• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالتا ہوں اور میڈیا کی بے چینی اور حزب مخالف کی چالوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے مولانا حسرت موہانی کا وہ مقبول شعر یاد آتا ہے؎

غم آرزو کا حسرتؔ، سبب اور کیا بتائوں

میری ہمتوں کی پستی، میرے شوق کی بلندی

یقینی رکھیے میرا کسی پارٹی سے کچھ لینا دینا نہیں۔ میری پارٹی پاکستان اور میرا سیاسی قائد، قائد اعظم ہیں اور بس۔ شاید اسی لئے بہت سے حکمران نظر میں جچتے ہی نہیں۔

کوئی حسیں حسیں ہی ٹھہرتا نہیں جگر ؔ

باز آئے اس بلندیٔ ذوقِ نظر سے ہم

علامتی، ملامتی اور افسانوی انداز میرا انداز نہیں کیونکہ میں سیدھی سادی بات کہنے کا عادی ہوں۔ ’’غم آرزو‘‘ ہمارے سیاسی منظر نامے کا سب سے گمھبیرپہلو ہے اور وہ اس طرح کہ بےتاب میڈیا، خبر کا بھوکامیڈیا، ہر روز سنسنی کا متلاشی میڈیا اور غصیلی حزب مخالف جو دہائیوں سے حکمرانی کے’’لوشے‘‘ لوٹ رہی تھی نو آموز اور ناتجربہ کار حکومت کو ساٹھ، ستر دن سے زیادہ وقت دینے کو تیار نہیں۔ سو دن کا چرچا تھا جو میرے نزدیک کسی حد تک ناقابل عمل لگتا تھا لیکن بے چین میڈیا اور زخمی حزب مخالف سو دن بھی انتظار کرنے کو تیار نہیں۔ حکمران جماعت اور اس کے قائد کے’’غمِ آرزو‘‘ کا سبب اس کی نرگسیت، خود ا عتمادی، حسن ظن اور اپنی ذات پر ضرورت سے زیادہ اعتماد(Over confidence)ہے۔ اپوزیشن میں رہ کر اور گزشتہ حکومت کے خلاف مہم جوئی کرتے ’’اسے‘‘ اندازہ ہی نہیں تھا کہ حکومتیں کس طرح چلتی ہیں، حکومتی ادارے خیراتی ادارے نہیں ہوتے اور نہ ہی اسے مالی، معاشی، جغرافیائی، بین الاقوامی اور گھریلو چیلنجوں کا ادراک تھا۔ میرے نزدیک یہ محض ہوس اقتدار کا شاخسانہ نہیں تھا جیسے اپوزیشن کئی ماہ سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے بلکہ یہ اس کے غم آرزو یعنی اپنی ذات کے حوالے سے غیر حقیقی توقعات تھیں جو اسے خواب دکھاتی تھیں کہ وہ ملک کے مسائل کا’’حل‘‘ ہے اور اس کے اندر وہ جادو چھپا ہوا ہے جو کرسی اقتدار پر بیٹھتے ہی مسائل کا حل پیش کرنا شروع کردے گا۔ بیرون ملک پاکستانیوں، سعودی عرب، یو اے ای، چین اور اپنے ہم وطنوں سے مبالغہ آمیز امیدیں اور نرگسیت، خود پسندی اور حقائق سے ماورا اعتماد نے اسے دھوکا دیا کیونکہ اس نے جو خواب دیکھے تھے وہ اب حقائق کی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہورہے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ہے جسے ہم خود کشی کے مترادف سمجھتے تھے۔ دراصل دوستو! ہیرو کی نفسیات عام لوگوں سے بالکل مختلف ہوتی ہے، جب کسی شخص کو اس کی’’فتوحات‘‘ قومی ہیرو کے تخت پر متمکن کردیں تو پھر وہ قلوپطرہ کی مانند یہ سمجھتا ہے کہ She came, She saw & She conqueredہیرو کی نرگسیت اسے اس حسن ظن اور خوش گمانی میں مبتلا کردیتی ہے کہ بس وہ جدھر نظر ڈالے گا، وسائل کے انبار اور مسائل کے حل لپکتے چلے آئیں گے۔ افسوس سیاسی زندگی کے حقائق بالکل مختلف ہوتے ہیں اور اس سنگلاخ وادی سے گزرتے ہوئے پائوں بھی زخمی ہوتے ہیں، خواب بھی پارہ پارہ ہوتا ہے اور انسان حالات کے شکنجے میں بھی کسا رہتا ہے۔ اچھا ہوا عمران خان نے ہاتھ میں تسبیح پکڑ لی ، اگر یہ تسبیح اسے صبر اور صرف صبر سکھا دے تو یاد رکھیں صبر کامیابی کی کنجی ہے۔ اسی صبر کی دین ہے کہ وہ کم بولتا ہے ،غیر ضروری میڈیا ملاقاتیں نہیں کرتا اور یوں تاثر دیتا ہے جیسے وہ ہمہ وقت کام کرنے، منصوبہ بندی اور حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف رہتا ہے جبکہ بے چین میڈیا کرامات کی امید لگائے مایوسی پھیلا رہا ہے اور ہر طرف ناکامی ،ناکامی کا تاثر دے کر مخالفوں کی زبان بول رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سادگی و بچت کی مہم، صاف اور سرسبز پاکستان، کرپشن کے خلاف جہاد اور بیوروکریسی کو سیاسی دبائو سے آزاد کرنے کی پالیسیاں نہایت بروقت اور قومی خدمت ہیں۔ پاکستان کے چہرے کو صاف کرنا اور اسے سرسبز بنانا یقیناً کارنامہ ہوگا اگر اس پرخلوص نیت سے جزئیات تک عمل کردیا جائے۔ گزشتہ سال کے اواخر میں مجھے چند نوجوان پولیس افسروں نے چائے پر مدعو کیا اور اراکین اسمبلیوں کی’’تابع محمل‘‘ بنا کر رکھنے کی تفصیلات سنائیں تو میں مجروح دل اور اداس آنکھوں کے ساتھ گھر لوٹا۔ بوالعجب نہیں یہ موجودہ حکومت کے بھی تضادات ہیں جو مخالفوں کو تمسخر اڑانے کا موقع دیتے ہیں۔ وزیر اعظم نے لاہور میں اعلیٰ افسران کو خطاب کے دوران قانون کی حکمرانی کا پیغام دیا، آزادی سے کام کرنے کا مژدہ سنایا اور اگلے ہی روز وزیر اعلیٰ پنجاب نے تھیلے سے بلی نکال کر اعلان کردیا کہ ہر ایم پی اے اور ایم این اے اپنے ضلع کا وزیر اعلیٰ ہے۔ اس پر مہر تصدیق انفارمیشن منسٹر فواد چوہدری نے یہ کہہ کر ثبت کردی کہ جو سرکاری افسر منتخب اراکین کا کہنا نہیں مانے گا وہ گھر جائے گا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ان صاحبان ذی وقار کے احکامات اور خواہشات کیا ہوتی ہیں؟ 39سالہ سرکاری ملازمت کے تجربے کی بنیاد پر عرض کرتا ہوں کہ 99فیصد ناجائز، خلاف قانون اور اکثر خلاف اخلاق سفارشیں! ایک مثال منشا بم کے لئے لاہوری اراکین اسمبلیوں کی سفارش تھی جو فاش ہوگئی ورنہ کسی کو علم تک نہ ہوتا۔ عمران خان کو اندرونی تضادات کا علاج کرنا ہوگا ورنہ یہ مرض پھیلتا جائے گا۔

