• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابنِ خلدون... تاریخ اور جدید عمرانیات کا امام

زبیر احمد علیمی

علّامہ ابنِ خلدون کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ نہ صرف فلسفۂ تاریخ کے موجد و بانی ہیں، بلکہ عمرانیات، سیاسیات اور اقتصادیات کے کئی مبادی اصول بھی اُن سے منسوب ہیں۔ یمن کے شہر، حضر الموت کے رہنے والے، حضرت وائل بن حجرؓ کی نسل سے تھے۔ تیسری صدی ہجری کے اواخر میں، جب امیر عبداللہ مروانی کا دَور دَورہ تھا، ابنِ خلدون کے اجداد، حضرالموت سے اندلس کے شہر، قرمونہ (Carmona)ہجرت کر گئے۔ پھر اشبیلیہ (Seville) پہنچے۔ بعد ازاں، ساتویں صدی ہجری کے وسط میں تیونس ہجرت کی۔ وہیں یکم رمضان 732ھ(27 مئی1332ء) کو ابنِ خلدون پیدا ہوئے۔ ابنِ خلدون ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ چناں چہ اُنھیں جید علمائے کرام سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ حفظِ قرآن اور قرأتِ سبعہ کی تعلیم، ابو عبداللہ محمّد بن نزل انصاری سے حاصل کی۔ اپنے والد اور دیگر مشائخ مثلاً ابو عبد اللہ محمّد عربی، ابوعبد اللہ شواش اور ابو العبّاس وغیرہ سے علومِ اصول و فقہ اور ابو عبداللہ محمّد بن محمّد عبداللہ الحیانی اور ابو القاسم محمّد سے علم المعانی، فلسفہ، منطق، ریاضی اور علومِ لسانیات و انشاء کا درس لیا۔ 

الاجازۃ فی الحدیث ابو عبد اللہ بن محمّد جابر سے، جو اُس وقت کے امام المحدثین تھے، حاصل کی۔ اشعار کی بھی کچھ کُتب حفظ کیں، مثلاً حمّاسہ، متبنیٰ اور کتاب الاغانی وغیرہ۔ کچھ عرصے بعد اُن کے خاندان نے طاعون کے خوف سے تیونس سے’’ ہوارہ‘‘ کا رُخ کیا۔ ابنِ خلدون نے اوائلِ عُمر ہی میں ابنِ بطوطہ کی طرح دنیا کی سیّاحت کی۔ وہ قفصہ، زاب اور بسکرہ میں مختصر قیام کرتے ہوئے تلمسان پہنچے۔ وہاں عبد اللہ بن ابو عمرو کی صحبت میں علومِ باطن کی تحصیل میں مصروفِ عمل رہے۔ مزید برآں، ابو عبد اللہ محمّد بن عبد الرزاق، ابو عبد اللہ بن محمّد بن الصفا مراکشی، ابو عبد اللہ المغربی، ابو عبد اللہ محمّد بن احمد العلوی سے استفادہ کیا۔

755ھ میں سلطان ابو عنان المرینی، والئی تلمسان نے علّامہ کو طلب کیا۔ وہاں گئے، تو بادشاہ نے اُنھیں عزّت و شرف سے نوازا اور عہدۂ کتابت تفویض کیا، جس پر ہم عصروں میں حسد اور جلن کا لاوا پھٹنے لگا، جو بالآخر ابنِ خلدون کی قید تک جا پہنچا۔ 759 ھ میں سلطان کا انتقال ہوا، تو رہائی ملی۔ بعدازاں، سلطان ابو سالم مرینی، ابنِ خلدون کو تلمسان لے آیا اور پھر فاس لے گیا۔ زمانے کی گردش دیکھیے کہ وہاں بھی اُنھیں مخالفین کا سامنا رہا اور دوبارہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا۔ قید سے رہائی کے بعد علّامہ ابنِ خلدون غرناطہ پہنچ گئے۔اُس وقت کا حاکم عبد اللہ اُن کی آمد پربے انتہا خوش ہوا اور رہنے کے لیے شان دار مکان دیا۔765ھ میں علّامہ نے قشتالہ کا رُخ کیا، پھر اُنھیں اپنے اہل و عیال کی یاد ستانے لگی، تو تیونس پہنچ گئے۔ کچھ عرصہ وہاں گزار کر تلمسان چلے گئے، جہاں اُنھیں بڑے، بڑے عُہدوں پر فائز کیا گیا۔

ابنِ خلدون نے کئی کتابیں تصنیف کیں، مگر چند ایک کے علاوہ باقی کُتب کا کچھ اَتا پتا نہیں۔ اُن کی سب سے مشہور کتاب’’ تاریخِ ابنِ خلدون‘‘ ہے، جس کا پورا نام’’ کتاب العبرو دیوان المبتداء و الخبر فی ایّام العرب والعجم والبربر ومن عاصرھم من ذوی السلطان الاکبر‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ، روزنامچے اور ذاتی مشاہدات لکھنے میں ابنِ خلدون کا ثانی نہیں۔ اُنھوں نے روز مرّہ کے حالات و مشاہدات یورپی اسلوب میں پیش کیے۔ ابنِ خلدون تلمسان میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ چار سال اقامت پذیر رہے اور یہیں اپنی شہرۂ آفاق تاریخ کی ابتدا کی۔ پھر اپنے وطن تیونس جانے کا اشتیاق ہوا۔ وہاں پہنچے تو حاکمِ تیونس نے اُنھیں اپنا پرائیویٹ سیکریٹری بنا لیا اور تاریخ کی کتاب کی تکمیل پر آمادہ کیا۔ سو، ابنِ خلدون نے کامل اطمینان کے ساتھ اپنی تاریخ کی کتاب کی طرف توجّہ مبذول کی۔ جب حاکمِ تیونس کے یہاں حاسدین کی طرف سے سازشیں بڑھنے لگیں، تو علّامہ دل برداشتہ ہو کر اسکندریہ جا پہنچے، پھر قاہرہ کا رُخ کیا اور وہاں خلافتِ عباسیہ کے شہرۂ آفاق ادارے، جامعہ ازہر میں فقہ مالکی کی تدریس میں مصروف ہوگئے۔ اسی دَوران اُنھوں نے اپنے اہلِ خانہ کو تیونس سے قاہرہ بلوایا، مگر اثنائے راہ میں تمام افراد سمندر کی نذر ہو گئے۔ اس حادثے نے اُنھیں اندر سے توڑ کر رکھ دیا اوروہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر حج کی ادائی کے لیے چلے گئے۔ ایک سال مکّہ مکرمہ میں قیام کے بعد 790ھ میں مِصر لَوٹے۔وہیں 808ھ میں یہ عظیم مؤرخ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ ابنِ خلدون کی قبر کہاں ہے؟ اس حوالے سے تاریخ خاموش ہے۔

تازہ ترین