• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مُلک کو بڑے منصوبوں کی نہیں، عالی دماغ کی ضرورت ہے

آج سائنسی ایجادات ہی اقوام کی تہذیب و ثقافت اور مقدّر کا تعیّن کرتی ہیں۔ یعنی سائنسی علّت و معلول سے عاری اقوام کے( جو تخلیقی یا غیر روایتی سوچ نہیں رکھتیں) خیالات و افکار، خواہشات اور توہّم پرستی پر مبنی ہوتے ہیں۔ ایسی اقوام دُنیا میں رونما ہونے والے حالات و واقعات پر اثر انداز ہو سکتی ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی معیاری و دیرپا تبدیلی آ سکتی ہے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتِ حال کسی المیے سے کم نہیں اور اس حقیقت سے صرف بد عنوان طبقہ ہی انکار کر سکتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عالمی تجارت میں پاکستان کا حصّہ فقط 0.01فی صد سالانہ ہے اور اس کی برآمدات کا حجم صرف22ارب ڈالرز ہے، جب کہ 2016ء میں محض 40لاکھ آبادی کے حامل مُلک، سنگاپور کی برآمدات کا حجم 516ارب ڈالرز تھا۔ اس سے ہمارے حُکم رانوں کی معاشی کارکردگی عیاں ہوتی ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ایک زمانے میں بنگالیوں کا مذاق اُڑایا جاتا تھا، لیکن آج ان کی برآمدات کا حجم بھی 38ارب ڈالرز ہے۔ پھر اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آج پاکستان کی 5فی صد آبادی کے پاس بے تحاشا دولت ہے۔ یہ ’’طبقہ اشرافیہ‘‘ ٹیکس چوری کرتا ہے اور اس کا سارا بوجھ بالواسطہ ٹیکسز کی صورت غریب و مفلس عوام پر پڑتا ہے، جسے تعلیم یافتہ بنایا گیا اور نہ ہی ہُنر مند۔ 

مُلک میں تعلیمی سہولتوں کی صورتِ حال یہ ہے کہ آج بھی 2.5کروڑ بچّے اسکولز سے باہر ہیں اور جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں، تو ان کے والدین کی چادر بھاری فیسیں ادا کرتے کرتے رومال بن کر رہ گئی ہے۔ جہالت ہی کے سبب آج کرپٹ سیاست دانوں اور حُکم رانوں کے بارے میں عوام میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ’’لیڈر اگر کھاتا پیتا ہے، تو کچھ لگاتا بھی تو ہے۔‘‘ اسی تناظر میں امریکی شاعر، ایمرسن کے خیالات نقل کیے جا رہے ہیں کہ ’’ہمیں گھڑے گھڑائے مصنوعی افراد کی ضرورت نہیں کہ جو کسی پیشہ ورانہ کام کے لائق ہوں، بلکہ کچھ ایسے افراد کی ضرورت ہے کہ جو اپنی قوّتِ ارادی کے بَل پر کسی بھی کام میں ہاتھ ڈال سکتے ہوں۔ دُنیا میں جتنے بھی بہترین کارنامے وقوع پزیر ہوئے ہیں، یعنی طبّاع افراد کے کارنامے، ان پر کوئی لاگت نہیں آئی، نہ ہی ان کی کوئی قیمت ادا کی گئی اور نہ ان کے لیے کوئی مشقّت اُٹھائی گئی، بلکہ یہ تو فکر کے بے ساختہ دھارے ہیں۔ شیکسپیئر نے’’ ہیملٹ‘‘ اتنی آسانی سے لکھ ڈالا تھا کہ جتنی آسانی سے کوئی پرندہ اپنا گھونسلا بناتا ہے۔ بڑی بڑی نظمیں بغیر کسی توجّہ کے سوتے جاگتے لکھی گئیں۔ عظیم مصوّروں نے حصولِ مسرّت کے لیے تصویریں بنائیں اور انہیں یہ خبر تک نہ ہوئی کہ ان کی شخصیت نے خیر کو جنم دیا۔‘‘

