• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ’’آئین نو‘‘ بعنوان ’’میری ٹائم آگہی ، تابناک پاکستان کی ایک راہ‘‘ میں میری ٹائم کی اصطلاح کے ابتدائی تعارف کے بعد کالم کے آخری پیرے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے قارئین پرواضح کیا گیا تھا کہ آئندہ کے ’’آئین نو‘‘ میں ’’میری ٹائم‘‘ پر تفصیلی بات ہوگی۔

پاکستان میں قومی ترقی و تعمیر کے مسلسل جاری سفر کی بڑی ضمانت، کالا باغ ڈیم کا مجوزہ لیکن عملاً متروک منصوبہ ہے لیکن اس کی حیران کن بے معنی مخالفت اور بہت معنی خیز(بھی) سیاسی مخالفت ایسی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی کہ کوئی قوم اتنے بڑے جاریہ قدرتی وسیلے کو یوں ضائع کرتی رہے، بعض سیاستدانوں نے اپنے سیاسی ابلاغ میں اس قومی ترقیاتی منصوبے کی مخالفت پر کمر باندھی ہوئی ہے جس پر ساری قوم اور کتنی ہی حکومتیں بےبس کردی گئیں۔ ایک طرف واٹر مینجمنٹ کے حوالے سے اتنا بڑا، ظالمانہ اور بے مثال کفران نعمت۔ دوسری جانب ہماری حکومتوں اور پوری قوم کی مدہوشی ملاحظہ فرمائیں کہ آج پاکستان کا وہExclusive Economic Zone(EEZ)جو ساحل سمندر سے 200ناٹیکل مائلز سمندری رقبے پر مشتمل ہوتا اور متعلقہ ملک کی پراپرٹی سمجھا جاتا ہے اس کے بیش بہا فائدے سے ہم بےبہرہ رہے اور پاکستان کے سمندری ساحل سے سمندر کی جانب ہمارا یہ رقبہ تو 350ناٹیکل مائلز(2لاکھ 90ہزار کلو میٹر) تک وسیع ہے، اقوام متحدہ کے قوانین میں اس گنجائش کا فائدہ اٹھا کر کہ اوشن بائونڈری کے حامل ممالک اپنےEEZ(سمندری رقبے) میں اضافہ کرواسکتے ہیں، پاکستان نے اپنا350EEZناٹیکل مائلز تک بڑھوالیا ہے یعنی اس میں 150ناٹیکل مائلز کا اضافہ کروالیا ہے۔ اس پر اقوام متحدہ میں پاکستانی مستقل مندوب محترمہ ملیحہ لودھی نے برسوں زبردست محنت کی۔ اب ہمارے سمندری ساحل سے سمندر کی جانب 350ناٹیکل مائلز پاکستان کی ریاستی سمندری حدود ہیں، اس میں تیل نکلے یا کوئی اور قدرتی وسیلہ یہ ہمارا ہوگا۔2لاکھ 90 اسکوائر کلو میٹر کے زیر سمندر میرین لائف پاکستان کی ہے۔اس سمندری رقبے سے زیادہ سے زیادہ اور جملہ اقسام کے لئے ہمیں میری ٹائم(سمندروں میں تجارت، دفاع مچھلی پانی اور روزگار کی دوسری سرگرمیوں کیلئے آمد و رفت اور رابطے کا نظام) سیکٹر ڈیویلپ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

امر واقع یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد ہمیں کراچی کی روایتی بندرگاہ تو مل گئی، جسے وسیع اور جدید بھی کیا گیا لیکن اب بین الاقوامی معیار کے مطابق تیزی سے انحطاط کا شکار ہے، جس سے ہماری بین الاقوامی تجارت کا معیار بھی گررہا ہے جو برآمدات کی کمی کی وجہ سے محدود بھی ہوچکا ہے۔ کراچی پورٹ کے علاوہ 850کلو میٹر پر گوادر کا فشریز ٹائون بھی مچھیروں کا قصبہ ہی رہا، جو دنیا میں سب سے گہرے سمندروں میں شامل ہوتا ہے، اس طرح یہ قدرتی بندرگاہ متصور ہوتا ہے۔ ایک بڑا نیک کام اللہ بخشے ہمارے مختصر مدت کے ایک گزرے وزیر اعظم فیروز خان نون نے کیا تھا کہ گوادر(جو قیام پاکستان کے بعد بھی7-6سال تک سلطنت عمان کا ریاستی رقبہ تھا) کو 5ارب روپے میں عمان سے خرید کر پاکستان میں شامل کرلیا تھا لیکن اس سودے کے بعد عشروں تک گوادر تا کراچی سینکڑوں کلو میٹر کا ہمارا سمندری ساحل ویران و بیابان پڑا ہے، حالانکہ اس کے ساتھ سمندر کا طلاطم منجانب قدرت ایک ا قتصادی انقلاب برپا کرنے کی دعوت فکر دیتا ہے، جو’’میری ٹائم سیکٹر‘‘ کو ڈیویلپ کرنے سے مشروط ہے اور اس انقلابی سیکٹر کی ڈیویلپمنٹ ہماری حکومت اور قوم میں میری ٹائم سیکٹر کی بیداری مشروط ہے۔