عالمی تاریخ گواہ ہے کہ اکثر کامیاب حکمرانوں کی کامیابی کا راز حکمران کا اپنی شخصیت پر بے حد ا عتماد اور عزم غیر متزلزل میں مضمر تھا۔ خود عمران خان بھی اس خوبی کی زلف کا اسیر لگتا ہے، اگر وہ عزم غیر متزلزل کی بدولت چند اہم قومی خدمات سرانجام دینے میں کامیاب ہوجائے تو یہ حیرت کی بات نہ ہوگی۔ ان خدمات میں لوٹی گئی دولت کو بیرون ملک سے واپس لانا بھی نہایت اہم ہے۔ بےچین نہ ہوں، اس راہ میں بھاری رکاوٹیں ہیں جنہیں ہٹانے میں وقت لگے گا۔

16اکتوبر یوم شہادت لیاقت علی خان ہے ان جیسا بے غرض، قانون کا پابند، بہادر و باصلاحیت اور محب الوطن وزیر پاکستان کو نصیب نہ ہوسکا۔ ان کی شہادت ایک راز ہے اور تازہ تحقیق کی انگلیاں امریکہ کی جانب اٹھ رہی ہیں۔ فواد چوہدری کا یہ بیان کہ امریکہ کی تابعداری کی بنیاد پہلے وزیر اعظم نے رکھ دی تھی ان کی سطحی انفارمیشن کی عکاسی کرتا ہے جبکہ اس منصب پر ذمہ دارانہ بیانات کی توقع کی جاتی ہے۔ موضوع طویل ان شاء اللہ پھر کبھی لیکن عمران خان یاد رکھیں میں نے اپنی گنہگار آنکھوں سے بعض حکومتوں کو وزراء کے غیر دانشمندانہ بیانات اور غیر ضروری پبلسٹی کے سیلاب میں بہتے دیکھا ہے۔ تاریخ سے سبق سیکھو اس سے قبل کہ تم خود تاریخ بن جائو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین