اکیسویں صدی میں تعلیم کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے۔اکیسویں صدی میں تعلیم و تربیت کے اجزائے ترکیبی میں انگریزی حرف ’’C‘‘ سے شروع ہونے والے سوچ اور علوم کے چارانداز ہائے نظر Communication (ابلاغ و ترسیل، میل جول، رابطہ)، Critical Thinking(ناقدانہ سوچ)، Colaboration (تعاون و اشتراک) اور Creativity(تخلیقیت ) شامل ہیں۔ 

اس میں پانچویں’’C‘‘ کمپیوٹیشنل تھنکنگ کو شامل کیا جاسکتا ہے، جو پیچیدہ مسائل کا حل ریاضیاتی و منطقی بنیادوں پر پیش کرتا ہے۔کمپیوٹیشنل سوچ کا اطلاق سائنسی علوم کے ساتھ سماجی علوم اور زبان و لسانیات میں بھی ہوتاہے۔کئی ملکوں میں طالب علموں کو کمپیوٹیشنل سوچ سے متعارف کروایا گیا ہے۔ ان میں برطانیہ صف اول پر ہے، جس نے2012ء سے اپنے قومی نصاب کو اکیسویں صدی کے مذکورہ بالا چار اجزاء سے متصف کیا ہے۔ دیگر ممالک میں سنگاپور، آسٹریلیا، چین،کوریا، امریکا اور نیوزی لینڈ ہیں، جہاںبڑے پیمانے پر اسکولوں میں کمپیوٹیشنل تھنکنگ کو متعارف کرانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔

کمپیوٹیشنل سوچ کیا ہے؟

کمپیوٹیشنل سوچ کے بے شمار معنی اور مفہوم میں سے ایک تعریف یہ بھی ہے کہ’کمپیوٹیشنل ادراک‘ سوچنے کا ایک ایسا عمل ہے، جس میں مسائل اور ان کا حل ایسے انداز میں کیا جاتا ہے، جیسے کمپیوٹر کرتا ہے۔اس کے تین مراحل تجرید و استخراج (Abstraction) یعنی مسئلے کی نوعیت وساخت،خُود کار سازی (Automation) یعنی حل کا اظہار اور تیسرا تجزیہ(Analysis) یعنی مسئلے کے حل کے لیے پیش رفت اور اس کا تجزیہ و جانچ پڑتال ہیں۔کمپیوٹیشنل سوچ کی تاریخ تو 1950ء سے شروع ہوئی لیکن اس اصطلاح کو سب سے پہلےافریقی نژاد امریکی ریاضی داں،کمپیوٹر سائنس داں اور ماہرِ تعلیم سیمور پیپٹ نے1980ء میں وضع کیا،جو مصنوعی ذہانت کے بانیوں میں 4شمار ہوتے ہیں اور انھوں نے زیست کا بیشتر وقت ایم آئی ٹی میں بحیثیت محقق بسر کیا۔اس کے بعد 1996 میں کمپیوٹیشنل سوچ کے چرچے ہوئے،جسےپیچیدہ مسائل کے حل کے لیے الگورتھم کے اصولوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔

مستقبل کمپیوٹیشنل سوچ کا ہے

آئندہ برسوں میں تعلیم و تدریس کا شعبہ کمپیوٹیشنل سوچ پر مبنی ہوگا،جس کے اثرات مستقبل کے تمام کیریئرز پرمرتب ہوں گے۔آپ استاد ہوں، وکیل ،تاجر،کسان یا پھر معالج، کمپیوٹیشنل سوچ اور ادراک کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں کر پائیں گے۔اس وقت بھی کمپیوٹر سائنس کا مستقبل تابناک ہے،جہاں انٹرپرینیورز سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر ٹیکنالوجی کی بدولت ای کامرس پر چھائے ہوئے ہیں۔ اس سوچ کو پروان چڑھانے میں بلاشبہ مصنوعی ذہانت کا قائدانہ کردار ہوگا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ جس طرح سائنسی علوم کی تدریس و تحقیق کمپیوٹرمیں ڈھل رہی ہے، ساتھ ہی پیداوار اور اس کو بڑھانے کے لیے مارکیٹ رجحانات کے تجزیے کمپیوٹر کے استعمال سے ممکن ہوگئے ہیں،اسے دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ہم نصابی کتابوں سے کہیں آگے اس کمپیوٹیشنل سوچ کے مالک ہوں گے، جہاں کسی بھی معلومات تک رسائی اور اس کی صداقت کو جانچنا پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہوگا۔ 

