• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا موجودہ حکومتی اتحاد کو دوبارہ برسر اقتدار آنے سے روکنے کے لئے یہ ایک ہی دلیل کافی نہیں کہ اِس نے بجلی پیدا کرنے کے نظام ، ریلوے، پی آئی اے اور سٹیل مل کی طرح ہائر ایجوکیشن ، تحقیق اور سائنس کی تباہی و بربادی میں اپنی سی کوئی کسر نہیں چھوڑی؟ یہ الگ بات ہے کہ ان شعبوں میں اہل دانش نے عوام کے برعکس ایک حد تک بروقت شور شرابا اور احتجاج کر کے قومی حال اور مستقبل سازی کے ان شعبوں کو مکمل تباہی سے بچا لیا وگرنہ اٹھارھویں ترمیم کی آڑ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن پر تو حکومتی کلہاڑا چل گیا تھا۔ ترمیم کی درست تشریح نہ ہوتی تو اعلیٰ تعلیم سے بیزار حکومت تو ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اس کا قابل قدر ادارہ کو جس سے متاثر ہو کر بھارت میں بھی یونیورسٹی گرانٹس کمیشن قائم کیا گیا تھا، ختم کر دیا جاتا۔
امر واقعہ تو یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی یہ ذہنیت تو شروع میں ہی بے نقاب ہو گئی تھی کہ وہ عوام کی طرح اعلیٰ تعلیم و تحقیق اور فروغ سائنس کو عوام کی طرح جوتے کی نوک پر لکھتی ہے۔ اس رویے سے اس کے تعمیر و ترقی اور جدت کی جانب رویے کا پردہ چاک ہوتا ہے۔ پاکستان کے ہر حقیقی صاحب دانش کے ذہن میں جاری دور میں یہ سوال مسلسل اٹھتا رہا ہے کہ یہ کیسا جمہوری دور ہے جس میں اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے شعبے کو فوجی ڈکٹیٹر کے دور میں ہونے والی ترقی کو ریورس کر دیا گیا ؟ اندازہ اس سے لگایا جائے کہ ہائر ایجوکیشن کا وہ بجٹ جو مشرف ، شوکت دور کے آخری سال میں 24ارب روپے تک پہنچ گیا تھا ، اسے نصف سے بھی کم کر کے اس میں سے بھی 6ارب روپے کی خطیر رقم کی کٹوتی کر کے اس ارب ہا روپے کی رقم میں شامل کیا گیا جو بارہ پندرہ سال پہلے کنٹریکٹ پر سرکاری اداروں سے فارغ کئے گئے جیالوں کو بمعہ بقایاجات بحال کر کے انہیں عنایت کئے گئے۔ ہائر ایجوکیشن کے ساتھ اس ناقابل معافی زیادتی پر نہ اپوزیشن بولی نہ انقلاب اور تبدیلی کا کوئی علمبردار اپنے دعووں کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے سراپا احتجاج بنا۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے ساتھ اس بدترین سلوک میں تسلسل رہا۔
وفاق کی اتحادی حکومت اپنا کام کرتی گئی لیکن مسلم لیگ (ن) بھی خاموش رہی اور نہ ہی برسر اقتدار آ کر تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا دعویٰ کرنے والے عمران خان بھی جس کے پاس اعلیٰ تعلیم سے وابستہ یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ کی فوج بھی ہے، علم و دانش کے اداروں پر حکومتی حملوں سے دفاع کے لئے میدان میں آئے۔ وہ میانوالی میں معیاری اعلیٰ تعلیم کی یونیورسٹی کے قابل قدر پراجیکٹ سے ہی مطمئن ہو گئے کہ اپنے دعوے کی سچائی ثابت کرنے کے لئے شاید یہی کافی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے قابل تحسین ترقیاتی پراجیکٹ ، غریب بچوں کے لئے معیاری اسکولوں کو ”دانش اسکول“ کا نام دے کر اپنی تسلی کرلی۔ ملک کی اصل دانش گاہیں تو یونیورسٹیاں ہیں جو تحقیق اور فروغ سائنس کا ذریعہ ہیں۔ میاں نواز شریف نے مردان کے جلسے میں گزرتے وقت کے عین مطابق عوام کو مخاطب کیا ہے کہ ”وہ فیصلہ کر لیں، نیا پاکستان بنائیں گے یا لوٹنے والوں کو پھر لائیں گے۔“ میاں صاحب، شاید عوام کی بدتر حالت نے وہ حالات پیدا کر دیئے ہوں کہ عوام عین پولنگ کے دن بہت خاموشی سے لٹیرے حکمرانوں سے پانچ سال کی زیادتیوں بلکہ ظلم کا بدلہ لے لیں، لیکن آپ بھی یاد رکھیں کہ دانش گاہوں اور سائنس و تحقیق کی حکومتی سرپرستی کے بغیر نئے پاکستان کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔
اس کا پہلا تقاضا تو یہ ہے کہ انتخابی پروگرام میں اسے اولیت دی جائے۔ اب تک آپ اور آپ کی ٹیم کے انتخابی مہم کے ابلاغ میں ہائر ایجوکیشن اور ریسرچ ،نہ حکومت پر مطلوب تنقید کے حوالے سے کہیں ہے۔ اتحادی حکومت نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا اس پر بھی کوئی تنقید نہیں کی جا رہی۔ پھر آپ کی اپنی بھی کوئی سنجیدہ اور ترجیحی کمٹمنٹ سامنے نہیں آئی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ عشرے میں اعلیٰ تعلیم و تحقیق اور سائنس کی ترقی کے محرک پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمن ہائر ایجوکیشن ، ریسرچ اور سائنس کے ساتھ گزشتہ 5سالوں میں ہونے والی بدسلوکی کا نوحہ علم و ثقافت کے مرکز لاہور میں پڑھ گئے۔ پنجاب کی پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں سب سے بڑی پی ایچ ڈی فیکلٹی کی حامل اور ہائر ایجوکیشن سے ڈبلیو۔4 سٹیٹس حاصل کرنے والی پہلی جامعہ، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ایم ٹی) کے سالانہ کانووکیشن میں وہ اپنی شخصیت کی نرمی و شائستگی اور اعلیٰ علمی رتبے کے قدرے برعکس جذباتی ہو گئے۔ ”عوامی حکومت“ کے ہاتھوں اعلیٰ تعلیم و تحقیق کی بے قدری بلکہ مجرمانہ اور قابل احتساب غفلت پر وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ”ہائر ایجوکیشن ، ریسرچ اور سائنس کے ساتھ حکومت جو سلوک کر رہی ہے، اس پر تعمیر قوم کے اس شعبے کو بچانے کیلئے عوام اٹھ کھڑے ہوں“۔ عوام اس کا ذرا سا بھی نوٹس لیتے، اپوزیشن اپنی حیثیت کے مطابق حکومتی اقدامات پر چیک رکھتی تو یہ نوبت نہ آتی کہ ملک کا انتہائی قابل قدر اور غیرمتنازع معلم، سائنس دان اور محقق کا ابلاغ قدرے جذباتی اور سیاسی نوعیت کا ہوتا، جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے 40منٹ کے خطاب میں تین مرتبہ ہائر ایجوکیشن اور سائنس و تحقیق کی ترجیح کی بحالی کے لئے عوام سے اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔ اُن کا یہ قدرے جذباتی ابلاغ کوئی ہوا میں نہیں تھا۔
2003 اور 2008 کے درمیان جس اعلیٰ علمی شخصیت کی کاوشوں سے ملک میں تیار ہونے والے500 پی ایچ ڈی سکالرز کی تعداد 8000سالانہ ہو گئی، یہ اس کا نوحہ تھا۔ یہ اس علم دوست پاکستانی سائنس دان کا غم تھا، جس نے بیورکریٹس تیار کرنے والے ”استاد“ کے رتبے کا معاشرتی مقام بیورو کریٹ سے بلند کرنے کے لئے یونیورسٹی لیکچرر کا تقرر گریڈ 18 اور پروفیسر کا گریڈ 21میں ممکن بنانے کے لئے اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں عالمی ٹیچر ڈے سرگرمی سے منایا جانے لگا ہے۔ یو ایم ٹی کے کانووکیشن میں ڈاکٹر عطاء الرحمن نے وہ تمام تفصیلات اعداد و شمار کے ساتھ بیان کیں جو موجودہ حکومت کی اعلیٰ تعلیم و تحقیق اور سائنس کے ساتھ بدسلوکی کے زمرے میں آتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے اپنے دور میں روایتی نیچرل ریسورسز کے مقابلے میں افرادی قوت کا پوٹینشل بڑھانے کی جو حکمت عملی اختیار کی اس میں ہم نے یوتھ کا پوٹینشل 67درجے سے بڑھا کر 137 درجے تک پہنچانے کا حیران کن ٹارگٹ حاصل کیا لیکن اب یہ فوکس ختم ہو گیا اور معاملہ ریورس میں ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ انہوں نے حکومت میں اپنے آخری سال میں منسٹری آف سائنس کا بجٹ 6ارب روپے سالانہ مختص کرایا۔ موجودہ حکومت کا آخری بجٹ ایک ارب روپے ہے۔ ابھی تو ڈاکٹر صاحب نے یہ معلوم نہیں کیا کہ یہ کہاں اور کیسے خرچ ہوا ؟ انہوں نے قوم کو اس المیے سے آگاہ کیا کہ ہم نے جو انسٹیٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی قائم کیا تھا، وہ بند ہو چکا ہے اور بھارت اس فیلڈ میں کمال ترقی سے 60بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کر چکا ہے۔ انہوں نے بتایا ہم نے جو نیشنل کمیشن آف سائنس قائم کر کے اس کے گورننگ بورڈ کا چیئرمین وزیر اعظم کو بنایا تھا، یہ ادارہ تقریباً بند کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ سوٹوں والے وزیر اعظم کے پہلے سال میں ہی یونیورسٹیوں میں تحقیق کے بجٹ میں زبردست کٹ لگا دیا گیا تھا، جس پر ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر چیخ اٹھے تھے، جس پر غیر ممالک میں پی ایچ ڈی طلبہ کو پروگرام چھوڑ کر واپس آنے کے شرمناک امکانی واقعہ کو بریک لگائی گئی جب جزوی گرانٹ بحال کی گئی۔ جو انتقامی سلوک اپنے ہی مقرر کردہ چیئرمین ایچ ای سی کے ساتھ کیا گیا کہ ”وہ ترقیاتی گرانٹ کی بحالی کے لئے وائس چانسلرز کے ہمنوا کیوں ہیں“ ۔ (جاری ہے)
تازہ ترین