ایمرسن، فن کے پس منظر میں اپنا مؤقف بیان کر رہے تھے، لیکن اگر اسے سائنس پر لاگو کیا جائے، تو بجلی ایجاد کرنے والے نے بھی کبھی اس کی قیمت طلب نہیں کی، لیکن نہ جانے پاکستان میں ایسے افراد کیوں ناپید ہو گئے ہیں۔ عصرِ حاضر میں پاکستان جس موڑ پر آ کھڑا ہوا ہے، وہ معاشی بربادی اور لُوٹ مار کا دَور ہے اور معیشت کی بحالی کے لیے وفاقی وزیرِ خزانہ، اسد عُمر نے فنانس بِل میں ترامیم کر کے آئی ایم ایف کا نسخہ قرض لینے سے پہلے ہی پیش کر دیا ہے۔ درحقیقت، چاہے شوکت عزیز ہوں یا اسحٰق ڈار یا موجودہ معاشی ٹاسک فورس، کوئی بھی روایت سے ہٹ کر سوچنے پر آمادہ نہیں، کیوں کہ ان سب نے سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے کے لیے تحریر کی گئی معاشیات کی کتابیں ہی پڑھ رکھی ہیں۔ سو، ان کے پاس فکر کے بے ساختہ دھارے موجود نہیں۔ پھر ’’تبدیلی‘‘ کی عَلم بردار حکومت ابھی نو آموز ہے، جس کی کسی نظریے تک رسائی ہے اور نہ ہی یہ دانا ہے۔ یہ قطرے میں دجلہ نہیں دیکھ سکتے کہ یہ گھڑے گھڑائے لوگ ہیں۔ یہ وہی کچھ کر سکتے ہیں کہ جو انہوں نے آئی ایم ایف کے نصاب میں پڑھا ہے اور نہ ہی یہ قرضوں میں ڈوبے پاکستان کے کرپٹ معاشرے کے مسائل حل کرنے کے قابل ہے، البتہ اگر ہم ملائیشیا کو ترقّی یافتہ مُلک بنانے والے، مہاتیر محمّد کے ماڈل کو دیکھیں، تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر سرمایہ دارانہ نظام میں بے ایمانی، ایمان داری سے کی جائے، تو ترقّی کی گنجائش نکل سکتی ہے، لیکن کرپشن سِرے سے ختم نہیں ہو سکتی، کیوں کہ اگر کرپشن ختم ہو گئی، تو سرمایہ دارانہ نظام زمین بوس ہو جائے گا۔

مُلک کو بڑے منصوبوں کی نہیں، عالی دماغ کی ضرورت ہے
وفاقی وزیرِ خزانہ، اسد عُمر پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے

پاکستان میں فی الوقت پائے دار تبدیلی ممکن نہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ 70برس میں ہم نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی جانب توجّہ ہی نہیں دی۔ ہم نے صرف قرضوں پر اکتفا کیا، جو آج 95ارب ڈالرز تک پہنچ چکے ہیں اور ان کا سُود ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لینا پڑتے ہیں۔ ہمارے حُکم رانوں نے پاکستان کے قدرتی وسائل اور انسانی سرمائے کو کبھی استعمال کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اگر عوام کو ہُنر مند بنایا جاتا، تو آج ہمیں سی پیک سے چین کے برابر ہی فائدہ ہوتا۔ جس مُلک میں ادائیگیوں کے توازن میں خسارہ 35ارب ڈالرز سے زاید ہو، تو وہاں اسد عُمر بھی ’’مائنس، پلس‘‘ کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ وفاقی وزیرِ خزانہ نے مِنی بجٹ پیش کیا۔ اپنی بجٹ تقریر میں انہوں نے حقائق بیان کیے اور مسائل کا وہی حل بتایا کہ جو آئی ایم ایف کا نصاب پڑھنے والا ایک معیشت داں بتا سکتا ہے۔ سابق وفاقی وزیرِ خزانہ، مفتاح اسمٰعیل نے گزشتہ حکومت کے آخری بجٹ میں دانستہ طور پر آمدنی کے ذرایع مزید کم کر کے اخراجات بڑھا دیے تھے۔ لہٰذا، اسد عُمر کا یہ کہنا دُرست ہے کہ مالی سال 2018-19ء کے بجٹ میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے اخراجات میں350ارب روپے کا اضافہ کیا گیا۔ ہر چند کہ سابق وزیرِ خزانہ کو اس بات کا علم تھا کہ صوبوں کا پچھلے مالی سال کا بجٹ 18ارب روپے خسارے میں تھا، لیکن اس کے باوجود دانستہ طور پر سر پلس کا ہدف 266ارب روپے مقرّر کیا گیا۔ خیال رہے کہ اعداد و شمار کے ایسے ہی گورکھ دھندوں کی بنا پر آئی ایم ایف نے سابق وزیرِ خزانہ، شوکت عزیز پر جُرمانہ بھی عاید کیا تھا، لیکن پاکستان کا ہر میزانیہ ہی اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہوتا ہے، کیوں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں معیشت کا انحصار ٹیکسز پر ہوتا ہے اور ٹیکس چوری کرنے والے مجرموں ہی نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ تاہم، اس کے باوجود بھی موجودہ وفاقی وزیرِ خزانہ نے براہِ راست ٹیکسز میں اضافہ کیا اور نہ ہی معیشت کو دستاویزی شکل دینے کا فیصلہ ، کیوں کہ اگر وہ ایسا کرتے، تو ان کی اپنی حکومت ختم ہو جاتی۔ سو، اس مُلک میں ٹیکس چوری کا خاتمہ ممکن نہیں اور ریونیو بڑھانے کے لیے عام آدمی ہی پر بالواسطہ ٹیکسز لگائے جاتے رہیں گے۔