ایجوکیشن انالائٹکس ،سینسر پر مبنی ادویہ ،کمپیوٹیشنل کنٹریکٹس یا پھر کمپیوٹیشنل ایگری کلچر، اب آپ کوتمام علوم کی معلومات و تحقیق کے لیے کمپیوٹیشنل سوچ کو پروان چڑھانا ہوگا۔کمپیوٹیشنل سوچ کا تعلیم و تدریس میںعملی اطلاق دیکھنا چاہتے ہیں تو ایک بار’’وولف ریم لینگویج پروگرام‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ یہ کمپیوٹر کی ذہانت پر مبنی پروگرامنگ ہے،جس میں کھیل کھیل میں تعلیم کو بہت آسان بنا دیا گیا ہے۔سائنس جیسے مشکل مضامین بھی بچوں کا کھیل لگتے ہیں۔اس میں کسی بھی زبان کو سیکھنا پہلے سے زیادہ آسان ہوگیا ہے۔

اسمارٹ لرننگ کا جدید انداز

اگر آپ بیدار ذہن اور دلچسپی کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اکیسویں صدی میں آپ کو کمپیوٹیشنل سوچ کو بڑھانا ہوگا،جس میں سب سے زیادہ زور اس بات پر لگایا جاتا ہے کہ رٹا نہیں لگانا بلکہ چیزوں کو سمجھناہے۔اسمارٹ لرننگ کا یہ جدید انداز ہے، جس کے مستقبل پر دیرپا اثرات ہوں گے۔ جب ہر چیز خود کار ہوجائے گی تو ہمیں وہی شعبے بچا پائیں گے، جن میں کمپیوٹیشنل سوچ کا عمل دخل ہے۔برطانیہ کے قومی نصاب میں کمپیوٹیشنل سوچ کے اطلاق نے تعلیم و تدریس میں انقلاب برپا کردیا ہے۔اسی طرز کو پاکستان میں بھی اب پرائیویٹ اسکول ،کالج اور یونیورسٹیاں اپنا رہے ہیں۔ہمارے دور میں کاغذ قلم دوات ہوا کرتی تھی، اب بچوں کے ہاتھ میں ٹیبلٹس، اسمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ ہیں۔

نصاب سے آگے کمپیوٹیشنل سوچ

کمپیوٹیشنل سوچ کا اطلاق کسی بھی طالب علم کی تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال پر مبنی ہے، وہ پیچیدہ مسائل کو خالص ریاضیاتی بنیادوں پر حل کرنے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس صلاحیت کو استعمال کرنے والا کمپیوٹر پروسس اور پروگرامنگ کی طاقت اور تصورات کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ صرف سافٹ ویئر ،ہارڈ ویئر انجینئر نہیں ہوتا بلکہ کمپیوٹر کی مکمل تعمیر سازی پر ملکہ رکھتا ہے۔ 

کمپیوٹری سوچ ہر بچے کی تجزیاتی و ناقدانہ سوچ پر مبنی ہے، تاہم انسانی تخیل کے آگے کمپیوٹیشنل سوچ محدود ہے۔مسائل کو سوچنے، حل کرنے کی کمپیوٹری صلاحیت مصنوعی ذہانت کے ساتھ مل کر بھی انسانی ذہن کا مقابلہ نہیں کرسکتی، جو عدم سے وجود کی حیرت انگیز طاقت رکھتا ہے اور مسائل کو سوچنے کی یہی عادت آپ کو طے شدہ دائرے اور نصاب سے کہیں آگے تخلیقی صلاحیتوں سے ہم کنار کرتی ہے۔ 

تازہ ترین