پاکستانی قوم کو دکھ، صدمے اور رسوائی کا ایک اور تازیانہ سہنا پڑا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ، جو دنیا بھر میں کرپشن پر نظر رکھنے والا ادارہ ہے، نے اپنی5/دسمبر کو جاری کردہ سالانہ رپورٹ 2012ء میں نشاندہی کی ہے کہ وطن عزیز 175 ممالک کی فہرست میں بدعنوانی کے حوالے سے 47ویں نمبر سے 33ویں نمبر تک پہنچ گیا ہے۔ اس سے قبل 28/نومبر کو ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی سال 2012ء کی رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں پاکستان کو 97 ممالک کی فہرست میں ساتواں بدعنوان ترین ملک قرار دیا گیا تھا۔ اس طرح ایک ہفتے میں دو عالمی اداروں کی طرف سے پاکستانی عوام کو رسوائی کے ان گہرے ہوتے ہوئے داغوں سے آگاہ کیا گیا، جن کے ذمہ دار وہ اس حد تک ضرور ہیں کہ انہوں نے اپنے قومی سفر میں رہنمائی اور رہبری کے لئے جن عناصر کا انتخاب کیا وہ ان کے اعتماد پر پورے اترنے میں ناکام رہے۔
ماضی میں بھی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سمیت عالمی اداروں کی رپورٹوں میں کرپشن میں مسلسل اضافے کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے بھی گڈ گورننس کے فقدان کے معیشت پر پڑنے والے اثرات سے آگاہ کرتے رہے ہیں۔ مگر جن حلقوں پر حالات سدھارنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ان کے رویے سے ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں کرپشن سے ملک کو پہنچنے والے نقصان یا عوام کے مسائل میں روز افزوں اضافے کی کوئی پروا ہے۔ اگر ہمارے حکمراں اپنی شاہ خرچیوں اور غلط بخشیوں سے اجتناب کرتے، سیاسی ضروریات اور ذاتی مفادات کے لئے سرکاری اداروں پر نااہل ملازمین اور انتظامیہ کا بوجھ نہ بڑھاتے اور ہر معاملے میں میرٹ کو مقدم رکھتے تو نہ پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز سمیت سرکاری ادارے تباہی سے دوچار ہوتے، نہ معیشت کی صورت حال اتنی ابتر ہوتی کہ عالمی ادارے قرضے دینے سے گریزاں ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ 2012ء میں متعدد ممالک میں مالی بدعنوانیوں کی نشاندہی اور درجہ بندی کرتے ہوئے پاکستان میں ہر سال کرپشن میں ریکارڈ اضافے کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے اور بتایا ہے کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران 12ہزار 600 ارب روپے کی کرپشن کی گئی جو ایک ریکارڈ ہے۔ یہ رقم سالانہ 2520 ارب روپے اور یومیہ تقریباً 7 ارب روپے بنتی ہے۔رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ جن ممالک میں احتساب کا نظام کمزور ہوتا ہے وہاں کرپشن کو پھلنے پھولنے کے مواقع ملتے ہیں اور جن ممالک میں یہ نظام مضبوط ہوتا ہے اور حکام اور عوام کو ذہنی طور پر بدعنوانی سے اجتناب کے لئے تیار کیا جاتا ہے وہاں صورتحال برعکس ہوتی ہے۔ کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2012ء میں بدعنوانی سے پاک ممالک کیلئے ڈنمارک ، فن لینڈ اور نیوزی لینڈ 90 کے اسکور کے ساتھ پہلی پوزیشن کے لئے مقابلے کرتے نظر آتے ہیں جبکہ افغانستان ، شمالی کوریا اور صومالیہ کو کرپشن میں سب سے زیادہ نمبر ملے ہیں۔ اس باب میں کوئی دو آراء نہیں پائی جاتیں کہ جس ملک میں کرپشن کا راج ہو، وہاں صنعتی و کاروباری اداروں کے لئے کام کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ وطن عزیز میں کرپشن کی صورت حال نے دہشت گردی اور لاقانونیت کے ساتھ مل کر غیرملکی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچایا ہے جبکہ ملکی صنعت کار دیگر ممالک کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب ملک میں عام انتخابات چند ماہ بعد ہی منعقد ہونے والے ہیں۔ یہ الیکشن جہاں عام لوگوں کو مستقبل کی قیادت کا انتخاب زیادہ سوچ سمجھ کر کرنے کا موقع فراہم کریں گے وہاں حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام سیاسی و سماجی پارٹیوں کا بھی اس اعتبار سے امتحان ہوں گے کہ وہ ملکی معیشت کو بہتر بنانے اور کرپشن پر قابو پانے کے لئے کیا ایجنڈا عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں۔