موجودہ حکومت کو اس وقت زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی اشد ضرورت ہے اور اگلے 2برس میں اس نے 25ارب ڈالرز کے قرضوں کی ادائیگی بھی کرنی ہے،سو اس نے 183ارب روپے ریونیو اکٹھا کرنے کے لیے ٹیکسز اور کسٹم ڈیوٹیز میں اضافہ کیا ہے۔ گرچہ صرف آگ تاپ لینے سے ملیریا کی سردی دُور نہیں ہوتی، لیکن آئی ایم ایف کے نسخے پر عمل کرنے کے سوا اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ مِنی بجٹ میں ترقّیاتی بجٹ کا ہدف 725ارب روپے مقرّر کیا گیا ہے، حالاں کہ بجٹ خسارہ 2,200ارب روپے ہے اور گردشی قرضے 1,200 ارب روپے تک پہنچ چُکے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مُلک کو جس بے دردی سے قرضوں کے سہارے چلایا گیا اور لُوٹ مار کی گئی، اُس کی مثال دُنیا میں شاید ہی کہیں اور ملے۔ حُکم رانوں کی عاقبت نا اندیشی کے سبب غُربت اس قدر بڑھ چُکی ہے کہ عوام تیزی سے جرائم کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ مُلک میں روزگار کی صورتِ حال یہ ہے کہ 61 فی صد نوجوان بے روزگار ہیں، لیکن دوسری جانب بعض افراد کے پاس دولت کی فراوانی ہے، جو ’’گرے‘‘ یا’’ بلیک اکانومی‘‘ کا نتیجہ ہے۔ 

موجودہ حکومت اگر اس معیشت میں30فی صد بھی کمی لاتی ہے، تو یہ اس کا ایک کارنامہ ہو گا۔ مُلک کا تن خواہ دار طبقہ مجبوراً ٹیکس ادا کرتا ہے کہ یہ اس کی تن خواہ سے کاٹ لیا جاتا ہے، جب کہ زرعی شعبے سے، جس کا جی ڈی پی میں 22فی صد حصّہ ہے، صرف چند کروڑ روپے ہی ٹیکس حاصل ہوتا ہے کہ زیادہ تر بڑے زمین دار پارلیمان میں بیٹھے ہیں اور 93فی صد چھوٹے کاشت کاروں کی حالتِ زار ناگفتہ بہ ہے۔ گزشتہ حکومت میں مُلک میں تیار ہونے والی سَستی کھاد کو برآمد کیا جاتا، تاکہ صنعت کاروں کو زرِ مبادلہ کمانے کا موقع ملے۔ اسی طرح فاضل چینی تیار کر کے اسے بھی زرِ مبادلہ حاصل کرنے کے لیے برآمد کیا جاتا اور اس کا بڑا حصّہ بیرونِ مُلک رکھا جاتا، جو منی لانڈرنگ کے علاوہ ہوتا تھا۔ موجودہ حکومت چاہتے ہوئے بھی اس قسم کی کرپشن ختم نہیں کر سکتی، کیوں کہ ایک جانب یہ خود نازک صورتِ حال سے دو چار ہے اور دوسری طرف بڑے بڑے زمین دار حُکم راں جماعت میں شمولیت اختیار کر چُکے ہیں۔

مِنی بجٹ میں انکم ٹیکس کی مَد میں 4لاکھ سے کم سالانہ آمدنی والے افراد کو وہی استثنیٰ دیا گیا ہے، جو سابق وفاقی وزیرِ خزانہ، مفتاح اسمٰعیل نے دیا تھا، جب کہ جن کے ٹیکسز میں اضافہ کیا گیا ہے، انفرادی سطح پر ان گروپس کی تعداد 70ہزار ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ کراچی میں بعض چاٹ فروش اور پان بیچنے والے سالانہ لاکھوں روپے منافع کماتے ہیں، لیکن ٹیکس ادا نہیں کرتے اور چند دولت مند افراد، جو سالانہ 35فی صد انکم ٹیکس ادا کر رہے تھے، اسد عُمر نے اسے کم کر کے 29فی صد کر دیا ہے، جب کہ مفتاح اسمٰعیل نے اسے 30فی صد کر دیا تھا۔ اسے کوئی کھیل تو کہا جا سکتا ہے، بجٹ بنانے کا طریقہ نہیں اور کوئی بھی معیشت داں یہ سب کر سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ 183ارب روپے کے ریونیو میںسے 92ارب روپے ایف بی آر وصول کرے گا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 35لاکھ مال دار ٹیکس نا دہندگان سے ٹیکس وصول کیوں نہیں کیا جاتا اور کب تک پیٹرول، بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا کر غریب عوام کا کچومر نکالا جاتا رہے گا۔ واضح رہے کہ ایک اندازے کے مطابق، گزشتہ 15برس کے دوران بجلی کے نرخوں میں 350فی صد اضافہ ہوا ۔ اس مُلک کی سیاہ بختی ہے کہ یہاں ٹیکس چور، منی لانڈرنگ کرنے والے اور پی آئی اے، اسٹیل ملز اور پاکستان ریلویز سمیت دیگر سرکاری ادارے تباہ کرنے والے تو عیش کر رہے ہیں، جب کہ عام آدمی کا استحصال جاری ہے۔ اسی طرح مُلک میں فائلر اور نان فائلر کا کھیل بھی کھیلا جا رہا ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا زرعی ایمرجینسی لگا کر ریونیو حاصل نہیں کیا جا سکتا؟ کیا فوڈ انڈسٹری کو فروغ نہیں دیا جا سکتا؟ یہ مُلک معدنیات سے مالا مال ہے، لیکن اس جانب کسی حکومت نے توجّہ نہیں دی۔ آج پانی زندگی اور موت کا مسئلہ بن چُکا ہے۔ 

