اسلام آباد (نمائندہ جنگ؍خبر ایجنسیز) وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے حوالے سے امریکی وزارت خارجہ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی بیان بالکل غلط ہے کہ سی پیک قرضوں کے باعث آئی ایم ایف کے پاس جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نےسی پیک سمیت پاکستان کے ذمے مجموعی قرضوں کی تفصیل مانگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے ناقابل قبول شرائط رکھیں تو معاہدہ نہیں کریں گے، اسحاق ڈار کا قصور نہیں تھا، ان کے پاس بھی اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ نہ انہوں نے اور نہ عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کی بات کبھی نہیں کی۔ گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے آج تک آئی ایم ایف سے قرض کے 18 معاہدے کیے ہیں جن میں سے 7 فوجی حکومتوں کے دور میں ہوئے اور باقی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ادوار میں ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا جاری کھاتوں کا خسارہ ہر ماہ 2 ارب ڈالر جا رہا ہے اور ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر گرتے جارہے ہیں، ستمبر 2018 میں زرمبادلہ کے ذخائر 8 ارب 40کروڑ ڈالر پر آگئے۔ انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے تجارتی خسارہ بڑھا اور ایران پر پابندیاں درآمدات میں اضافے کا باعث بنیں، ایسی صورت حال میں کسی نہ کسی سے بیل آوٹ ناگزیر تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ذمے 95 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرض ہے، ہو سکتا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر گزارا ہو جائے مگر مشکل زیادہ ہو گی۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف جانے کے اعلان کے ساتھ ہی اسٹاک مارکیٹ اگلے روز 600 پوائنٹس بڑھی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے معاشی عشاریوں کی بہتری کیلئے آئی ایم ایف سے قرضوں سے متعلق تمام معلومات کا تبادلہ کیا ہے جبکہ چین کو اگلے تین برس میں 90 کروڑ کی واپسی کرنی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ کرنسی شرح تبادلہ کو کنٹرول کرنا اسٹیٹ بینک کا کام ہے وزارت خزانہ کا نہیں اور آپ کو کبھی یہ سننے کو نہیں ملے گا کہ وزیر خزانہ اسٹیٹ بنک کے کام میں مداخلت کر رہے ہیں۔