• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ حقیقت سبھی کے علم میں ہے کہ پاکستان کی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور پاکستان کی کم و بیش نصف سے زائد آبادی بلواسطہ یا بلاواسطہ زراعت سے منسلک ہے۔ ملکی برآمدات میں سب سے بڑا حصہ بھی زراعت کا مرہون منت ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات ہی دنیا بھر میں برآمد کی جاتی ہیں جو کپاس سے تیار ہوتی ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس شعبہ پر حکومتی سطح پر اتنی توجہ نہ دی گئی جس کا یہ مستحق تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کی برآمدات 24ارب ڈالر تک آگئیں اور بنگلہ دیش کی برآمدات 40ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہوگئیں حالانکہ بنگلہ دیش کپاس درآمد کر کے ٹیکسٹائل مصنوعات تیار کرتا ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ حکومت نے کپاس کے خام مال کی درآمد پر ٹیکس اور ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ جبکہ حکومت اور آل پاکستان ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن نے کپاس کے بیج کے معیار میں بہتری لانے، گیس اور بجلی کے یکساں نرخ پر عملدرآمد پر اتفاق کیا ہے، اس ضمن میں مشیر امور تجارت و صنعت عبدالرزاق دائود نے آل پاکستان ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن کے ساتھ مذاکرات کئے جس میں وزارت تجارت، وزارت ٹیکسائل اور وزارت خوراک و زراعت سمیت دیگر متعلقہ اداروں کے حکام شریک ہوئے اور اجلاس میں مذکورہ بالا فیصلے کئے گئے۔ ٹیکسٹائل صنعت میں کی کمی کا مسئلہ بھی زیر غور آیا اور ٹیکسٹائل کے ٹیکس ریفنڈز کا معاملہ بھی۔ وزارت خزانہ نے ٹیکس ریفنڈز کی فوری ادائیگی کی مخالفت کردی۔ عبدالرزاق دائود نے معاملہ وزیر خزانہ اسد عمر کے ساتھ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ حقیقت جھٹلانا سوائے خود فریبی کے کچھ نہیں کہ جب تک معیشت کو مقامی بنیادیں فراہم نہیں ہوتیں یہ مستحکم نہ ہوگی۔ زراعت پر بھرپور توجہ دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم معاشی استحکام کی راہ پر گامزن نہ ہوسکیں۔ اس ضمن میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بہتری پر خصوصی توجہ دی جائے، تاہم کسان کو بھی سستی و معیاری کھاد، اچھے بیج اور سستی و بہترین کیڑے مار ادویات کی فراہمی ضروری ہے۔ حکومت کے ایسے اقدام ملکی معیشت کو مضبوط بنیادیں فراہم کریں گے۔

تازہ ترین