دُنیا بَھر میں منرل واٹر ایک فراڈ ہے، جب کہ پاکستان میں منرل واٹر تیار کرنے والی کمپنیز کو کُھلی چُھٹی دے دی گئی ہے۔ ہم ایک کاغذ کے ٹکڑے (ڈالر) کے عوض اپنے اثاثے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ یہ سُودی نظام کتنا بھیانک ہے۔ پھر 70برس بعد بھی ہم مصنوعات سازی کے قابل نہیں ہوئے اور صرف اسمبلنگ ہی کر رہے ہیں۔ ایک ایسے مُلک کو روایتی طریقوں سے چلانا نہایت مشکل ہے کہ جس کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہو، جہاں زراعت کا انحصار موسمی بارشوں پر ہو، بجلی پیدا کرنے کے لیے فرنس آئل جیسا مہنگا ترین ذریعہ استعمال کیا جاتا ہو اور سامراج کی خوش نودی کے لیے ہائیڈل پاور جسے سَستے ترین ذریعے پر توجّہ نہ دی گئی ہو۔ مختصراً یہ کہ گزشتہ 70برس کے دوران اس مُلک کے حُکم رانوں نے ہر وہ کام کیا کہ جس سے صرف انہیں فائدہ ہو۔

موجودہ عالمی تجارتی نظام کو چلانے والی عالمی تجارتی تنظیم کے خلاف امریکی صدر، ٹرمپ اب بات کر رہے ہیں، جب کہ آج سے 200برس قبل کارل مارکس نے آزاد تجارت کے بارے میں یہ تاریخ ساز جملے کہے تھے کہ ’’اگر آزاد تجارت کے حامی یہ نہیں سمجھ سکتے کہ کس طرح ایک قوم کی قیمت پر دوسری قوم امیر ہو سکتی ہے، تو ہمیں حیران ہونے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ یہ لوگ یہ سمجھنے سے بھی انکار کرتے ہیں کہ ایک ہی مُلک میں ایک طبقہ دوسرے طبقے کی قیمت پر کس طرح امیر ہو جاتا ہے۔‘‘ وفاقی وزیرِ خزانہ، اسد عُمر اور وزیرِ اعظم، عمران خان اُسی نظام کو جاری رکھنا چاہتے ہیں کہ جو زنگ آلود ہو چُکا ہے اور اسے زندگی بخشنے والے عیش کی زندگی گزار رہے ہیں اور پارلیمان میں بھی نشست فرما ہیں، جن کے بچّے بیرونِ مُلک پڑھتے ہیں اور جن کے اثاثے بھی مُلک سے باہر ہیں۔ اعداد و شمارکے مطابق، پاکستانی شہریوں کے 200 ارب ڈالرز غیر مُلکی بینکوں میں موجود ہیں، جب کہ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ ہر سال 10ارب ڈالرز پاکستان سے بیرونِ مُلک منتقل ہو رہے ہیں، تو ایسے حالات میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو میگا پراجیکٹس سے زیادہ ’’میگا ویژن‘‘ کی ضرورت ہے۔ آج بیرونِ مُلک موجود سیکڑوں اربوں ڈالرز کے اثاثے مُلک واپس لانے کی اشد ضرورت ہے، لیکن بد قسمتی سے ہمارا احتساب کا نظام اور اس سے جُڑے ادارے نہایت کم زور اور طاقت وَروں کے غلام ہیں۔ یاد رہے کہ اگر فوج اور عدلیہ نے اس جانب سنجیدگی سے توجّہ نہیں دی، تو غریبوں کے مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے۔

تازہ ترین