• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

14 وال اسٹریٹ اپنے وقت میں دنیا کی بلند ترین بینک بلڈنگ اور 539 فٹ بلند فلک بوس عمارت ہوا کرتی تھی۔ اس میں امریکا بلکہ دنیا کے دولت مند ترین مالیاتی ادارے ’’بینکرز ٹرسٹ‘‘ کے ہیڈکوارٹر کے دفاتر قائم تھے۔ 14 وال اسٹریٹ نے گزشتہ صدی کے اختتام تک جو کردار ادا کیا تھا وہ بعد میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر نے سنبھال لیا اور طاقت اور اقتصادی غلبے کی علامت بن گیا۔ ’’وال اسٹریٹ‘‘ کے نزدیک ’’پائنا اسٹریٹ’’ پر ’’چیز بینک‘‘ کا عالمی ہیڈکوارٹر ہے۔ یہ ڈیوڈ راک فیلر کا بنایا ہوا بینک ہے۔ وہی راک فیلر جس نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پروجیکٹ پر کام کا آغاز 1960ء میں کیا۔ 1960ء میں امیر ترین ملکوں کی آبادی اور غریب ترین ملکوں کی آباد میں تناسب 30 اور ایک تھا جو 1995ء میں 74 اور ایک ہوگیا اور 2010ء میں 95 اور ایک ہوگیا۔ ورلڈ بینک، یو ایس ایڈ، آئی ایم ایف اور باقی ماندہ بینک، کارپوریشنز اور بین الاقوامی ’’امدادی‘‘ کاموں میں ملوث حکومتیں ہمیں یہ بتاتے نہیں تھکتے کہ وہ’’ احسن طریقے‘‘ سے اپنا کام کررہے ہیں اور ان کی خدمات کی بدولت دنیا بھر میں ترقی ہوئی ہے، لیکن اس ترقی سے فائدہ اُٹھانے والے اپنی جان کو رورہے ہیں۔ ورلڈ بینک، ایشیائی بینک، آئی ایم ایف وغیرہ دنیا کے پسماندہ اور ضرورت مند ممالک کی معیشت کو بذریعہ سودی قرض بنام امداد بہتر بنانے کے لیے وجود میں لائے گئے تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ جہاں جہاںانہوں نے قدم رکھا وہاں سکھ اور چین تو کیا آنا، رہی سہی عافیت واطمینان بھی رخصت ہوگیا۔ ان عالمی امدادی اداروں نے جس کو بھی امداد فراہم کی، وہ کبھی اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہوسکا۔ بلکہ اگرکسی نے اپنے پائوں پر کھڑے ہونے اور ان کے قرضے کے شکنجے سے نکلنے کی کوشش کی تو اسے نشانِ عبرت بنادیا گیا۔ چاہے وہ پانامہ کا صدر ٹوری جوس ہو، ایکواڈور کا جیمی اولڈوس ہو، گوئٹے مالا کا حکمران اربینز ہو یا چلی کا ایلندے ہو۔ سب کے سب قتل کردیے گئے۔ ایک نکتے کی طرف آئیے!امریکا کو اعتراض رہتا ہے کہ اس کے خلاف دہشت گردی کے مرتکب چند سرپھرے ہیں جو غربت اور جہالت کے ہاتھوں تنگ آکر فدائی حملوں کے ذریعے ظالم سماج سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اب سوال یہ نہیں کہ ان فدائیوں میں یورپ کے اعلیٰ کالجوں کے تعلیم پاتے اور کروڑ پتی خاندان کے سپوت کیسے نمایاں نظر آتے ہیں؟ سوال یہ ہے امریکا دہشت گردی کے خاتمے کے لیے 450 ارب ڈالر کیوں خرچ کررہا ہے؟ جبکہ وہ ماہرین کے تجزیے کے مطابق صرف 50 ارب ڈالر کے ذریعے دنیا بھر سے غربت وجہالت ختم کرسکتا ہے۔ نہ رہے گی غربت، نہ رہے گی اس سے جنم لینے والی دہشت۔ پاکستان جس طرح کی بدحالی وپسماندگی میں گھرا ہے، اس کا ایک سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کے پاس نہ تو عرب ممالک جیسا تیل وگیس ہے، نہ جنوبی افریقہ کی طرح سونے کی کانیں۔ نہ بدخشاں کے یاقوت اور نہ چلی کی طرح کاپروالمونیم، لہٰذا یہاں کی تعلیم یافتہ اور ہنرمند آبادی دنیا بھر میں مزدوری کرنے پر مجبور ہے۔ ممکن ہے یہ بات ٹھیک ہو، دنیا کے پیدا کرنے والے نے چودہویں صدی میں اسلام کے نام پر بننے والی ریاست میں کچھ نہ رکھا ہو، لیکن اس کا کیا کریں کہ صرف سندھ میں اتنا تیل اور کوئلہ ہے کہ پاکستان کے سارے قرض اُترسکتے ہیں۔ صرف بلوچستان میں اتنا گیس اور سونا ہے کہ پاکستان کی پوری آبادی کو با آسانی تعلیم اور علاج کی اعلیٰ ترین سہولتیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ پنجاب کی زرخیز ترین زمین جیسی زمین دنیا میں نہیں۔ سرحد کے قیمتی پتھروں سے بھرے پہاڑ چھیڑنے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کا 600 میل لمبا سمندری کنارہ جو دنیا کے بہترین ساحل اور قدرتی بندرگاہوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ سب اضافی مراعات ہیں۔ ان میں سے ایک چیز بھی دنیا کے جس ملک کے پاس ہے، وہ ترقی یافتہ ہے، مگر ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ جنوبی امریکا کے ان ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی وافر قدرتی وسائل کے باوجود توانائی کا بحران ہے جو حل ہونے میں نہیں آتا۔ اب ہمارے حکمران ہوگوشاویز تو ہیں نہیں کہ ان سے عالمی استعمار کے خلاف کسی جرات مندانہ اقدام کی توقع کی جاسکے، اور امریکا انہیں ہوگوشاویز کی طرح اقتدار سے ہٹانے میں ناکام ہوکر کینسر میں مبتلا کرکے مارنے کی کوشش کرے۔ 2012ء میںایک ذرا سی کوشش ہوئی تھی کہ ہمارے ملک میں بجلی فراہم کرنے والے اداروں کو اپنے ملک کا سستا ایندھن فراہم کردیا جائے تو اسی وقت ایشیائی بینک نے حوصلہ افزائی کے بجائے منظورشدہ قرض بھی روک دیاتھا ۔حقیقت یہ ہے کہ اس سودی نظام کے اندر خیرکی کوئی اُمید لگانا الٰہی و تکوینی قانون سے تجاہل عارفانہ برتنا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق نہ صرف یہ کہ سود مسلمانوں پر حرام ہے بلکہ ان کافروں کو بھی جنہیں شراب پینے اور خنزیر کھانے کی اجازت ہے، سود کا کاروبار کرنے کی اجازت نہیں۔ سود کی خرابی صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے لیے ہے۔ IMF کے چکر میں ایک دفعہ پھنسنے کے بعد کسی ملک کا وہی حال ہوتا ہے جو ہائوس بلڈنگ کا لون لینے والے شخص کا ہوتا ہے کہ بالآخر اسے وہ مکان ہی واپس کرنا پڑتا ہے۔ یہی حال یہاں ہے کہ ملک کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ملک ہمارا ہے، لیکن ٹیکس لگائیں یا سبسڈی دیں، یہ فیصلہ IMF کرے گا۔ گویا ہم نام کے حکمران رہ گئے، فیصلے باضابطہ کہیں اور سے ہورہے ہیں۔ ہمیں اس سلسلےسے جلد از جلد جان چھڑانی ہوگی تاکہ ہم اپنی پالیسیوں کے ذریعے ملک میں خیر لاسکیں، ورنہ مہنگائی کا سیلاب نہ رُکے گا اور نہ ہی ہمارے مالی حالات بہتر ہوں گے۔

تازہ ترین