معاشی ماہرین گورننس کے نقائص ، ڈسپلن کے فقدان ، احتساب کے عملی طور پر موثر نہ ہونے، سرکاری محکموں میں تاخیر سے فیصلے ہونے ، حکومتی فیصلوں پر عملدرآمد کی مشینری کی کمزوری ، میرٹ سے صرف نظر جیسے اسباب کی کرپشن کے مسئلے کے حوالے سے برسوں سے نشاندہی کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس کے حل کے لئے مالیاتی ڈسپلن اپنانے اور احتساب کے ادارے مضبوط کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔ اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کرکے اور اس کے موثر نفاذ کے اقدامات کرکے فوری طور پر پیش قدمی ممکن ہے۔ سیاسی جماعتیں اگر یہ طے کرلیں کرپشن میں ملوث ہونے، بینکوں سے قرض لے کر معاف کرانے، پُرآسائش زندگی گزارنے کے باوجود ٹیکسوں سے اجتناب برتنے اور سرکاری یا عوامی حیثیت سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے افراد کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیئے جائیں گے تو ایک بڑی کامیابی اسی مرحلے پر حاصل ہوسکتی ہے۔ اس ضمن میں سیاسی جماعتیں اپنے طور پر معیار مقرر کرکے امیدواروں کی اسکروٹنی کرسکتی ہیں۔ عوامی نمائندوں، بالخصوص اہم مناصب پر فائز افراد کی جائدادوں، ذرائع آمدنی اور ٹیکسوں کے گوشوارے عوام کے سامنے ایک مخصوص مدت کے بعد باقاعدگی سے لائے جانے چاہئیں اور اس بات کا قانونی اہتمام کیا جانا چاہئے کہ اگر کسی کی معلومات کے مطابق ان گوشواروں میں غلطیاں ہوں تو وہ انہیں چیلنج کرسکے۔ سول سوسائٹی کے کردار کو کرپشن کے خاتمے کے لئے زیادہ موثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ گوشواروں سمیت کسی بھی معاملے میں غلط بیانی کرنے والوں کا محاسبہ ممکن ہو۔ سرکاری ملازمین کی اجرتوں کا ڈھانچہ اگر ان کے کام اور عہدوں کی مناسبت سے ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر بنایا جائے تو اس سے کرپشن کی شرح کم کرنے میں اسی طرح مدد ملے گی جس طرح پنجاب میں موٹر وے پولیس اور ٹریفک وارڈنز کی تنخواہوں کے تعین کے بعد مدد ملی۔ بدعنوانی کے سدباب کیلئے اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ماتحت عدالتوں میں کرپشن سے متعلق مقدمات کے فیصلے جلد ہوں۔ دراصل یہ ایک ایسا سلسلہ ہے حقوق، ضروریات اور ذمہ داریوں کا جو ریاست سے لے کر عام آدمی تک پھیلا ہوا ہے۔ جن ملکوں میں کرپشن نہیں ہے وہاں سب اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ وطن عزیز کو بھی غربت ، بدعنوانی اور افراتفری کی کیفیت سے نکالنے کے لئے تمام عناصر کو اپنا اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کرنا ہوگا۔ یہ وقت ،کہ کرپشن کے خلاف عمومی نفرت پائی جاتی ہے، اس ضمن میں قانون سازی اور عملی اقدامات کے لئے بہت مناسب ہے۔ اس حوالے سے سیاسی پارٹیوں اور سماجی تنظیموں کو اپنا اپنا کردار موثر طور پر ادا کرنا چاہئے۔
آبادی کا بم
ملک میں آبادی میں اضافے کی رفتار کئی اعتبار سے قابل توجہ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت مشرقی اور مغربی بازو کی آبادی ملاکر بمشکل 4کروڑ کے لگ بھگ تھی آج کے پاکستان میں ، جو ماضی کے مغربی پاکستان تک محدود ہے ، انسانی آبادی 18کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ قومی وسائل میں اس تناسب سے اضافہ نہ ہونے کے باعث عام لوگوں کو تعلیم، روزگار، علاج معالجے ، رہائشی سہولتوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں رکھنے والی ضروریات میں کمی کا سامنا ہے ۔زراعت کے لئے زمین کا رقبہ کم ہورہا ہے۔ شہر گنجان تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ پینے کے پانی کی فی کس دستیاب مقدار گھٹ رہی ہے، روزگار کے مواقع آبادی کی رفتار کا ساتھ دینے کے لائق نہیں ہیں۔ماہرین کے مطابق روز مرہ جرائم ، چوری، ڈاکہ زنی، لوٹ مار، دھوکہ دہی، نجی اورسرکاری شعبہ میں سنگین بدعنوانیوں اور قتل و غارت گری کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کو زندگی کی انتہائی ضروری سہولتیں میسر نہیں ہیں ۔تلاش روزگارکیلئے دیہات سے شہروں کی طرف انتقال آبادی کے عمل نے معاشرتی زندگی کومتزلزل کرکے رکھ دیا ہے اورشہری آبادی کیلئے لاتعداد مسائل نے جنم لیا ہے چنانچہ شہر قائد کی آبادی دو کروڑ اور شہر اقبال کی آبادی ایک کروڑ کے قریب پہنچ گئی ہے۔ تعلیم ایسی بنیادی ضرورت اورسہولت نے بھی تجارت اور کاروبار کی شکل اختیارکرلی ہے یہاں تک کہ شہریوں کی بڑی تعداد تلاش روزگار کیلئے بیرون ملک جانے کی کوشش میں بدعنوان عناصر کے ہتھے چڑھ کر زندگی کی کمائی سے محروم ہورہی ہے اور غیرقانونی طور پر دوسرے ملکوں کارخ کرنے والے افراد ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہوتے ہوئے سرحدی محافظوں کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ملک بھر کے نجی فلاحی ادارے، علما، اساتذہ، ماہرین عمرانیات و اقتصادیات عوام کو حقیقی صورتحال سے آگاہ کریں اور آبادی میں غیرضروری اضافے کو روکنے کی کوشش کریں۔صرف اسی طرح کئی مسائل پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