• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے ہونے کے آخری مرحلہ میں گندم کی امدادی قیمت میں 14 فیصد اضافہ کے ساتھ 1200 روپے فی من مقرر کر کے جہاں ایک طبقہ کو سیاسی حالات اور متوقع انتخابات کے پس منظر میں فائدہ پہنچایا ہے، وہاں پاکستان کی آبادی کی اکثریت کا ماہانہ نہیں، روزانہ کا بجٹ بھی متاثر کر دیا ہے۔ اب انہیں روٹی دو یا چار روپے کی نہیں، سات سے آٹھ روپے تک میں ملے گی جبکہ ڈبل روٹی سے لے کر گندم کے حوالے سے تقریباً کھانے پینے کی ہر شے کے نرخوں میں گرانی کا کیا تحفہ ملے گا جو انہیں حکومت نے اس وقت دیا جب وہ اپنے قیام کی 45 ویں سالگرہ منا رہی ہے، 30 نومبر 1967ء کو بھٹو صاحب کی کابینہ کے پہلے وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ (4-K گلبرگ لاہور) پر پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس سے چند ماہ قبل صدر ایوب خان مرحوم کے ایک وقت پر چہیتے وزیر ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان تاشقند کے بعد جون 1966 میں استعفیٰ دے کر قومی سیاست میں آنے کا اعلان کیا تھا اس وقت قوم کی اکثریت نے انہیں ویلکم کہا۔ انہی انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی نے روٹی کپڑا اور مکان کا مسحور کن نعرہ لگایا۔ (یہ نعرہ 1950ء کی دہائی میں بھارت میں پہلے لگایا جا چکا تھا) اس کے علاوہ اسلامی سوشلزم کے نفاذ کا اعلان کیا۔ جس پر 113 کے قریب علمائے کرام نے اس اعلان کے خلاف فتویٰ بھی جاری کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی 1970ء میں مغربی پاکستان سے اکثریتی پارٹی کے طور پر ابھری۔ سیاست سے ہٹ کر اگر معیشت کی بات کی جائے تو حقائق یہ ہیں کہ 1970ء کے بعد سے لے کر آج تک روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کے مطابق عوام کو کچھ نہیں مل سکا بلکہ حقیقت میں ملک میں غربت، بے روزگاری، بدامنی اور دیگر مسائل بڑھتے رہے۔ یہ سلسلہ پیپلز پارٹی ہو یا دوسری سیاسی حکومتوں سمیت فوجی حکمران، ہر دور میں پُر کشش نعروں سے وقت پاس کیا جاتا رہا اور عوام کی اکثریت اب بھی روٹی کپڑا اور مکان کی سہولت بلکہ نعمت سے محروم چلی آ رہی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ہمارے ملک میں 70 فیصد سے زائد افراد بالواسطہ اور بلا واسطہ طور پر فوڈ سکیورٹی کے مسئلے سے دوچار ہیں 40 فیصد سے زائد افراد کی معاشی حالت تو قابل رحم نظر آ رہی ہے۔ صرف 10 فیصد سے 12 فیصد افراد مطمئن اور خوشحال نظر آ رہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ فیصلہ آئندہ انتخابات میں دیہی ووٹرز کا ووٹ لینے اور جاگیرداروں کو ہاتھ میں رکھنے کے لئے کیا گیا ہے۔ جو بظاہر کم نظر آ رہے ہیں۔ مگر طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، یہ وڈیرے اور جاگیردار (جس میں صدر زرداری سے لے کر میاں نواز شریف تک) ہیں۔ اس وقت ملک کی تحریک انصاف سمیت کوئی بڑی سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے جس پر وڈیرے قابض نہ ہوں۔ ایم کیو ایم کے پاس اگر دیہی زمینیں نہیں ہیں تو کراچی وغیرہ میں قیمتی اربن پراپرٹی بھی انہی کے حامیوں کے پاس ہے۔ اس لئے حکومت اس اقدام کا نتیجہ اپریل یا اس سے قبل ملک کا اقتدار سنبھالنے والے نگران حکمرانوں کو بھگتنا پڑے گا کیونکہ اس فیصلے کا اطلاق گندم کی نئی فصل سے ہو گا۔ ملک کی اربن آبادی کی اکثریت واویلا کر رہی ہے کہ حکومت کا یہ اقدام صحیح نہیں ہے بلکہ یکم جنوری 2013ء سے جب بھارت کو MEN کا درجہ دے دیا جائے گا تو اس کا فائدہ اس کے برآمد کنندگان کو پہنچے گا ماہرین کے مطابق بھارت میں گندم کی پیداواری لاگت بھارتی کرنسی کے حساب سے 625 روپے فی من ہے جبکہ پاکستان میں 1170 روپے فی من کے قریب ہے پاکستان میں اس کی پیداواری لاگت بڑھنے کی وجہ سے فلور انڈسٹری بھی متاثر ہو گی اور ہماری برآمدات پر بھی اس کا اثر پڑ سکتا ہے بہتر تو یہی ہے کہ حکومت کاشتکاروں کو ڈیزل، کھاد، کیڑے مار ادویات اور دیگر زرعی استعمال کی اشیاء پر سبسڈی دے تاکہ گندم وغیرہ کی امدادی قیمت میں اضافہ کرے۔ اس سے پہلے 2008ء میں گندم کی قیمت 650 روپے سے بڑھا کر 950 روپے کرنے کے اثرات ابھی تک مہنگائی کے طوفان کی شکل میں قوم بھگت رہی ہے عملاً امدادی قیمت میں اضافہ کا سلسلہ صدر مشرف دور میں وزیراعظم شوکت عزیز نے کیا تھا جس کے بعد یہ سلسلہ اب بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اب حالات کا تقاضا ہے کہ غریبوں کے نام پر قائم ہونے والی حکومت کو عوام کی مشکلات کو بھی حل کرنا ہو گا۔ اب وقت نعروں کا نہیں، عملی طور پر عوام کو ریلیف دینے کا ہے۔ حقائق تو یہ ہیں کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان حالیہ 56 برسوں میں سے 46 سالوں سے گندم درآمد کر رہا ہے۔ یہ حال ہے ہماری زرعی پالیسیوں کا! ایک طرف ہم گندم پیدا کرنے والے 7 بڑے ممالک میں شامل ہیں تو دوسری طرف رقبہ کے لحاظ سے ہمارا نمبر 62 واں آتا ہے۔ عوام کو سستی روٹی کی فراہمی کا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے، کاشتکار اور زمیندار میں فرق کو سمجھا جائے۔ اس کے علاوہ ملک میں زرعی اجناس کو سٹوریج کے لئے بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پچھلے سالوں کی 30 فیصد سے زائد گندم سٹوریج نہ ہونے کی وجہ سے خراب ہوتی چلی آ رہی ہے۔ گندم کا مسئلہ قومی توانائی بحران کی طرح ایک گھمبیر معاملہ ہے جسے حل کرنے کے لئے تمام سٹک ہولڈرز سے مشاورت کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسے فیصلے اسلام آباد میں معمول کے مطابق ہوتے رہے تو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ ایک خواب بن کر پورے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرے گا ۔
تازہ ترین