• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماریانہ بابر پاکستان کی مایہ ناز اور جرأت مند صحافیوں میں سے ایک ہیں۔ خاتون ہونے کے باوجودانہوں نے اپنی صحافتی زندگی میں ایسے ایسے کام کئے ہیں جو مرد صحافیوں کے لئے بھی بہت مشکل تھے۔ ماریانہ بابر کی کسی رائے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی پیشہ وارانہ دیانت ہر قسم کے شک و شعبہ سے بالاتر ہے۔ وہ پچھلے 32سال سے میدان صحافت میں بھاگ دوڑ کر رہی ہیں اور میں انہیں ہمیشہ ایک سینئر کا درجہ دیتا ہوں جس سے میں نے بھی کچھ نہ کچھ سیکھا ہے۔ ماریانہ بابر ہمارے قابل احترام مرحوم بزرگ سیاستدان میجر جنرل ریٹائرڈ نصیر اللہ بابر کی قریبی عزیزہ ہیں۔ ایک صحافی کی حیثیت سے ان کے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات تھے لیکن ماریانہ نے نصیر اللہ بابر یا محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ قربت کو کبھی اپنی صحافت پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔ مجھے یاد ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں ایک دفعہ مجھے ماریانہ کو وزیراعظم صاحبہ کے ساتھ فرانس جانے کا موقع ملا۔ اس دورے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو کچھ فارغ وقت ملا تو وہ ماریانہ کو ساتھ لے کر شاپنگ کے لئے نکل گئیں۔ پاکستان واپس آئے تو یہی ماریانہ بابر حکومت پر تنقید کر رہی تھیں۔ ایک دن محترمہ بے نظیر بھٹو نے دبے الفاظ میں نصیر اللہ بابر صاحب سے کہا کہ آپ ماریانہ کو سمجھایا کریں وہ کبھی کبھی اپنے قلم سے تلوار کا کام لیتی ہے اور ہمیں گہرے زخم لگاتی ہے۔ نصیر اللہ بابر مسکرائے اور کہنے لگے کہ یہ ایک صحافی اور حکومت کا معاملہ ہے۔ میرا خیال ہے آپ وزارت اطلاعات کے ذریعے ماریانہ سے بات کریں اگر میں نے ٹانگ اڑائی تو میری ٹانگ میں فریکچر کا خطرہ ہے۔ یہ سن کر محترمہ خاموش ہوگئیں۔ نواز شریف صاحب کی حکومت آئی تو ان کے میڈیا منیجرز ماریانہ بابر کو پیپلز پارٹی کا حامی سمجھتے تھے۔ پرویز مشرف کی حکومت آئی تو ماریانہ بابر کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دیدیا گیا کیونکہ وہ ایک بھارتی جریدے میں لکھنے کے علاوہ بی بی سی کے لئے بھی کام کرتی ہیں۔ ماریانہ بابر بہت محنتی صحافی ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں وہ ضرورت سے زیادہ محنت کرتی ہیں شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سال پہلے اپنے شوہر کی موت کے بعد انہوں نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا بلکہ رزق حلال سے اپنے بچوں کی پرورش کی اور انہیں اعلیٰ تعلیم دلائی۔ ماریانہ بابر ایک کھلی کتاب ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے خفیہ اداروں کی فائلوں میں ماریانہ بابر ابھی تک مشکوک ہیں۔ 3دسمبر کے ”جنگ“ اور ”دی نیوز“ میں ماریانہ بابر نے لکھا ہے کہ ملٹری انٹیلی جنس والے ان دنوں گھر گھر جاکر صحافیوں کے متعلق کوائف اکٹھے کر رہے ہیں اور اسی سلسلے میں وہ راولپنڈی کی ہارلے اسٹریٹ میں ماریانہ کے گھر بھی جا پہنچے۔
ماریانہ بابر نے لکھا ہے کہ ملٹری انٹیلی جنس کے دو اہلکار ان کے گھر آئے اور بڑی خوش اخلاقی سے اپنا تعارف کرانے کے بعد کہا کہ انہیں کچھ صحافیوں کے متعلق تفصیلات اکٹھی کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ان کے پاس باقاعدہ ایک فارم موجود تھا جس پر سوالات اور جوابات کے خانے موجود تھے۔ ان کی خوش قسمتی تھی کہ ماریانہ بابر کا موڈ اچھا تھا لہٰذا ماریانہ نے انہیں کچھ سولات پوچھنے کی اجازت دیدی۔سوالات شروع ہوئے تو ماریانہ حیرانگی کے ساتھ پریشانی کا شکار بھی ہوتی گئیں۔ ملٹری انٹیلی جنس والے پوچھ رہے تھے کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟ اگر آپ مسلمان ہیں تو شیعہ ہیں یا سنی؟ کیا آپ کبھی کسی غیر قانونی کام میں ملوث رہی ہیں؟ اس قسم کے سوالات سننے کے بعد ماریانہ نے ان سے فارم لیا اور اس پر لکھ دیا کہ آئین پاکستان کے تحت وہ اپنی ذات کے متعلق ملٹری انٹیلی جنس کو معلومات فراہم کرنے کی قطعاً پابند نہیں ہیں؟ ایک اور خاتون صحافی نے بتایا کہ ان کے گھر پر بھی ملٹری انٹیلی جنس والے آئے تھے۔ اتفاق سے وہ گھر پر نہ تھیں۔ کچھ دنوں کے بعد وہ دوبارہ آئے توا یک دفعہ پھر خاتون صحافی گھر پر نہ تھیں۔ ان کے ملازم نے جاسوس ادارے کے سرفروشوں کو بتایا کہ بی بی گھر نہیں ہیں جس پر دونوں جاسوسغصے میں آگئے اور انہوں نے ملازم کو دھمکی دی کہ سیدھی طرح بتاؤ وہ کہاں ہیں ورنہ تمہیں تھانے لے جائیں گے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملٹری انٹیلی جنس کو صحافیوں کی انکوائریاں کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ ماریانہ بابر کے متعلق معلومات کا حصول اتنا ہی ضروری تھا تو آئی ایس پی آر سے رابطہ کیا جاسکتا تھا۔ آئی ایس پی آر میں ایسے افسران موجود ہیں جو ماریانہ بابر جیسے صحافیوں کو سالہا سال سے جانتے ہیں لیکن شاید اس معاملے میں آئی ایس پی آر کو بے خبر رکھا گیا۔ ملٹری انٹیلی جنس کو معلومات کے حصول کے لئے آئی ایس آئی سے بھی مدد مل سکتی تھی کیونکہ آئی ایس آئی کے پاس ماریانہ بابر جیسے صحافیوں کے متعلق دو دو فائلیں ہوتی ہیں۔ ایک گرین فائل ایک ریڈ فائل۔ گرین فائل میں مثبت باتیں ہوتی ہیں اور ریڈ فائل الزامات اور افواہوں سے بھر دی جاتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ملٹری انٹیلی جنس کی انکوائری کسی بہت بڑے قومی مفاد کے نام پر کی جا رہی ہو لیکن سوال یہ ہے کہ ملٹری انٹیلی جنس کا مینڈیٹ کیا ہے؟ کیا آئین و قانون اور آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری انٹیلی جنس صحافیوں کے متعلق انکوائریاں کر سکتی ہے؟ آپ سوچ رہے ہونگے کہ اگر ملٹری انٹیلی جنس والے صحافیوں کی انکوائریوں کے لئے گھر گھر جاسکتے ہیں تو سیاستدانوں کی انکوائریاں بھی کر رہے ہوں گے؟
آج کل کچھ لوگ یہ تاثر دیتے ہیں کہ میڈیا میں کچھ لوگ کسی غیر ملکی سازش کے تحت فوج کو بدنام کرنے میں مصروف ہیں۔ شاید ملٹری انٹیلی جنس ایسے ہی صحافیوں کے پیچھے لگ گئی ہے لیکن جناب سچائی صرف اتنی ہے کہ میڈیا میں کچھ لوگ آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے۔ اگر سپریم کورٹ اصغر خان کیس میں کچھ ریٹائرڈ جرنیلوں کی سیاست میں مداخلت کے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو ان جرنیلوں کے خلاف کارروائی کے مطالبے کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ ہم فوج کو بدنام کر رہے ہیں۔ اگر فوج خود اپنے ہی کچھ افسران کو خیبر پختونخوا حکومت کے لئے خریدے گئے سات ارب روپے مالیت کے ناقص اسلحے کی کلیرنس دینے کے الزام میں نوکری سے فارغ کر دے اور ان افسران سے مطالبہ کرے کہ انہوں نے اسلحہ سپلائی کرنے والے سے جو رشوت لی وہ سرکاری خزانے میں جمع کراؤ اور میڈیا اس معاملے کی خبر دیدے توکیا یہ ملک دشمنی ہے؟ اگر آئی ایس آئی کے ایک ریٹائرڈ افسر پر فراڈ کا الزام لگ جائے اور اسلام آباد ہائیکورٹ اس افسر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم جاری کر دے، ایس پی انڈسٹریل ایریا اسلام آباد کے کہنے پر ایس ایچ او آئی نائن پولیس اسنٹیشن ایک ریٹائرڈ وفوجی افسر پر مقدمہ درج کردے اور پھر دونوں پولیس افسران کی کم بختی آجائے اور میڈیا ان کے ساتھ زیادتی کی خبر دیدے تو کیا یہ فوج دشمنی ہے؟ کیا عدالتی فیصلوں پر تبصرہ اور عدالتی احکامات پر عملدرآمد کی خبریں دینے والوں کی انکوائریاں شروع ہو جائیں گی؟ خفیہ اداروں کو کس کی جاسوسی کرنی چاہئے؟ صحافیوں کی یا ان کی جو بم دھماکے کرکے غائب ہو جاتے ہیں ؟ فیصلہ آپ خود کریں۔
تازہ ترین