قارئین کرام! غور فرمائیں، عالمی سرد جنگ کے چالیس سالوں میں سوویت یونین کی پاکستان کے گرم پانیوں(سمندری ساحل اور ساحل)تک پہنچ، اس کی خارجہ پالیسی میں ٹاپ نیشنل انٹرسٹ کے طور پر ترقی یافتہ دنیا کے تھنک ٹینکوں کا موضوع رہا۔ پاکستان کی یہ زبردست جیولیٹیکل پوزیشن تھی کہ امریکہ ہمیں چمٹا رہا۔ ایسا تو نہیں ہے کہ ہمیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن ملک میں سیاسی عدم استحکام اور بیڈ گورننس کی وجہ سے جس قدر لیا جاسکتا تھا اور جتنا ہوا، اتنا ہم نہ کرسکے۔

آج پوری دنیا میں سی پیک کا ڈنکا بج رہا ہے۔ جمی کارٹر دور کا بڑا سفارتی دماغ برزیسکی اپنی تصنیف میں آنے والی امریکی حکومتوں کو پیغام دے چکا ہے کہ اب وہ طاقت سپر طاقت نہیں کہلائے گی جو سنٹرل ایشیا کی نو آزاد ریاستوں کو اپنے دائرہ اثر میں نہیں لائے گی۔ سو، امریکی اب پاکستان کےنئے جیو اکنامکس تشخص سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان، وفاقی کابینہ، ہماری پارلیمان اور اپوزیشن کے پاکستان میں مطلوب اقتصادی انقلاب برپا کرنے کے دو ہی راستے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم کالا باغ ڈیم پر قومی مکالمے کا آغاز کریں اور فنی دلائل کی بنیاد پر اسے بنانے یا لپیٹ دینے کا فیصلہ کریں۔ دوسرے سی پیک تو مکمل ہوگا ہی کہ یہ صرف اب پاکستان کا نہیں چین کے عظیم تر اقتصادی مفادکا معاملہ، پھر روس، ایران، سعودی عرب، خلیجی خطہ، افغانستان آگے افریقہ، مشرقی یورپ اس کے بڑے بینی فشری بنیں گے۔ بھارت نے اگر مسئلہ کشمیر پر اڑ کر الگ رہنا ہے تو رہے اور خوشحالی امن و استحکام کے اس عظیم عالمی منصوبے سے دور رہ کر امریکہ سے جو فائدہ اٹھانا ہے اٹھا لے لیکن اب تو امریکہ بھی پاکستان سے مکمل سرد مہری کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔

سی پیک سے ہٹ کر لیکن سی پیک کے تناظر میں اس کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کے سمندری ساحل کو ڈیویلپ کرنا 800کلو میٹر کے اس ویران ساحل کو اقتصادی سرگرمیوں کے بڑے زون میں تبدیل کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اس کا ایک بڑا بنیادی تقاضا ہے کہ جو ترقیاتی منصوبے بنائیں ہماری وسیع تر اور بیش بہا ریاستی سمندری حدود سے جوڑ کر بنائیں جس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں جلد سے جلد حکومتی سطح پر، اکنامک سیکٹر، برآمد کاروباری حلقوں اور بحیثیت قوم پاکستانیوں میں’’میری ٹائم سیکٹر‘‘ کی بیداری پیدا کی جائے، واضح رہے کہ اس طویل سمندری ساحل کے ساتھ جگہ جگہ زبردست ائیرپاکٹس موجود ہیں جو سستی ترین اور ماحولیات دوست ونڈ انرجی پیدا کرنے کا بڑا وسیلہ بنے گا لیکن یہ تب ہی ہوگا کہ ہم گوادر پر فوکس رکھتے ہوئے مطلوب تناسب کے ساتھ کوسٹل ڈیویلپمنٹ اور میری ٹائم سیکٹر کی ترقی و وسعت پر بھی متوجہ ہوں۔ وماعلینا الا البلاغ

تازہ ترین